انور سجاد : خوشیوں کے باغ کا سفیر


مستنصر حسین تارر کے ناول منطق الطیر، میں تمام پرندے اپنے بادشاہ ”سی مرغ“ کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ اس تلاش کی راہ میں حق آتا ہے اور حق سے معرفت اور دنیا کے بھید کھلتے ہیں۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ خوشیوں کے باغ کا خزانہ شیخ فرید الدین عطار کی مثنوی سے دریافت ہوا ہے۔ یہ مثنوی ہفت وادی بھی کہلاتی ہے۔ یعنی سات وادیاں۔ طلب و جستجو، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فنا اور جب آپ سات وادیاں عبور کر لیتے ہیں تو اپنی تلاش کا سفر ختم ہوتا ہے۔ یہ سات وادیاں عشق اللہ کی رہنمایی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انور سجاد نے بہت کچھ لکھا لیکن جانے گئے خوشیوں کے باغ کی وجہ سے۔ ان کی کتابوں میں رات کے مسافر، تلاش وجود، چوراہا، جنم روپ، نیلی نوٹ بک اور خوشیوں کا باغ کو اہمیت حاصل ہے۔

ڈاکٹر انور سجاد 27 مئی 1935 میں ‌، لاہور میں پیدا ہوئے۔ میری کبھی ملاقات نہیں رہی۔ وہ دوسری دنیا کے مسافر تھے میں بھی دوسری دنیا کا۔ درمیان میں سرحدیں آباد، اس کے باوجود میں سرحدوں کے اس پار جا کر خوشیوں کا باغ تلاش کرنا چاہتا تھا۔ ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو چاروں طرف اس نام کا شہرہ تھا۔ جیسے ایک ہجوم ہاتھوں میں تختیاں لئے خوشیوں کے باغ کا نعرہ لگا رہا ہو۔ پاکستان کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ آمرانہ حکومت کو انور سجاد نے غور سے دیکھا تھا۔

ہندوستان کے حالات بھی اچھے نہیں تھے۔ طارق چھتاری باغ کے دروازے تک گئے اور واپس لوٹ آئے۔ انور سجاد خوشیوں کا باغ کی تلاش میں نکلے تو واپس نہیں آئے۔ باغ سے خوشیوں کی دھوپ غائب تھی۔ ملک مسلسل گم ہو رہا تھا اور بہر حال انھیں اپنی تلاش پر قائم رہنا تھا۔ وہ ڈراما نویس بھی تھے، کامیاب اداکار بھی۔ رقص کے بھی شوقین تھے ٹینس کے کھلاڑی بھی تھے اورمصور بھی۔ اردو زبان میں اتنی ساری خوبیاں صرف عینی آپا میں تھیں۔ مگر عینی آپا اداکارہ نہیں تھیں۔ انور سجاد تو اداکار بھی تھے۔ جو اتنی ساری خوبیوں کا مالک ہو وہی سیمرغ کی تلاش میں خوشیوں کے باغ تک پھچ سکتا ہے۔ ان کی دلچسپی سیاست میں بھی تھی۔ ڈرامے اور موسیقی میں بھی۔ اور ان کا سب سے زیادہ پسندیدہ کردار انسان تھا جس کو وہ خوشیوں سے محروم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

خوشیوں کا باغ سے یہ اقتباس دیکھئے
”بوش کے خوشیوں کے باغ کا ہر پینل ایک دنیا ہے اور تیسرا پینل، تیسری دنیا۔

دور افق پر اترتے دن کی لپٹیں آسمان سے امڈتی رات کو چاٹتی ہیں۔ ذرا درے گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند ہیں۔ آگ کی لپٹیں چھتوں سے اٹھتی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ دروازے کھڑکیاں کھلیں تو ہر گھر آتش فشاں نظر آئے آگ شاید ان گھروں تک پہنچی نہیں۔ بھڑکتی، معدوم ہوتی، روشن تاریک، روشن تاریک، بل کھاتی لپٹیں سلاخوں کی صورت ان گھروں کو اپنے حصار میں لیتی نظر آتی ہیں۔

دھندلی شام، چاروں اور سناٹا جیسے شہر کے اندر شہر سے باہر، ہر شے دم سادھے اس لمحے کی منتظر ہے جب زمین اور آسمان کے اتصال کا سراب قائم رکھنے والا دن، تاریکی اور روشنی کو جدا رکھنے کی کوشش کرتا بجھ جائے گا۔ چاروں اور تاریکی پھیل جائے گی جو ہر شے کو اپنے اندر سمیٹ لے گی۔ زمین ہوگی نہ آسمان ہوگا بلکہ گڑھے سے پھیلتی تاریکی ہوگی جو سنا ہے، نور سے پہلے تھی اور کہتے ہیں جو کائنات کا مقدر ہے۔ ”

انور سجاد پر مضمون لکھتے ہوئے فاروقی نے کہا کہ ”فن کا المیہ یہ ہے کہ اسے فن سمجھنے پر اصرار کیا جائے لیکن اس کی جتنی تحسین ہو وہ فن کے حوالے سے نہ ہو۔ جدید افسانہ اسی کش مکش سے عبارت ہے کہ وہ اپنی تحسین فن کے حوالے سے چاہتا ہے۔ لیکن نقاد اسے غیر فن کی داد دینے پر مصر ہیں۔ ایک جگہ فاروقی لکھتے ہیں“ ایک عرصہ ہوا میں نے انور سجاد کو جدید افسانے کا معمار اعظم اسی لیے کہا تھا کہ ان کے افسانے سماجی تاریخ کے طور پر پڑھے جانے کے قابل نہیں ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ انور سجاد کے افسانوں میں وہ انسان نہیں ملتا جو سماج میں پلتا پڑھتا ہے اور جو سماج سے مفاہمت کے بجائے مزاحمت کرتا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کے افسانوں میں نہ وہ انسان ملتا ہے جو Document بن سکے اور نہ وہ انسان ملتا ہے جو Allegoryبن سکے اور نہ وہ انسان ملتا ہے جو محض نشان کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ انور سجاد کے افسانے سماجی تاریخ نہیں بنتے، بلکہ اس سے عظیم تر حقیقت اس لیے بنتے ہیں کہ ان کے یہاں انسان یعنی کردار، علامت بن جاتا ہے۔ ۔

1960 تک آتے آتے ’انگارے‘ سرد پڑگئے تھے۔ ترقی پسندکہانیوں کو پروپیگنڈا کہانیاں بتاکر مذاق اڑایا جا رہا تھا، انورسجاد قابل انسان تھے۔ ہر فن مولاتھے۔ مطالعہ بہت کیا، مگر جب لکھنا شروع کیا، اس وقت ادب کے مخصوص لہجہ نے اردو کے تمام ادیبو ں کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد کا لہجہ وہی تھا، جو اس وقت ادب کے بیشتر ادیبوں کا لہجہ تھا۔ مندرجہ بالا اقتباس پر غور کیجے ے تو ایک جیسی کیفیت ہے اور اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اندر کی ترقی پسندی، جدید الفاظ اور علامتوں کے درمیان راستہ بنارہی ہے۔ افق پر اترتے دن کی لپٹیں گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کا بند ہونا، ہر گھر کا آتش فشاں نظر آنا، بھڑکتی معدوم ہوتی روشنی۔ رات کی تاریکی کے آگے سمندر۔ دھندلی شام۔ وہ اس دھندلی شام سے روشن ستاروں کو برآمد کر رہے تھے۔ رنگین چمکتی ہی کہکشاں کا تصور کر رہے تھے۔ خوشیوں کا باغ سے ایک اور اقتباس دیکھئے :

”ساحل پر ہولے ہولے چلتی خنک ہوا جو ریت کے ذروں کو اڑانے کے بجائے ایک دوسرے سے چپکاتی ہے۔ دھیرے دھیرے بہتی لہروں پر ڈولتی بہت بڑی کشتی جو یہاں سے چھوٹی سی دکھائی دیتی ہے، اس کشتی کا اگلا آدھا حصہ وسیع ساحل کے سینے پر ساکت ہے اور پچھلا حصہ افق کی لکیر میں کھنچ گیا ہے۔ لکیر جو زمین اور آسمان کو جدا کرتی ہے۔

آسمان جس سے تاریکی امڈتی ہے لیکن دن کی لپٹیں اسے چاٹ لیتی ہیں۔
سمندر، لامتناہی، کہیں رات کی تاریکی کا عکس، کہیں بھڑکتے دن کا آئینہ، روشن اور کشتی جس کا اگلا دھڑ ساحل کے سینے پر ساکت ہے اور پچھلا دھڑ سمندر کے پیٹ پر، لہروں سے ڈولتی ہے۔ کشتی کا سرخ بادبان، بانس کے گرد لپٹا، وسط سے، عمودی مستول کے ساتھ افقی بندھا ہے۔ آس پاس کوئی بشر نہیں۔ مدھم بہتی ہوا کی سنسناہٹ ہے یا کشتی اور ساحل کو ہولے ہولے کھٹکھٹاتی لہروں کی دستک یا پھر فضا سے پلٹ کر سمندر کو لوٹتا سمندری پرندہ اور اس کے حلق میں پھنسی چیخ۔ دھیمی دھیمی سنسناہٹوں، دستکوں، گھٹی چیخوں پر شہر کا غلاف۔ اتنا سکوت کہ سناٹے کی اپنی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ ”

الفاظ سے ایک تخیلی کولاز تیار کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے مصنف کے ذہن میں کچھ واقعات وحادثات جمع ہیں، جنہیں وہ ترتیب دے رہا ہے۔ اس کے برعکس اگر فرانزکفکا یا سارتر کی کہانیاں پڑھئے تو وہاں کردار بھی ملیں گے، واقعات بھی۔ انور سجاد کیفیات کو ترجیح دیتا ہے۔ انور سجاد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ سماجی وابستگی، جدید فکشن اور سوشل ریلیونس کو کنکٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوشل سسٹم پر Animalism کا راج ہو تو انسان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔

اس بیان کو دیکھئے تو مینرا ہوں یا انور سجاد، یہ تمام فنکار الفاظ سے ایک دنیا سجانے اور ترتیب دینے کا کام کرتے ہیں۔ مگر یہ دنیا خالی خالی اس لئے لگتی ہے کہ اس دنیا میں نہ انسان ملتے ہیں نہ کردار۔ فلسفے کب تک ذہن کو بیدار کریں گے۔ Animalism کی بات کریں تو جارج آرویل کے ناول دیکھ لیجیے۔ انیمل فارم، وہ سماجی وابستگی اور سوشل ریلیونس کے لے ے پوری فضا تیار کرتا ہے۔ کہانی بھی، کردار بھی، واقعات بھی۔ 1984 پڑھئے، ایک ہیبت ناک دنیا سامنے نظر آتی ہے۔ علامتوں اور تجرید کے درمیاں سے بڑے کینواس پر ناول لکھ جانا آسان کام نہیں۔ گو مجھے اس ناول سے کچھ شکایت بھی ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ انور سجاد کا رکھلیقی کرب دوسروں سے مختلف تھا۔ ۔ انورسجاد کی کہانی سازشی سے ایک اقتباس دیکھئے :

ہم قیدی نہیں ہیں۔ صرف ایک دوسرے کو دیکھ کر یاد آیا ہے کہ ہم قید میں ہیں۔ ہمارے ہونٹوں پر خاموشی کی لہریں ہیں۔

ہم چھوٹے سے ٹیلے پر سستانے کے لے ے بیٹھے ہیں۔
اٹھو اٹھو۔ کام کرو۔ بھاگنے کی سوچ رہے ہو؟ سازشی ان میں سے ایک آکے غرایا ہے۔
ہماری چپ سازش ہے اور ہم سوچتے رہتے ہیں کہ یہ نہر کب مکمل ہوگی۔ ”

سارتر کی کہانی ’دیوار‘ کا قیدی مختلف ہے۔ قیدی کو سمجھنے کے لئے سارتر سیاسی و سماجی منظرنامہ پر دھیان دیتا ہے۔ انور سجاد کو احساس ہے کہ یہ سب کچھ چلتا رہے گا۔ معاشرے میں کوئی تبدیلی نہیں اے گی۔ پاکستانی معاشرہ گھٹن اور بے بسی کا شکار رہے گا۔ وہ اسٹیج پر آتا ہے۔ اداکاری کرتا ہے۔ ڈرامے لکھتا ہے۔ رقص کرتا ہے۔ اور رومی کی بانسری کو تھام لیتا ہے۔ اس کی الجھنیں اس کو بار بار خوشیوں کے باغ کا راستہ دکھاتی ہیں۔

انورسجاد مختلف مقامات پر فنتاسی سے کام لیتے ہیں۔ ناکامی، نا امیدی، مایوسی، جبری طاقتوں کے لئے علامتیں تلاش کرتے ہیں۔ عدم تحفظ، معاشی ناہمواری، عالمی سیاست ان کے یہاں تمام جزیات موجود ہیں۔ ناول ’خوشیوں کا باغ‘ سے لے کر ان کی چھوٹی بڑی کہانیوں تک۔ حقیقت سے فنتاسی، تمثیل، استعارات علائم کا ہر راستہ کھلا ہوا ہے۔ وہ بڑا فنکار ہے۔ اپنے مطلب کی اشیا خوبصورتی سے برآمد کر لیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).