چین: ’مجھے 32 سال لگے لیکن میں نے اپنے اغوا ہونے والے بیٹے کو ڈھونڈ نکالا‘


لی جینگزی

جب لی جینگزی 32 برس بعد بیٹے سے ملیں

لی جینگزی نے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ اپنے بیٹے ماؤ ین کی تلاش میں گزار دیا۔ ماؤ ین کو سنہ 1988 میں اغوا کرنے کے بعد بیچ دیا گیا تھا۔ لی اپنے بیٹے سے دوبارہ ملنے کی امید کھو بیٹھی تھیں لیکن رواں برس مئی میں انھیں ایک فون کال موصول ہوئی جس کی وہ سالہا سال سے منتظر تھیں۔

ہفتہ وار چھٹی کے دوران جینگزی اور ان کے شوہر ننھے ماؤ کو لے کر چڑیا گھر جاتے یا شہر کے بہت سے پارکس میں سے کسی ایک میں۔ وہ شنگھائی کے مرکزی شہر زیان میں رہتے تھے۔ باہر گھومنے پھرنے کے ان دنوں کی یادیں ہمیشہ تروتازہ رہی ہیں۔

ان کے بیٹے کی عمر تقریباً ڈیڑھ برس تھی۔

جینگزی کہتی ہیں کہ ہم اسے شہر کے ایک چڑیا گھر میں لے کر گئے۔ اس نے وہاں زمین پر ایک کیڑا دیکھا۔

وہ بہت متجسس ہوا اور اس کی جانب اشارہ کر کے کہنے لگا ماما کیڑا! اور جیسے ہی میں اسے چڑیا گھر سے باہر لے کر گئی تو میں نے دیکھا کہ اس نے کیڑے کو اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور اس نے اسے میرے چہرے کے قریب کیا۔

یہ بھی پڑھیے

گیارہ برس بعد خاندان ایک ہوا

‘میں چاہتی ہوں 20 برس بعد تم کو یہ معلوم ہو’

‘بیٹا ماں بھی مر چلی ہے تیرے انتظار میں’

جیا جیا

ماؤ ین ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ان دنوں چین میں ون چائلڈ پالیسی یعنی ایک بچہ پیدا کرنے کی پالیسی عروج پر تھی۔ اس وقت دوسرے بچے کو پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

وہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا پڑھے لکھے اور کامیاب ہو۔ اس لیے انھوں نے اپنے بیٹے کو جیا جیا کا نام دیا جس کا مطلب ہے عظیم۔

جیا جیا بہت ہی اچھی عادتوں کا مالک تھا۔ سمارٹ اور فرمانبردار اور سمجھدار بچہ۔ وہ رونے والا بچہ نہیں تھا۔ وہ بہت پیارا اور خوش باش بچہ تھا۔ اس کی والدہ جینگزی کہتی ہیں کہ وہ ایسا تھا کہ کوئی جیسے ہی اسے دیکھتا تو اسے پسند کرتا تھا۔

وہ اور ان کے شوہر کام پر جانے سے پہلے اپنے بچے کو صبح بچوں کے کئیر ہوم میں چھوڑتے تھے اور شام کو واپس لینے کے لیے جاتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہر روز کام کے بعد میں اپنے بچے کے ساتھ کھیلتی تھی۔ میں بہت خوش تھی۔‘

لی اپنے بیٹے کے ساتھ

جینگزی ایک ایسی کمپنی میں کام کرتی تھیں جہاں سے اجناس کو بیرون ملک بھجوایا جاتا تھا۔ پھر جب فصل کی کٹائی کا موسم آتا تھا تو انھیں کئی روز تک قصبے سے باہر جانا پڑتا تھا تاکہ وہ وہاں سے سپلائیرز سے مل سکیں۔

ایسے میں جیا جیا اپنے والد کے ہمراہ گھر پر ہی ہوتا تھا۔

ایسے ہی ایک ٹرپ کے موقع پر انھیں اپنے ایک افسر کی جانب سے پیغام ملا کہ وہ فوری طور پر دفتر آئیں۔ جینگزی کہتی ہیں کہ اس زمانے میں ٹیلی کمیونیکیشن یعنی رابطے کا نظام اتنا جدید نہیں تھا۔

