وقت گزر رہا ہے


شاہد خاقان عباسی مئی 1988 کے سانحہ اوجڑی کیمپ کے پس منظر میں سیاسی منظر پر نمودار ہوئے۔ راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 2002 اور 2018 کے انتخابات میں شکست کے سوا مسلسل رکن پارلیمنٹ چلے آتے ہیں۔ عسکری پس منظر اور دائیں بازو کی سیاست کرنے والے شاہد خاقان نے نوے کی شور انگیز دہائی میں بھی غیر متنازع شناخت قائم رکھی۔ اکتوبر 1999ء میں وہ پی آئی اے کے سربراہ تھے اور طیارہ اغوا کیس میں ان کی استقامت نے ان کی سیاسی قامت واضح کی۔ اگست 2017 میں انہیں ایک مشکل ذمہ داری دی گئی اور وہ اس اعتماد پر پورے اترے۔ جولائی 2018 سے شروع ہونے والے بندوبست اور احتساب کی آزمائش میں شاہد خاقان ایک قد آور جمہوری رہنما کے طور پر ابھرے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شائستہ مزاج شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ دنوں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپنی جماعت کے نائب صدر سینیٹر پرویز رشید پر جس لہجے میں تنقید کی اس نے بہت سے مبصرین کو حیران کیا ہے۔ نو جنوری کو سینیٹ کے جس اجلاس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت کا قانون منظور کیا گیا، سینیٹر پرویز رشید نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ تاہم محترم پرویز رشید کے ہمراہ مسلم لیگ نواز کے چھ دیگر ارکان سینٹ نے بھی اس اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔ شاہد خاقان عباسی کا صرف پرویز رشید کو تنقید کا نشانہ بنانا معنی سے خالی نہیں۔ شاہد خاقان سے بہتر کون جانتا ہے کہ پرویز رشید، رضا ربانی اور حاصل بزنجو جیسے سیاست دان کس کی آنکھ میں کھٹکتے ہیں۔ اس انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے “خلائی مخلوق” کی اس اصطلاح سے بھی دستبرداری اختیار کر لی جو میاں نواز شریف نے دو مئی 2018ء کو صادق آباد کے جلسے میں استعمال کی تھی۔ نواز شریف نے تو یہ اصطلاح واپس نہیں لی لیکن مذکورہ انٹرویو میں شاہد خاقان معنی خیز انداز میں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر تسلیم کرتے سنائی دیے۔

مسلم لیگ میں دو متوازی بیانیے موجود ہیں۔ ایک کی قیادت نواز شریف کرتے ہیں، مریم نواز اور پرویز رشید کو اس موقف کا مضبوط حامی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے بیانیے کی قیادت شہباز شریف کے پاس ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہد خاقان سمیت مسلم لیگ کی قیادت میں شہباز شریف کی عملیت پسندی کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو رہا ہے۔ مشکل اس میں یہ ہے کہ مسلم لیگی ووٹر بدستور نواز شریف ہی کو مسلم لیگ کا قائد تسلیم کرتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کی حامی رائے عامہ آصف زرداری کی متنوع صلاحیتوں کے باوجود بلاول بھٹو سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ ہمارے سیاسی ارتقا میں یہ مرحلہ 2008 سے 2018 تک کے دو سیاسی ادوار کا مرہون منت ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود یکے بعد دیگرے دو سیاسی حکومتوں میں معاشی صورت حال، خارجہ ساکھ اور شہری آزادیوں کی صورت حال نے لاشعوری طور پر رائے عامہ کو متاثر کیا ہے۔

جولائی 2018 میں قائم ہونے والی موجودہ حکومت کی جمہوری ساکھ 2002ء کے تجربے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ اگرچہ یہ امکان موجود تھا کہ ماضی میں ایسے بندوبست معاشی ترقی اور انتظامی استحکام کا تاثر قائم کرتے رہے ہیں۔ ریاست کی پشت پناہی سے مرتب ہونے والی تازہ بساط بھی شاید بہتر نتائج دینے میں کامیاب رہے۔ تاہم گزشتہ دو برس میں حکومت کی خراب معاشی کارکردگی، انتظامی ناکردہ کاری اور سیاسی پخت و پز میں حیران کن ناکامی نے موجودہ بندوبست میں بارودی سرنگیں لگا دی ہیں۔ حکومت کی کارکردگی ہرگز ناتجربہ کاری کا نتیجہ نہیں۔ معدودے چند کے سوا حکومت میں نہایت تجربہ کار افراد موجود ہیں۔ تیز رفتار زوال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری کھرے پن کی کھنک سے عاری ہے۔ حکومت بنانے کے جوش میں ایسے عناصر سے ہاتھ ملایا گیا جو سیاسی سوچ کی بجائے خالص کاروباری مہم جوئی میں یقین رکھتے ہیں۔ دو برس میں جی ڈی پی کا چھٹا حصہ غتربود ہو گیا ہے۔ بیرونی دنیا میں قوم کی شبیہ بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ قرضوں کا بحران عارضی اقدامات سے حل ہونے والا نہیں۔

خارجہ پالیسی میں ہم بری طرح منقسم ہیں۔ ویسٹ منسٹر نمونے سے جنم لینے والی ریاست للچائی ہوئی نظروں سے ان ممالک کی طرف دیکھ رہی ہے جہاں سرمایہ دار معیشت اور تحکمانہ سیاسی نظام کا ملغوبہ کارفرما ہے۔ ماضی میں اشتراکی تجربہ اٹھا کر دیکھ لیں یا حال میں ترکی کی معیشت پر نظر ڈال لیں۔ معیشت اور سیاسی کھلے پن میں نظر نہ آنے والا ناگزیر رشتہ موجود ہے۔ امریکا اور بھارت میں منافرانہ سیاست کے وقتی ابھار پر نہ جائیے۔ قومیں تاریخ کے بہاؤ کا صحیح انتخاب کرنے سے آگے بڑھتی ہیں۔ اس موقع پر ہماری جمہوری قیادت نے اگر کسی رفوگری میں ہاتھ بٹانے کی کوشش کی تو دس سالہ جمہوری تجربے کے ثمرات ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے، قوم میں سیاسی قنوطیت بڑھے گی اور قومی ترقی کا خواب کئی برس کے لئے پیچھے چلا جائے گا۔

ہماری تین بنیادی مشکلات ہیں، اول: خوفناک رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی، دوم: ناخواندگی اور غیرمعیاری تعلیم: اور سوم، معیشت کی کمزور پیداواری بنیاد۔ یہ تینوں مسائل سیاسی عدم استحکام سے جڑے ہوئے ہیں، آدھی آبادی کو ہم نے مفلوج کر رکھا ہے، باصلاحیت افراد ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ہمارے مقتدر طبقے میں جمہوریت کا فہم بے حد کمزور ہے۔ ممکن ہے کہ مقتدر طبقہ جمہوریت کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو لیکن اس ملک کے کروڑوں غریب لوگوں کو معاشی مواقع اور جمہوری آزادیوں کی ضرورت ہے۔ ملک ہنگامی تعطل کا شکار رہے گا تو مقتدر طبقے کی پرتعیش بے گانگی بھی قائم نہیں رہ سکے گی۔ یہ سیاسی جھرلو کا وقت نہیں، چند برس پہلے اپنے معاشی ہدف طے کرنے والی قومیں منزلیں مار رہی ہیں۔ اگلے چند برس میں ٹیکنالوجی کا آٹومیشن انقلاب ہمیں مزید پسماندہ کر دے گا۔ سرد جنگ کا زمانہ گزر گیا جب بوجوہ ہمارے نخرے اٹھائے جاتے تھے۔ ہم آج معیشت کی گاڑی پر جمہوریت کا انجن نصب کریں گے تو اگلے بیس برس میں یہی آبادی ہمارا اثاثہ بن سکے گی اور یہی محل و وقوع ہمیں دنیا میں ایک کلیدی اہمیت عطا کر سکے گا۔

دیر کیا ہے آنے والے موسمو

دن گزرتے جا رہے ہیں، ہم چلے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments