’شعیب اختر صاحب، گھاس کھانے کے لیے اقتدار کیوں چاہیے؟‘ راولپنڈی ایکسپریس کی جانب سے فوج کا بجٹ بڑھانے والے بیان پر سوشل میڈیا صارفین کا ردِعمل


شعیب

’راولپنڈی ایکپسریس‘ کے نام سے جانے جانے والے سابقہ پاکستانی کرکٹر شعیب اختر اور ان کے باؤنسرز کے بارے میں تو آپ نے سن ہی رکھا ہوگا، ارے ہم کرکٹ کی گیندوں والے باؤنسرز کی بات نہیں کر رہے۔

راولپنڈی ایکسپریس وقتاً فوقتاً منھ سے بھی ایسے باؤنسرز پھینکنے کے حوالے سے مشہور ہیں اور حال ہی میں بھی انھوں نے کچھ ایسے ہی باؤنسر کرائے ہیں جنھیں لے کر نا صرف پاکستان بلکہ پڑوسی ملک کے سوشل میڈیا پر بھی کافی ہنگامہ برپا ہے۔

تو ہوا کچھ یوں کہ چند روز قبل نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر میزبان وسیم بادامی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ’سیاست میں آنے کے ارادے‘ سے متعلق سوال کے جواب میں سابقہ پاکستانی کرکٹر کا کہنا تھا کہ ویسے تو ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی ان کی والدہ انھیں سیاست میں آنے کی اجازت دیں گی لیکن اگر خدا سے کبھی موقع دیا تو وہ اپنے چیف آف سٹاف کو اپنے ساتھ بٹھائیں گے اور ان کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں گے ’میں انھیں کہوں گا کہ میرے ساتھ بیٹھیں اور میرے ساتھ مل کر فیصلہ لیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام سیاسی لیڈروں کے فین ہیں کیونکہ ان سب نے جدوجہد کی ہے لیکن ساتھ ہی فوج نے بھی جدوجہد کی ہے اور اسے مانا جانا چاہیے۔

شعیب اختر کا کہنا تھا کہ انھیں سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں فوج اور سویلین ادارے ایک ساتھ مل کر کام کیوں نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر موقع ملا تو ان کے دورِ حکومت میں سویلین اور فوجی ادارے مل کر کام کریں گے۔

’میں فوج کا بجٹ 20 سے 60 فیصد کر دوں گا۔ میں خود گھاس کھا لوں گا لیکن فوج کو پالوں گا۔‘

مذکورہ انٹرویو کے دوران شعیب اختر کا یہ بھی کہنا تہھا کہ وہ آدھے فوجی اور آدھے ڈیموکریٹ ہیں۔ اس کےعلاوہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میں خود ناصرف جی ایچ کیو کی پیداوار ہوں بلکہ میرا تو کلب ہی جی ایچ کیو تھا۔‘

سوشل میڈیا پر ردِ عمل:

سوشل میڈیا پر جہاں کئی صارفین شعیب کے بیان کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور ان کی تعریف کر رہے ہیں وہیں ان ہر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں۔

احمد عمر نامی صارف کہتے ہیں ’شعیب اختر صاحب، گھاس کھانے کے لیے اقتدار کیوں چاہیے؟ اگر جذبہ سچا ہے تو ابھی بھی اپنی جائیداد فوج کے حوالے کر کے گھاس کھا سکتے ہیں۔‘

علی باری نامی صارف بھی احمد سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں ’جب اختیار ملنے کے بعد اکیلے ہی گھاس کھانی ہے تو ابھی کھا لیں ایک ہی بات ہے۔‘ ساتھ ہی وہ پوچھتے نظر آئے کہ شعیب اختر کب اپنی زندگی بھر کی کمائی پاکستان کے قومی خزانے میں جمع کروا رہے ہیں؟

شعیب اختر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے فروا نامی صارف کہتی ہیں ’شعیب کا فرمان ہے کہ گھاس کھاؤں گا لیکن چیف کے ساتھ بیٹھوں گا۔ جو کبھی سلیکٹرز کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھا وہ آرمی چیف کے ساتھ بیٹھے گا۔‘

شاعر اور مصنف عاطف توقیر دعاگو ہیں کہ ’اللہ آفریدی بھائی کے بعد شعیب بھائی کو بھی وطن کی خدمت کا موقع دے۔‘

ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’ویسے شعیب بھائی سوال یہ ہے کہ ساتھ بڑھا کر سارے فیصلے لیں گے یا ساتھ بٹھا کر سارے فیصلے اپنے سر لیں گے؟ یہ بات کہنا کیوں اور کتنا مشکل ہے کہ تمام لوگ قانون کے مطابق کام کریں کہ یہ ملک آگے بڑھے؟‘

روبیہ ابراہیم نامی صارف پوچھتی نظر آئیں کہ کیا شعیب بھی نیا پاکستان بنانے کے چکروں میں ہیں؟

کئی صارفین تو انھیں شاہد آفریدی کے مقابلے کا تگڑا امیدوار مان رہے ہیں۔ جبکہ کئی صارفین کا کہنا ہے ’راولپنڈی ایکسپریس پھر لیٹ ہوگٸی کیونکہ بوم بوم آفریدی اسٹیشن پر لگ چکی ہے۔‘

یاد رہے پاکستان میں کئی حلقے سابقہ کرکٹر شاہد آفریدی کو مستقبل میں وزیرِاعظم کے عہدے کا ممکنہ امیدوار سمجھتے ہیں۔

جہاں کئی صارفین انھیں سیاست میں خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں اور وہیں کئی ایسے بھی جن سوال کر رہے ہیں کہ عمران خان کے بعد، شاہد آفریدی سے لے کر شعیب اختر تک ہر کرکٹر کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ سیاست میں ان کا چانس ہے؟

جہاں عثمان علی اکرم نامی صارف اس مقصد کے حصول کے لیے شعیب کے لیے دعاگو ہیں وہیں شعیب کے بیان سے ڈیسپریٹ افیر نامی صارف کا دل بھی خوش ہو گیا ہے۔

مشتاق ملک کہتے ہیں چونکہ شعیب اختر ایک ریٹائرڈ آرمی صوبیدار کے بیٹے ہیں اس لیے انھیں فوج کی خدمت اور عزت کا پورا خیال ہے۔

برکت خٹک کا کہنا ہے کہ اگر شعیب اختر جیسا حکمران آئے تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔

فیاض ملک نامی صارف نے شعیب اختر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ’شعیب اختر بڑے کھلاڑی ہیں، یقیناً ان کے علم میں ہو گا کہ پریکٹس کس قدر اہم شے ہے ،لہٰذا جب تک ساتھ بٹھانے کا ’اختیار‘ نہیں مل جاتا گھاس کھانے کی پریکٹس کرتے رہیں، کام آئے گی۔‘

کئی صارفین شعیب پر تنقید کرنے والوں کو کہتے نظر آئے کہ اپنے کرکٹرز کی عزت کرنا سیکھیں کیونکہ کیا معلوم کون کب وزیرِ اعظم لگ جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp