نامعلوم سے نامعلوم تک – مکمل کالم


مولانا روم 1207ء میں بلخ میں پیدا ہوئے، سر آئزک نیوٹن 1642ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے اور چارلس ڈارون بھی 1809ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ مثنوی مولانا روم تیرھویں صدی کی پیدایش ہے، نیوٹن کی  Principia Mathematica سترھویں صدی میں شائع ہوئی اور ڈارون کی شہرہ آفاق کتاب  On the Origin of Species انیسویں صدیں میں منظر عام پر آئی۔ مثنوی مولانا روم کا اردو ترجمہ اِس وقت میرے سامنے ہے، اِس کا مقدمہ سجاد حسین صاحب نے لکھا ہے جو خاصے کی چیز ہے۔ اِس مقدمے میں جہاں انہوں نے رومی کا پورا فلسفہ بیان کیا ہے اور وحدت الوجود، وحدت الشہود اور جبر و قدر جیسے گنجلک مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے وہاں انہوں نے رومی کی شاعری کے بارے میں دو ایسی باتیں لکھی ہیں جو نئی تو نہیں ہیں مگر مجھ ایسے طالب علم کے لیے آج بھی حیران کن ہیں۔

پہلی بات یہ کہ رومی نے اپنی مثنوی میں کائنات کے اجسام کی باہمی کشش کا ذکرکیا، یہ وہی نظریہ تھا جوسینکڑوں برس بعد نیوٹن نے پیش کیا۔ دوسری بات نظریہ ارتقاء کے بار ے میں ہے کہ رومی نے اِس نظریے کا ذکر بھی اپنی مثنوی میں کیا ہے جسے چھ سو سال بعد ڈارون نے اپنی کتاب میں پیش کیا۔آگے چلنے سے پہلے اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہاں کوئی بھی نیوٹن یا ڈارون پر اِس بات کا الزام نہیں دھر رہا کہ انہوں نے رومی کے نظریات چرا کر شائع کیے۔ مثنوی کے جن اشعار سے کائنات کے اجسام کی باہمی کشش کا نظریہ کشید کیا گیا ہے، اُن کا ترجمہ کچھ یوں ہے:

’’دنیا کے تمام اجزا جوڑ جوڑ ہیں، اور ہر ایک اپنے جوڑے کا عاشق ہے۔

 آسمان، زمین کو خوش آمدید کہتا ہے، کہ میری تیری مثال لوہے اور مقنا طیس کی سی ہے۔

 اس حکیم نے اس سے کہا کہ آسمان کی وجہ، شش جہات کی کشش کی وجہ سے زمین فضا میں معلق ہے۔

جس طرح کو مقناطیس کا گنبد ہو، اور اس کے درمیان لوہے کا ٹکڑا لٹکا ہو‘‘۔

اسی طرح نظریہ ارتقاء کے ثبوت کے طور پر مثنوی کے جو اشعار پیش کیے جاتے ہیں اُن کا ترجمہ ایسے کیا گیا ہے:

’’انسان شروع میں جماد تھا، جماد سے نبات بنا۔

سالوں نبات رہا، لیکن نباتی زندگی اسے یاد نہیں۔

نبات سے جب حیوان بنا، نباتی حالت اس کو یاد نہیں۔

ہاں سوائے اس میلان کے جو اس کو نبات کی طرف ہے، خصوصاً موسم بہار میں ضمیران کے کھلنے کے وقت۔

جس طر ح کا بچوں کا ماؤں کی طرف میلان ہوتا ہے، شیر خوارگی کے زمانہ میں۔

پھر حیوان سے انسان کی جانب، اس کو وہ خدا لے جاتا ہے جو اس کو جانتا ہے۔

اس طرح وہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف چلتا رہا، یہاں تک وہ عاقل و دانا اور فربہ (قوی )بن گیا۔‘‘

جہاں تک اجسام کی باہمی کشش والے اشعار کا تعلق ہے تو اُن کے بارے میں شاید کہا جا سکتا ہے کہ یہ رومی کا پرواز تخیل ہے جس نے کائنات کا مشاہدہ کرتے ہوئے عالم جذب و مستی میں یہ اشعار لکھوا دیئے۔زمین و آسمان کی وسعتوں اور چاند ستاروں کا نظم دیکھ کر اگر کوئی شاعر یہ کہہ دے کہ زمین اور آسمان کی مثال لوہے اور مقناطیس جیسی ہے تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ قانون ثقل کا آفاقی نظریہ پیش کر رہا ہے۔ مگر اِن اشعار کی ایسی محدود تشریح رومی کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اِس قسم کی بات کسی مغربی شاعر اور فلسفی نے آٹھ سو سال قبل کی یا نہیں، کم ازکم میری نظر سے ایسی کوئی چیز نہیں گذری، کسی صاحب یا صاحبہ نے اگر اِس ضمن میں کچھ تحقیق کی ہوتو اِس فدوی کے علم میں ضروراضافہ کرے۔

اسی طرح نظریہ ارتقا ء سے متعلق رومی کے اشعار تو مزید حیران کُن ہیں اور اُن کی کوئی عقلی توجیہہ پیش کرنا بے حدمشکل ہے۔یہ درست ہے کہ اِن اشعار کو آپ اُس طرح سے کوئی ایسا جامع نظریہ نہیں کہہ سکتے جیساکہ بعد میں ڈارون نے پوری تحقیق کے بعد پیش کیا یا جیسے نیوٹن نے قانون کشش ثقل بالتفصیل اپنی کتاب میں بیان کیے، مگر رومی سے بہرحال آپ یہ کریڈٹ نہیں چھین سکتے کہ اُس نے کم از کم کائنات کے دو بڑے سربستہ راز، اشاروں کنایوں میں ہی سہی، اُس وقت افشا کیے جب سائنس ابھی پنگھوڑے میں انگوٹھا چوس رہی تھی۔

مجھے فلسفے اور سائنس سے تھوڑی بہت دلچسپی ہے۔ فلسفے کی تاریخ کی جتنی کتابیں میری نظر سے گذری ہیں اُن میں زیادہ تر مغربی فلسفیوں کا ذکر ہوتا ہے، افلاطون سے شروع ہو تی ہیں اور ہیگل کو چھیڑتی ہوئی میشل فوکو پہ ختم ہو جاتی ہیں (واضح رہے کہ یہ مرد تھا اور وہ بھی ہم جنس پرست، کوئی عورت نہیں )۔ بہت عنایت ہوتی ہے تو کنفیوشس پر یا زیادہ سے زیادہ ابن رشد کے متعلق ایک آدھ باب، بس اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب چند برسوں سے مغرب میں مولانا روم کا نام سننے میں آ رہا ہے۔ میرے پسندیدہ لکھاری ول ڈیوراں نے اپنی ایک کتاب میں اُن تمام کتب کی فہرست دی ہے جو ایک انسان کو اپنی زندگی میں پڑھنی چاہئیںاور یہ وہ کتابیں ہیں جنہیں پڑھ کر کوئی بھی شخص دو چار سال میں مکمل فلسفی بن سکتا ہے، مگر افسوس کہ اِن میں مثنوی مولانا روم شامل نہیں، حالانکہ مولانا نے جس طرح یہ مثنوی لکھوائی وہ بذات خود کسی عجوبے سے کم نہیں۔

رومی کے یہ اشعار پڑھ کر ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ وجدان کی حدود کیا ہیں، کیا ہر شخص میں وجدان کی اہلیت ہوتی ہے، کیا یہ صلاحیت خداد اد ہوتی ہے یا مشقت سے حاصل کی جا سکتی ہے، کیا ہم اسے عقل کی انتہائی شکل کہہ سکتے ہیں یا یہ کوئی ماورائے عقل کیفیت کا نام ہے، کیا اِس وجدان کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے ہمیشہ قابل بھروسہ ہوں گے ؟جدید دور کے نفسیات دان اور سائنسی علوم کے ماہر وجدان کے کچھ زیادہ قائل نظر نہیں آتے۔ انسانی نفسیات اور ذہن کے متعلق لا تعداد تجربات ہو چکے ہیں جن کی روشنی میں یہ بات کی جاتی ہے کہ محض وجدانی علم پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا بلکہ تجربات، مشاہدات اور شواہد کی بنیاد پر حاصل کیاگیا علم قابل یقین ہوتا ہے۔

جدید دور کے نامور مصنفین میں سے میلکم گلیڈول نے البتہ وجدانی علم کی حمایت میں ’’Blink‘‘ نامی کتاب لکھی ہے جس میں اُس نے بتایا ہے کہ کیسے انسان میں یہ صلاحیت ہے وہ بہت اہم اور نازک فیصلے پلک جھپکتے میں محض اپنے وجدان کی بدولت کرتا ہے اور وہ غلط بھی نہیں ہوتے۔ مولانا روم کا وجدان البتہ کوئی اورہی دنیا ہے، کم ازکم میںاِس کی کوئی توجیہہ ڈھونڈنے سے قاصر ہوںاور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کائنات بہت پر اسرار ہے، انسان کی اوقات اِس کائنات میں ایسی ہے جیسے کوئی بیکٹیریا سمندر میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہواور اُس کے ’ہاتھ‘ کوئی چیز آ جائے اور وہ سمجھے کہ اُس نے سمندر کی گہرائی جان لی ہے۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع ڈانلڈ رمز فیلڈ (خدا میرے گناہ معاف کرے کہ رومی کے ساتھ رمز فیلڈ کا نام لے بیٹھا ہوں، کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا)، جس کے سر لاکھوں انسانوں کا خون ہے، نے ایک مرتبہ عراق جنگ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ’’کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ نہیں جانتے مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ ہم نہیں جانتے (unknown unknowns)۔‘‘ایسا ہی معاملہ رومی کے وجدان کا ہے۔ یہ بھی unknown unknownsکی طرح معمہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada