’فیکس تیموری‘ اور نفسیات کا کاروبار


کراچی شہر میں ’چائنہ کٹنگ‘ کی اصطلاح آج سے تیرہ سال قبل عام ہوئی۔ یہ اصطلاح ہمارے ذرائع ابلاغ نے سار ے ملک میں پھیلادی۔ مگر چائنہ کٹنگ ہے کیا اور تب کراچی میں ہو کیا رہا تھا جس میں بیچارے چائنہ کا نام بے وجہ ہی بدنام کر دیا گیا؟

ہوا کچھ یوں کہ ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرکے ’پراپر‘ کالونیاں بنائی گئیں، قبرستان پر زندوں کے مکان بنے، پارکوں میں گھروں کی قطاریں ابھریں۔ اس قبضے کو سب نے دیکھا۔ سب نے سوال اٹھایا۔ انسان دونمبری کو پہچان تو لیتا ہے، بھلے بعد میں اس کو تاویلات کے پردے میں چھپا دے۔ زمینوں پر قبضہ اور اس پر بنی آبادیاں سب کو نظر آجاتی ہیں۔ لوگ تجاوزات پر احتجاج کر لیتے ہیں۔ اس احتجاج سے تجاوزات مکمل ختم تونہیں ہوتے لیکن جعل سازوں کی تھوڑی ہمت ٹوٹتی ضرور ہے پھر کچھ اور قسم کے تجاوزات بھی اکثر سامنے آہی جاتے ہیں۔

جیسے پی آئی اے کے پائیلیٹس کی جعلی ڈگریاں۔ یہ معاملہ بھی عوام کے سامنے آیا اور کارروائی بھی ہوئی۔ اس معاملے میں اتنی سختی اس لیے تھی کہ ایک جہاز کے پائیلٹ ہاتھوں میں بہت سارے انسانوں کے زندگی ہوتی ہے؟ مگر ایک دنیا ایسی بھی ہے جو کہ تجاوزات سے مکمل طور پرگھر گئی ہے مگر اس کی کسی کو خبر ہی نہیں۔ چلئے ہم آپ کو اس دنیا کی سیر کراتے ہیں۔

ملئے فیکس تیموری سے۔ فیکس اصل نام فوق تیمور ہے مگر اسٹائل میں آنے کے لئے وہ ’فیکس‘ بن گئے۔ فیکس نفسیات دان ہیں۔ وہ ’سائیکوانالسٹ‘ ہیں۔ آپ ان کو ایک ننھا سا فرائیڈ ہی سمجھ لیجیے۔ فیکس ہائی کلاس میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ وہ کبھی کرکٹروں کے ساتھ چائے پیتے ہوئے تصویروں میں جھلکتے ہیں کبھی ٹی وی کے فنکاروں کے ساتھ۔ فیکس کے لمبے لمبے بال ہیں۔ وہ فر فر انگریزی بولتے ہیں۔ فیکس ایک پچاس منٹ کے سیشن کے سولہ ہزار روپے لیتے ہیں۔ فیکس کی کل تعلیم ہے نفسیات میں ماسٹرز۔

اب ملئے ڈاکٹر کمال فرمان سے۔ آپ کراچی کی مشہور شاہراہ فیصل پر کلینک کرتے ہیں۔ آپ کے پاس مریضوں کی قطار لگی رہتی ہے۔ انٹرنیٹ پر آپ کا اشتہار چلتا ہے۔ آپ کے اپنے مطابق آپ کو سی بی ٹی طریقہ نفسیاتی علاج پسند ہے۔ آپ کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ آپ موٹا چشمہ لگاتے ہیں۔ آپ فی سیشن 3 ہزار روپے لیتے ہیں۔ آپ کی کل تعلیم ہے ماسٹرز نفسیات۔ ڈویژن پوچھ کر شرمندہ نہ کریں۔

اب ملئے ڈاکٹر زہرہ برکت سے۔ زہرہ کٹر پٹر انگریزی بولتی ہیں۔ پر کٹی، کالی انگریز ہیں۔ آپ نفسیات پڑھاتی ہیں اور ایک ادارے میں ساتھ ساتھ ڈائریکٹر کی نوکری کرتی ہیں۔ آپ ٹویٹر پر ’فیمنسٹ‘ تحریک بھی چلاتی ہیں اور روز ’پدر شاہی‘ اور غیر اخلاقی حرکات کرنے والوں کے خلاف ٹویٹ کی بمباری کرتی ہیں۔ آپ این جی او کی دنیا کی شہزادی ہیں۔ آئے دن امریکا اور تھائی لینڈ گھومنے جاتی ہیں۔ ٹی وی چینلوں اور یوٹیوب پر علم نفسیات پر اتھارٹی بن کر بیٹھی نظر آتی ہیں۔ آپ کلینک بھی کرتی ہیں اور ایک پچاس منٹ کے سیشن کے 5 ہزار لیتی ہیں۔ آپ کی کل تعلیم نفسیات میں ماسٹرز ہے۔

ملئے اوج ملک سے۔ اوج کونسلنگ اور سائیکوتھراپی کی دنیا کا مشہور نام ہیں۔ اوج لوگوں کو وزن کم کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ اوج ٹی وی اور این جی او سیکٹر میں بہت فعال ہیں۔ آپ ہر جگہ علم نفسیات پر حکم بن کر بات کرتی ہیں۔ اوج ایک نفسیاتی علاج کے سیشن کے 4 ہزار لیتی ہیں۔ آپ کی کل تعلیمی قابلیت ماسٹرز ہے۔