’مجھے چھ لفظوں پر مشتمل ٹیلی گراف ملا۔ گھر پر ایمرجنسی ہے۔ فوراً لوٹ آؤ۔‘

وہ کہتی ہیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے میں جلدی سے زیان واپس آئی جہاں ان کے مینیجر نے انھیں یہ تباہ کن خبر سنائی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے ایک ہی جملہ بتایا گیا کہ ’تمھارا بیٹا لاپتہ ہے۔ میرا ذہن ماؤف ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ گم ہو گیا ہے۔ یہ نہیں پتہ تھا کہ میں اسے تلاش نہیں کر پاؤں گی۔

یہ اکتوبر 1988 کا دن تھا۔ اور جیا اب دو سال اور آٹھ ماہ کا ہو چکا تھا۔

جیا جیا

جینگزی کے شوہر نے وضاحت کی کہ انھوں نے جیا جیا کو کنڈرگارٹن سے لیا اور گھر کے راستے اپنے خاندان کے ایک چھوٹے سے ہوٹل پر بچے کو پانی پلانے کے لیے رکا اور اس نے پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بچے کو صرف ایک یا دو منٹ کے لیے چھوڑا مگر جب مڑ کر پیچھے دیکھا تو بچہ غائب تھا۔

جینگزی کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مل جائے گا۔

انھوں نے کہا: میں نے سوچا کہ شاید میرا بیٹا گم ہو گیا ہے اور اسے اپنے گھر کا راستہ نہیں مل سکا اور امید کہ وہ کسی نیک دل کو ملے گا اور وہ اسے میرے پاس واپس لے آئیں گے۔’

لیکن جب ایک ہفتہ گزر گیا اور کوئی بھی اسے پولیس اسٹیشن نہیں لایا تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ صورت حال سنگین ہے۔

وہ سب سے پوچھنے لگے کہ کیا کسی نے ہوٹل کے پڑوس میں جیا جییا کو دیکھا ہے؟

انھوں نے جیا جیا کی تصویر کے ساتھ ایک لاکھ پمفلٹ شائع کروائے اور اسے شیان ریلوے سٹیشن اور بس سٹینڈ کے آس پاس تقسیم کرائے اور لاپتہ بچے کے لیے مقامی اخبارات میں اشتہارات دیے مگر ان کی تمام کوششیں ناکام رہیں۔

اعلان

جینگزی نے کہا: ‘میرا دل دُکھا تھا۔ میں رونا چاہتی تھی۔ میں چیخنا چاہتی تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرا دل خالی ہو گیا ہو۔’

وہ جب بھی اپنے لاپتہ بیٹے کے کپڑے دیکھتی، اس کے چھوٹے چھوٹے جوتے اور کھلونے دیکھتی تو وہ رو پڑتی تھی۔

اس وقت جینگزی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ چین میں بچوں کی اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ ہے۔

ون چائلڈ پالیسی سنہ 1979 میں چین کی تیزی سے بڑھتی آبادی کے حجم کو کنٹرول کرنے اور غربت کو ختم کرنے کی کوشش میں متعارف کروائی گئی تھی۔ شہروں میں رہنے والے جوڑے صرف ایک ہی بچہ پیدا کر سکتے تھے جبکہ دیہی علاقوں میں رہنے والے دوسرا بچہ پیدا کر سکتے تھے اگر پہلی لڑکی ہو۔

اگر کوئی یہ چاہے کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو جو ان کے نام کو آگے لے جائے اور بڑھاپے میں ان کی دیکھ بھال کرے تو وہ اس کے لڑکے پیدا کرتے رہنے کی کوشش نہیں کر سکتے تھے۔ ایسا کرنے پر انھیں سخت جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا اور ان کے اضافی بچوں کو حکومت کے فوائد نہیں ملتے۔

کہا جاتا ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے بچوں خصوصا لڑکوں کے اغوا کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جینگزی کو اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘کبھی کبھی ٹی وی پر لاپتہ بچوں کے بارے میں معلومات ملتی تھیں، لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انھیں اغوا کرکے بیچ دیا گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ وہ گم ہوگئے ہیں۔’

جیا جیا کے لاپتہ ہونے کے بارے میں پتا چلنے پر ان کا پہلا رد عمل اپنے شوہر پر الزام عائد کرنا تھا۔ پھر انھیں احساس ہوا کہ انھیں مل کر اپنے بیٹے کی تلاش کا کام کرنا چاہیے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ شاذ و نادر ہی کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے یہاں تک کہ چار سال بعد ان کی طلاق ہوگئی۔

