قطب شمالی پر برٹش انٹارٹک سروے کورونا وائرس کے باعث محدود
قطب شمالی پر برٹش انٹارٹک سروے کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کے پیشِ نظر اپنی تحقیقاتی سرگرمیاں کم کر رہا ہے۔
اس سال جب براعظم انٹارٹک میں سردیوں کا موسم ختم ہو گا اور محققین کے واپس لوٹنے کا وقت آئے گا تو اس وقت صرف اہم ترین محققین کو جانے کی اجازت ہو گی۔ ڈیپ فیلڈ ریسرچ میں تقریباً سارے پروجیکٹ ایک سال کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
ملتوی کیے گئے پروجیکٹس میں تیزی سے پگھلتے تھویٹیز گلیشیئر پر امریکی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر جاری تحقیق بھی شامل ہے۔
برٹش انٹارٹک سروے کا کہنا ہے کہ اگر لوگ وہاں پر بیمار ہو گئے تو ان کے پاس علاج کی سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اور بین الاقوامی ساتھیوں کے ساتھ گذشتہ ہفتے بات چیت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سخت ترین ایس او پیز کے ذریعہ اس وائرس کو براعظم میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
آئندہ پانچ برس 150 سالہ موسمی تاریخ کے ’گرم ترین سال‘
انٹارکٹک سیل کی تصویر بین الاقوامی مقابلے کی فاتح
برٹش انٹارٹک سروے کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈیم جین فرانسز کا کہنا ہے کہ „کسی ملک کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے کہ وہ وہاں پر زیادہ بیمار افراد کا علاج کر سکیں۔’ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر کوئی انتہائی سنجیدہ احتیاطی تدابیر کر رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بتایا جا سکے کہ انٹارٹکا میں کوئی بھی سرگرمی اس سال محفوظ ہے۔’
سب سے اہم لاجسٹکل مسئلہ فضائی راستوں کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال ہے۔ عام طور پر جو لوگ انٹارٹکا جاتے ہیں وہ ہوائی جہاز کے ذریعے تین مرکزی فضائی راستوں سے جاتے ہیں۔۔۔۔ آسٹریلیا / نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، یا چیلی میں سے کسی ایک ملک سے پرواز یا بحری جہاز لے کر جنوبی اوشن کو پار کیا جاتا ہے۔
مگر اس وقت ہوائی راستوں میں سخت قسم کی ردوبدل اور عدم استحکام کی وجہ سے یہ راستے ٹھیک طرح سے آپریشنل نہیں ہے۔ اسی لیے برطانوی سائنسدان اور ان کی اشیا براہِ راست برطانیہ سے انٹارٹکا رائل ریسرچ شن جیمز کلارک راس پر جائیں گی۔
ایسا ممکن ہے کہ کسی قسم کا فضائی کنیکشن بنا لیا جائے، فاک لینڈ میں دوبارہ ایندھن ڈالنے کا سٹاپ بنا کر مگر یہ ابتدائی پلان نہیں ہے۔
ان مسائل کی وجہ سے برٹش انٹارٹک سروے کے پاس اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ اپنے ڈیپ فیلڈ پروجیکٹ موخر کر دیں جن میں انھیں سائنسدانوں کو براعظم کے وسط میں بھیجنا پڑتا ہے۔
اس وقت اہم ترجیح یہ ہوگی کہ موسمیاتی معلومات کا سلسلہ نہ روکا جائے اور روتھیرا اور ہیلی کی وادیوں میں موسمیاتی سٹیشن کام کرتے رہیں۔
گذشتہ کچھ سالوں سے ہیلی کی وادی میں موجود موسمیاتی مرکز کو موسمِ سرما میں بند کر دیا جاتا ہے اور اس کے تمام آلات خودکار طریقے سے کام کرتے رہتے ہیں۔
مگر موجودہ حالات کی وجہ سے یہ موسمِ گرما میں بھی بند رکھا جائے گا۔ تاہم اس بات کی وکشش کی جا رہی ہے کہ سٹیشن پر جا کر اس بات کو یقینی بنا لیا جائے کہ وہاں پر موجود بجلی پیدا کرنے کا نظام ٹھیک سے چل رہا ہے اور وہ 2021۔2022 کے موسمِ گرما تک کارآمد رہے گا۔
برٹش انٹارٹک سروے کے ڈائریکٹر ڈیوڈ وان کہتے ہیں کہ „ہمارے پاس ہیلی پر اتنا ایندھن ہے کہ ہم اگلی سردیاں گزار سکیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایندھن ان ٹینکوں میں نہیں ہے جو کہ خودکار نظام کے لیے بجلی پیدا کرتا ہے۔ ہمیں جا کر یہ ایندھن ان ٹیکوں میں منتقل کرنا پڑے گا۔’
ایسا تب ہی ہو سکے گا اگر برٹش انٹارٹک سروے اپنے ٹوئن اوٹر طیاروں کا فیلیٹ کینیڈا سے لا سکے جہاں اس کی سروس کی جا رہی تھی۔ مگر کینیڈا سے لے کر انٹارٹکا تک ان چھوٹے طیاروں کو لانا کافی مشکل ہوگا کیونکہ راستے میں بہت سے ممالک میں انتہائی زیادہ کورونا کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
اور اگر یہ طیارے نہیں آتے تو پھر کوئی بھی ہیلی سٹیشن تک پہنچ کر ایندھن کا مسئلہ حل نہیں کر سکے گا۔
کورونا وائرس نے اس وقت دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جب انٹارٹکا کا 2019-2020 کا موسمِ گرما جاری تھا۔
اس وقت بھی غیر ضروری عملے کو گھر واپس لانا انتہائی مشکل تھا اور بہت سے سائنسدانوں کو گھر انے سے پہلے روتھیرا میں قرنطینہ میں رہنا پڑا اور کچھ کو فاک لینڈ جزیروں پر۔
یہاں تک کہ جو لوگ دنیا کے دور دراز ترین کونوں سے معلومات جمع کر رہے تھے، جیسے کہ تھویٹس گلیشیئر پر کام کرنے والی ٹیمیں، انھیں بھی لوٹنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا تھا۔
اس گلیشیئر پر پانچ سال پر محیط ایک تحقیقاتی پراجیکٹ جاری ہے جس میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ اتنی تیزی سے کیوں پگھل رہا ہے۔ اس کے پگھلنے کا اثر دنیا بھر میں سمندری سطح پر ہوگا۔
یہ اس وقت براعظم پر جاری سب سے بڑی سائنسی تحقیق ہے مگر اسے اب ایک سال کی بریک لینا ہوگی۔
پروفیسر وان نے بی بی سی کو بتایا کہ „ہم نے اپنے امریکی ساتھی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے ساتھ اتفاقِ رائے سے یہ پروجیکٹ ایک سال کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔ ہم اگلے سال اس کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اسی لیے کوئی بھی پروجیکٹ منسوخ نہیں کیا گیا ہے، سب بس ملتوی کیے جا رہے ہیں۔’
- کراچی میں جاپانی شہریوں پر حملہ کیسے ناکام ہوا؟ - 19/04/2024
- نائن الیون سے قبل امریکہ میں دہشتگردی کا سب سے بڑا حملہ جس میں سابق فوجی ملوث تھے - 19/04/2024
- کیا میدہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟ - 19/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).