اب ظاہر ہے کہ علم نفسیات میں ’چائنہ کٹنگ‘ کے یہ پلازے تو کسی کو نظر آتے ہیں نہیں۔ یہ بہت دھڑلے سے اپنے ناموں میں ڈاکٹر بھی لگالیتے ہیں۔ یہ ویب سائٹس پر اشتہار لگا کر اور دکان کھول کر دھڑلے سے چوری کرتے ہیں۔ کوئی سوال نہیں پوچھتا کہ بھائی تم کلینکل سائیکولوجسٹ ہو تو ذرا پی ایچ ڈی کلینیکل سائیکولوجی کی ڈگری تو دکھاؤ؟ ذرا یہ تو بتاؤ کہ کتنے سال تک سپروائزئڈ انٹرنشپ کی؟ ذرا یہ تو واضح کرو کہ سائیکوتھراپی کہاں سے سیکھی؟

مگر یہ سوال تو دور رہے کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا کہ ان میں سے کسی کے پاس ماسٹرز کی بھی ڈگری ہے۔ ان میں سے جس کا دل چاہتا ہے اپنے نام میں جو چاہے لگا لیتا ہے۔ کوئی کلینکل سائیکولوجسٹ ہے، کوئی کنسلٹنٹ کلینکل سائیکولوجسٹ ہے، کوئی کلینکل نیورو سائیکولوجسٹ ہے، کوئی سائیکوتھراپسٹ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے 4 سال تو کیا ایک سال بلکہ ایک دن بھی طبی نفسیا ت کی تربیت حاصل نہیں کی۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے نفسیاتی علاج کی تشخیص کا ایک بھی مضمون نہیں پڑھا۔

ان میں سے اکثر کسی بھی قسم کا نفسیاتی ٹیسٹ کرنے کی قابلیت بھی نہیں رکھتے۔ ان میں سے اکثر کو تو نفسیاتی نظریات پیش کرنے والے اکابر نفسیات دانوں کے نام بھی نہیں معلوم۔ ہمارے ملک کی سرکاری اور نجی جامعات میں نفسیات میں ماسٹرز کی ڈگری طبی نفسیات کی کسی بھی قسم کی عملی تربیت کے خانے سے بالکل ہی خالی ہوتی ہے۔ جو لوگ طبی نفسیات کے رخ پر جانا چاہتے ہیں ان کے لئے سلسلہ شروع ہی ماسٹرز کے بعد ہوتا ہے۔ اولاً اس سلسلے میں ایک سال کا پوسٹ ماسٹر ڈپلومہ شروع کیا گیا تھا۔

یہ ڈپلومہ بھی کسی کو کلینکل سائیکولوجسٹ بنانے کے عالمی معیار سے بہت ہی نیچے کی چیز ہے۔ پاکستان میں، بغیر کسی سینئر نفسیات دان کی رہنمائی کے کسی نفسیاتی مریض کا علاج کی قابلیت دینے والی واحد ڈگری صرف پی ایچ ڈی نفسیات ہے۔ اگر آپ کے پاس یہ ڈگری نہیں تو بھلے آپ کا نام کچھ بھی ہو، آپ نفسیاتی علاج نہیں کرسکتے۔ آپ کو انگریزی بھلے سے ملکہ برطانیہ سے بھی اچھی آتی ہو مگر انگریزی آپ کی نفسیاتی علاج کی قابلیت میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتی۔ عطائی ڈکٹروں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا ہے تو ان جعل سازوں کو کیوں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے؟ کیا کسی نفسیاتی پریشانی کے شکار شخص کی ذہنی صحت اتنی ہلکی چیز ہے کہ کوئی بھی یہاں جوتا گانٹھ سکتا ہے؟

ان نوسربازوں کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت نفسیات دان اور پان دان کے فرق سے بھی واقف نہیں۔ جب لوگوں پر پر کوئی بڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ کسی بھی ’دان‘ کی طرف دوڑ لگاتے ہیں۔ ایسے میں ان کو اپنے اپنے بجٹ سے حساب سے جعل ساز مل جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو اگر کسی گدھے کو بھی لیب کوٹ پہنا کر کھڑا کردیجئے تو لوگ اس سے بھی اپنے پرانے مرض کا علاج پوچھنے کے لئے قطار بنالیتے ہیں۔

ایسے میں نفسیاتی عوارض کے شکار افراد کو صحیح یا غلط انگریزی یا بڑی مونچھیں بہت تقویت دیتی ہیں۔ ہمارے یہاں ویسے ہی یہ مثل مشہور ہے کہ علم نفسیات پڑھنے سے انسان پاگل ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر نوسرباز نفسیاتی معالج کی کوئی حرکت عجیب سی لگے تو اسے بیچارے یا بیچاری کی علم نفسیات میں فرسٹ پوزیشن کا سرٹیفیکیٹ آف میرٹ سمجھ لیا جاتا ہے۔

بات گھوم پھر کر نفسیاتی علاج کا لائسنس دینے کے اتھارٹی بنانے پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اور وہاں بھی یہی لوگ سد راہ بن جاتے ہیں۔ یہی لوگ کبھی ایسی قانون سازی ہونے ہی نہیں دیتے کیونکہ یوں ان کی جڑ کٹتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہر قسم کے فریبی کھلے گھومتے ہیں اور نفسیاتی علاج کے نام پر کسی بھی نوع کی بد اخلاقی کی روک تھام کا ہمارے ملک میں کوئی نظام بن ہی نہیں پاتا۔ شاید یہ سارا ہی معاشرہ اس معاملے میں کسی بہت ہی بڑے اسکینڈل کا منتظر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).