لیکن جینگزی نے کبھی بھی تلاش بند نہیں کی۔ ہر جمعہ کی سہ پہر جب وہ کام ختم کرلیتیں تو وہ جیا جیا کی تلاش میں ٹرین سے آس پاس کی صوبے نکل جاتیں، اتوار کی شام کو گھر واپس آکر پیر کی صبح پھر کام پر واپس جاتیں۔

جب بھی انھیں کوئی سراغ ملتا کسی ایسے بچے کے بارے میں جو جیا جیا سے ملتا ہوتا تو وہ وہاں جا کر اس کے بارے میں تفتیش کرتیں۔

جس سال جیا جیا غائب ہوا تھا اسی سال انھوں نے معمول کے سفر سے زیادہ طویل سفر اس وقت کیا۔ انھوں نے ایک طویل فاصلے والی بس لی اور شانشی پہنچیں اور وہاں ایک اور قصبے کے لیے ایک لمبی مسافت والی بس لی اور پھر اس جوڑے کی تلاش میں دیہی علاقوں میں گئیں جہاں ایک جوڑے نے جیا جیا جیسے کسی بچے کو شیان سے گود لیا تھا۔ لیکن شام تک انتظار کرنے کے بعد جب لوگ کھیتوں سے واپس آنے لگے تو انھیں پتا چلا کہ وہ جوڑا بچے کو لے کر شیان گیا ہے۔ چنانچہ وہ فوری وہاں سے نکل پڑیں اور صبح سویرے واپس آ گئيں۔

پھر انھوں نے گھنٹوں اس فلیٹ کو تلاش کرنے میں گزارا جسے اس جوڑے نے کرایے پر لیا تھا۔ جب انھیں مکان ملا تو مکان مالک نے بتایا کہ وہ تو دو دن قبل کسی دوسرے شہر کے لیے نکل گئے ہیں تو وہ فوری طور پر ان کے پیچھے نکل پڑیں اور رات دن ہوٹلوں کی تلاش کرنے کے بعد جب وہ اس ہوٹل میں پہنچی جہاں وہ جوڑا رکا تھا تو انھیں پتہ چلا کہ وہ جوڑا تو وہاں سے نکل چکا ہے۔

اس کے بعد بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگرچہ آدھی رات ہوچکی تھی لیکن وہ شوہر کے والدین کو تلاش کرنے کے لیے دوسرے شہر کے سفر پر نکل پڑیں، لیکن وہ جوڑا وہاں نہیں تھا۔ اب وہ سیدھے بیوی کے آبائی شہر جانا چاہتی تھیں، لیکن اس دورنا وہ دو دنوں تک ٹھیک سے سو نہیں سکی تھیں اور نہ ہی ٹھیک سے کچھ کھایا تھا۔

آرام کرنے کے بعد وہ اس جگہ کے لیے روانہ ہوکئيں جہاں انھوں نے عورت اور بچے کو پایا۔ لیکن انھیں بہت مایوسی ہوئی کیونکہ وہ لڑکا ان کا بیٹا نہیں تھا۔

جینگزی نے کہا: ‘مجھے یقین ہو چلا تھا کہ وہ بچہ جیا جیا ہی ہوگا۔ میں بہت مایوس ہوئی۔ اس کا مجھ پر بہت زیادہ اثر پڑا۔ اس کے بعد، میرے کانوں میں میرے بیٹے کی آواز گونجتی رہتی۔ میری ماں کو خدشہ ہونے لگا کہ کہیں میں ذہنی توازن نہ کھو دوں۔’

ہر صبح کو جب وہ بیدار ہوتیں تو پہلا خیال بیٹے کا ہی آتا اور رات کو وہ خواب دیکھتیں کہ وہ ‘ماما ، ماما!’ چیخ رہا ہے، جیسا کہ وہ پہلے کرتا تھا جب بھی وہ اس کو چھوڑتی تھی۔

سابقہ ہم جماعت ڈاکٹر کے مشورے پر انھوں نے ہسپتال میں اپنا چیک اپ کرایا۔

جینگزی نے کہا: ‘ایک ڈاکٹر نے کہا کہ کسی چیز کا مجھ پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ اس نے مجھے بتایا: ‘میں آپ کی جسمانی بیماریوں کا علاج کرسکتا ہوں، لیکن یہ بیماری جو آپ کے دل میں گھر کر گئی ہے، اس کا علاج آپ پر منحصر ہے۔’ اس کی باتوں نے مجھے ساری رات سوچنے پر مجبور کردیا۔ مجھے لگا کہ میں اس طرح سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اگر میں نے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش نہ کی تو میں واقعتا میں پاگل ہوجاؤں گی۔ اگر میں پاگل ہو گئی تو پھر اپنے بچے کی تلاش کے لیے باہر نہیں جا سکوں گی اور اگر ایک دن میرا بچہ واپس آیا تو وہ ایک پاگل ماں کو دیکھے گا اور اس کے لیے یہ بہت افسوسناک ہوگا۔’

اعلان

اس کے بعد سے انھیں دانستہ طور پر بدحواس ہونے سے بچنا شروع کیا اور اپنی تمام توانائی تلاش کرنے پر لگائی۔

دریں اثنا جینگزی کی بہن نے جیا جیا کے تمام کپڑے اور کھلونوں کو ایک بکسے میں پیک کر دیا کیونکہ ان پر نظر پڑنے سے جینگزی کا دل ٹوٹتا تھا۔

اس وقت تک جینگزی کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس کے جیسے بہت سے والدین موجود ہیں جن کے بچے نہ صرف شیان میں بلکہ دوردراز کے علاقوں میں گم ہو گئے تھے۔ اور وہ ان کے ساتھ کام کرنے لگی۔ انھوں نے چین کے زیادہ تر صوبوں میں پھیلے ایک نیٹ ورک کی تشکیل کی۔ انھوں نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے بارے میں بڑے سراغ دیتے جن صوبوں کے وہ ذمہ دار تھے۔

نیٹ ورک س بہت سے سراغ ملنے لگے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کسی سے بھی جیا جیا کا پتہ نہیں چلا۔ مجموعی طور پر جینگزی نے اپنی تلاش میں دس چینی صوبوں کا دورہ کیا۔

جب ان کا بیٹا 19 سال سے لاپتہ تھا تو جینگزی نے ویب سائٹ ‘بیبی کم ہوم’ کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کرنا شروع کیا جو اپنے لاپتہ بچوں کو ان کے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ جوڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

جینگزی کا کہنا ہے کہ ‘مجھے اب تنہائی کا احساس نہیں ہوتا۔ بہت سارے رضاکار تھے جو ہمارے بچوں کو ڈھونڈنے میں ہماری مدد کر رہے تھے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی تھا کہ اگر میرا بچہ نہیں ملا تو میں کم از کم دوسرے بچوں کو تو ان کے گھر کی تلاش میں مدد کرسکتی ہوں۔’

پھر سنہ 2009 میں چینی حکومت نے ڈی این اے کا ڈیٹا بیس قائم کیا جس کے تحت جو جوڑے اپنا بچہ کھو چکے ہیں اور جن کو شبہ ہے کہ انھیں اغوا کیا گیا ہے وہ اپنا ڈی این اے رجسٹر کراسکتے ہیں۔ یہ ایک بڑا قدم تھا اور اس نے ہزاروں معاملات حل کرنے میں مدد کی۔

جِنگزی نے جن بچوں کے بارے میں سنا ہے وہ زیادہ تر لڑکے تھے۔ جن جوڑے نے انھیں خریدا ہوتا وہ بے اولاد تھے، یا ان کی بیٹیاں تھیں لیکن بیٹے نہیں ہیں اور ان میں سے بیشتر دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں بے بی کم ہوم اور دیگر تنظیموں کے ساتھ اپنے کام کے ذریعے جينگزی نے 29 بچوں کو ان کے والدین سے ملانے کرنے میں مدد کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھوں نے دوبارہ ملن کا مشاہدہ کیا تو ان کے احساسات کو بیان کرنا مشکل ہے جن سے وہ گزرے تھے۔

جینگزی نے کہا: میں اپنے آپ سے پوچھتی ہوں کہ ‘وہ میرا بیٹا کیوں نہیں ہوسکتا؟’ لیکن جب میں نے دوسرے والدین کو اپنے بچے کو گلے لگاتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان کے لیے خوشی محسوس کی۔ مجھے یہ بھی لگا کہ اگر انھیں یہ دن نصیب ہو سکتا ہے تو مجھے بھی ہوگا۔ میں پر امید ہو جاتی ان کے بچے کو ان کے پاس واپس جاتا دیکھ کر۔ مجھے امید ہے کہ ایک دن میرا بچہ بھی میرے پاس لوٹ آئے گا۔

ایسے وقت بھی آئے جب انھوں نے بالکال ہی امید کھو دی۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘جب بھی کوئی سراغ ناکام ہو جاتا مجھے بہت مایوسی محسوس ہوتی۔ لیکن میں مایوس رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اگر میں مایوس رہنے لگتی تو میرا زندہ رہنا مشکل ہو جاتا۔ اس لیے میں نے زندگی بسر کرنے کی امید قائم رکھی۔’

ان کی عمر رسیدہ والدہ بھی اپنے بیٹے کی تلاش جاری رکھنے کی یاد دہانی کا کام کرتی رہتیں۔

جینگزی نے بتایا: ‘میری ماں کا سنہ 2015 میں 94 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، لیکن انتقال سے قبل بھی وہ جیا جیا کو یاد کرتی رہیں۔ ایک بار جب میری ماں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے خواب دیکھا تھا کہ جیا جیا واپس آگیا ہے۔ انھوں نے کہا: ‘اسے قریب 30 سال ہوچکے ہیں، اب اسے لوٹ آنا چاہیے۔’

جب موت سے قبل ان کی والدہ بے ہوش ہوگئیں تو جینگزی نے اندازہ لگایا کہ وہ اپنے نواسے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

انھوں نے کہا: ‘میں نے اپنی والدہ کے کان میں سرگوشی کی: ‘ماں، فکر مت کرو، میں یقینی طور پر جیا جیا کو تلاش کروں گی۔ یہ صرف اپنی خواہش پوری کرنا نہیں تھا، میں اپنی والدہ کی خواہش کو پورا کرنا چاہتی تھی اور جیا جیا کو ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ میری والدہ کا قمری سال کے مطابق 15 جنوری سنہ 2015 میں انتقال ہوا تھا۔ یہ جیا جیا کی سالگرہ تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ خدا کی طرف سے مجھے یہ یاد دلانے کا طریقہ ہے کہ جس ماں نے مجھے اور جس بیٹے کو میں نے جنم دیا اسے فراموش نہ کریں۔ اسی دن ایک کا انتقال ہوا اور ایک پیدا ہوا۔’

پھر رواں سال 10 مئی کو مدرز ڈے کے موقعے پر انھیں شیان کے پبلک سکیورٹی بیورو کا حیرت انگیز فون آیا: ‘ماؤ ین مل گیا ہے۔’

جینگزی نے کہا ‘میں یقین کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہی تھی۔’

اپریل میں کسی نے انھیں ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایا تھا جو بہت سال پہلے شیان سے اٹھا لیا گیا تھا۔ اس شخص نے اس بچے کی بڑے ہونے کے بعد والی تصویر فراہم کی تھی۔ جینگزی نے یہ تصویر پولیس کو دی اور انھوں نے چہرے کو پہچاننے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ وہ شخص چینگدو شہر میں رہتا ہے جو کہ پڑوسی سیچوان صوبے میں ہے اور یہاں سے 700 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

اس وقت پولیس نے انھیں ڈی این اے ٹیسٹ کرانے پر راضی کیا۔ 10 مئی کو اس کا نتیجہ میچ کے طور پر واپس آیا۔

اگلے ہفتے پولیس نے دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ کرایا اور جانچ سے ثابت ہوا کہ بلاشبہ وہ ماں اور بیٹے ہیں۔

جینگزی کا کہنا ہے کہ ‘جب میرا دوبارہ ڈی این اے ٹیسٹ ہوا تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرا بیٹا مل گیا ہے۔’

آخر کا 32 سال کے انتظار اور 300 سے زیادہ غلط سراغ ان کی تلاش ختم ہوگئی۔

پیر 18 مئی کو ان کے ملن کے دن کے طور پر منتخب کیا گیا۔ جینگزی نروس تھیں۔ انھیں یقین نہیں تھا کہ ان کا بیٹا ان کے بارے میں کیسا محسوس کرے گا۔ اب وہ بڑا ہوا آدمی تھا، شادی شدہ تھا اور اپنا انٹیریئر ڈیکوریشن کاروبار چلا رہا تھا۔

’ملاقات سے پہلے مجھے بہت ساری تشویش تھی۔ شاید وہ مجھے پہچان نہ سکے، یا مجھے قبول نہ کرے، اور شاید دل سے وہ مجھے بھول گیا ہو۔ مجھے بہت ڈر تھا جب میں اپنے بیٹے کو گلے لگانے جاؤں نے تو وہ اسے قبول نہیں کرے۔ مجھے لگا کہ اس سے مجھے زیادہ تکلیف ہو گی کہ میں 32 سالوں تک جس بیٹے کی تلاش کرتی تھی وہ میری محبت اور گلے ملنے کو قبول نہیں کرے گا۔’

ملاپ

CCTV
32 سال بعد جب پہل بار لی جنگزی نے اپنے بیٹے کو دیکھا

ٹیلی ویژن پر اکثر بچوں کے لاپتہ ہونے کی پریشانی کے بارے میں بات کرنے کے لیے آنے سے ان کا معاملہ مشہور ہو گیا تھا اور میڈیا ان کہانی کی کوور کرنے کے لیے بہت پرجوش تھا۔

ملن کے دن چین کے سنٹرل ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی نے براہ راست نشریات نشر کی جس میں جیا جیا کو شیان پبلک سکیورٹی بیورو کی تقریب ہال میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا گیا۔ وہ ‘ماں!’ کہتا ہوا اس کے بازوؤں میں چلا گیا۔ ماں، بیٹا اور باپ سب مل کر رو پڑے۔

جینگزی کہتی ہیں: ‘ایک دم بچپن کی ہی طرح وہ میری طرف بھاگتا ہوا آیا تھا۔’

جینگزی کو بعد میں معلوم ہوا کہ جیا جیا کو اغوا کیے جانے کے ایک سال بعد ہی سیچوان صوبے میں ایک بے اولاد جوڑے کو 6000 یوآن (آج کی رقم 840 ڈالر) میں فروخت کیا گیا تھا۔ اس کے گود لینے والے والدین نے اس کا نام گو ننگنگ رکھ دیا اور اسے اپنا اکلوتا بچہ بنایا۔

انھوں نے چینگدو شہر میں ابتدائی سکول، مڈل سکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس نے کچھ سال پہلے جینگزی کو ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا اور سوچا تھا کہ وہ ایک گرمجوش دل والی خاتون ہیں۔ جب انھوں نے اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی تو اس نے سوچا کہ وہ اس کی طرح دکھائی دیتا ہے جیسا وہ بچپن میں تھا۔ لیکن اس نے رابطہ قائم نہیں کیا۔

لیکن جس شخص نے جینگزی کو ان کے بیٹے کا سراغ دیا وہ شخص گمنام رہنا چاہتا ہے۔

خاندان کا ملاپ

CCTV
خاندان کا ملاپ

اس ملن کے بعد جیا جیا نے ایک ماہ شیان میں گزارا، اور باری باری اپنے پیدا کرنے والے ماں اور باپ کے ساتھ وقت گزارا۔

اس دوران ماں بیٹے پرانی تصویروں کو دیکھنے میں وقت گزارتے تاکہ ان کے اندر جیا جیا کے لاپتا ہونے سے قبل کا احساس بیدار ہو اور یادداشت تازہ ہو۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جیا جیا کو وہ کچھ بھی یاد نہیں ہے جو اس کے ساتھ چار سال کی عمر سے پہلے اپنے گود لینے والے والدین کے ساتھ رہنے سے قبل ہوا تھا۔

جینگزی نے کہا: ‘یہ وہ چیز ہے جس سے میرے دل کو تکلیف ہے۔ میرے بیٹے نے واپس آنے کے بعد اس وقت کی زندگی کی ایک بھی تصویر سے پرانی یاد تازہ کرنے میں ابھی تک ناکام رہا ہے۔’

لی اپنے بیٹے کے ساتھ

جینگزی کو یہ احساس بھی ہوا کہ شیان کے ایک قدرتی مقام کے دورے پر بھی ماضی کو زندہ کرنا ناممکن ہے۔

“اس دن ہم پہاڑوں پر گئے اور راستے میں میں نے کہا ‘جیا جیا، ماما تمہیں اٹھا کر چلے گی۔’ لیکن میں اسے اٹھا نہیں سکتی کیونکہ وہ تو بہت بڑا ہو چکا ہے۔

‘میں نے محسوس کیا کہ اگر وہ پھر بچہ ہو جاتا تو ہم دوبارہ شروع کر سکتے اور 32 سال کا یہ خلا پُر کرسکتے ۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہا: ‘جیا جیا آپ تم پھر سے چھوٹے ہو سکتے ہو جیسے بچپن میں تھے۔ تم دو سال اور آٹھ ماہ کی عمر سے شروع کرو اور ماما 28 سال کی عمر سے۔ چلو ہم پھر سے اپنی زندگی دوبارہ زندہ کریں۔’

لیکن جينگزی کو معلوم ہے حقیقت میں یہ ناممکن ہے۔

جیا جیا چینگدو میں رہائش پذیر ہے جبکہ جینگزی ابھی شییان میں رہتی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ اسے شیان واپس آنے پر راضی کریں تاکہ وہ ان کےساتھ ساتھ ہو، اس کے باوجود وہ ایسا ہونا پسند کریں گی لیکن وہ نہیں چاہتی کہ ان کے بیٹے کی زندگی مزید پیچیدہ ہو جائے۔

‘وہ اب بڑا ہو گیا ہے۔ اس کی اپنی سوچ ہے۔ اس کی اپنی زندگی ہے۔ جیا جیا نے شادی کرلی ہے اور اس کا اپنا کنبہ ہے۔ لہذا میں صرف دور سے ہی اس کی خواہش کرسکتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ اب بھی زندہ ہے۔ بس اتنا ہی کافی ہے۔’

بہرحال وہ چین کی مقبول سوشل میڈیا ایپ ویچیٹ پر روزانہ بات چیت کرتے ہیں۔

لی اپنے بیٹے کے ساتھ

جینگزی کا کہنا ہے کہ ‘میرے بیٹے کی شخصیت مجھ سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ وہ میرے بارے میں بہت سوچتا ہے اور میں اس کے بارے میں بہت سوچتی ہوں۔ ان تمام سالوں کے بعد بھی وہ مجھ سے اتنا پیار کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم الگ ہوئے ہی نہیں تھے۔ ہم بہت قریب ہیں۔’

جیا جیا انٹرویو نہ دینا چاہتا ہے اور پولیس اسے گود لینے والے والدین کے بارے میں معلومات ظاہر نہیں کررہی ہے۔

جیا جیا کو 32 سال قبل کون لے گيا اور کس طرح لے گیا تھا جینگزی کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ پولیس اس پر کام کر رہی ہے۔ وہ مجرموں کو انھیں 32 سالوں تکلیف میں ڈالنے ان کے ساتھ جیا جیا کی زندگی بدلنے کے لیے سزا پاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں۔

اب وہ اپنے طویل گمشدہ بیٹے کے ساتھ نئی یادیں پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ انھوں نے اپنے ملن کے بعد سے ایک ساتھ بہت ساری تصاویر کھینچی ہیں۔

ان کی پسندیدہ تصویر ان کے ملن کی تصویر ہے یا پھر اس کے بعد والے دن جب انھوں نے ایک پارک میں ایک ساتھ وقت گزارا۔

لی اپنے بیٹے کے ساتھ

تصویر میں ماں اور بیٹے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں اور ایک دوسرے کی پوری نقل نظر آتے ہیں، اور آخر کار دوبارہ مل جانے پر بہت خوش ہیں۔

جینگزی کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں چینی حکومت اور چینی میڈیا کی طرف سے اس مسئلے کو عام کرنے کی کوششوں کی بدولت بچوں کے اغوا کے واقعات کمی واقع ہوئی ہے۔

لیکن ابھی بھی بہت سارے کنبے اپنے گمشدہ بچوں کی تلاش کر رہے ہیں اور بہت سے بڑے بچے اپنے پیدائشی والدین کی تلاش میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جینگزی کے لیے ابھی اور بھی کام کرنا باقی ہے۔

وہ کہتی ہیں: ‘میں لوگوں کو ان کے کنبہ کی تلاش کرنے میں مدد کرتی رہوں گی۔

تمام تصاویر لی جینگزی کی ہیں یا بہ صورت دیگر ان کی نشاندہی کر دی گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32489 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp