ایرانی خواتین کا پاڈ کاسٹ جو استحصال کا شکار بننے والی خواتین کی آواز بنا


Women in Tehran (file photo)

ایرانی خواتین گھریلو تشدد پر بات نہیں کرتی اور برداشت کرتی رہتی ہیں

مریم (فرضی نام) کی آواز یہ بتاتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی کہ کیا ہوا تھا جب اس کے شوہر نے سر عام اس پر حملہ کیا تھا۔

لوگوں کا رد عمل ایسا تھا کہ گویا کسی مرد کا عورت کو یوں مارنا ایک معمول کی بات ہے۔ یہاں کوئی قانون نہیں، کوئی پناہ گاہ نہیں اور حتی کے پولیس بھی کچھ نہیں کرسکتی۔

کچھ خاندان خود کو بہت ماڈرن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ تو ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔‘

مریم کے جیسی مزید کئی کہانیاں ان کے آبائی ملک ایران میں کم ہی سنی جاتی ہے لیکن جب سے ایک نیا پاڈ کاسٹ بنا ہے ان کی طرح کئی دوسری خواتین نے اپنے خلاف گھریلو تشدد کی کئی ان کہی کہانیاں سنائی ہیں۔

مریم کی وجہ سے ان سب کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ اس پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے اپنی خاموشی توڑیں اور معاشرے کے راویتی ممنوعہ موضوعات پر بات کریں۔

اسی بارے میں

لاک ڈاؤن میں گھریلو تشدد: ’کہتے ہیں شور مت مچاؤ، پڑوسی کیا کہیں گے‘

گھریلو تشدد سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

جس موت نے فلسطینی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا

خواتین کو مساوی حقوق دینے والے صرف چھ ممالک

مریم ان تمام خواتن کو کہتی ہیں کہ ’شہرزادے بنو‘۔

شہرزادے مشہور زمانہ ’الف لیلی کی ایک ہزار کہانیاں‘ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ایرانی ملکہ تھی جس نے اپنی داستان گوئی کی صلاحیت سے اپنی موت کو ٹالا۔

لیکن یہ کہانیاں لوک داستانوں سے دور معاشرے کی جڑوں میں موجود ہیں جہاں خواتین سے خاموش رہنے کو کہا جاتا ہے۔

خاندانی معاملہ

34 سالہ مریم اپنی شوہر سے یونیورسٹی میں ملیں جہاں انھوں نے بچوں کی نفسیات پڑھی۔

وہ بظاہر لبرل سوچ رکھنے والے اور ملازمت پیشہ افراد کے حقوق کے حمایت کرنے والے شخص کے ساتھ محبت کی شادی کرنے کے لیے تہران میں اپنے والدین سے منحرف ہو گئیں۔

لیکن شادی کے چند دن بعد ہی انہیں احساس ہوا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

اپنے پاڈ کاسٹ میں انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرنے میں کتنی جھجھک رہی تھیں کہ وہ اپنے والدین سے مدد طلب کریں۔


انھوں نے اپنی شادی کے دوران جمسانی اور ذہنی تشدد برداشت کیا اور اسے اپنی غلطی تسلیم کر کے انھوں نے اسے بدتر بنا دیا۔

آخر کار وہ بھی کئی دوسری ایرانی خواتین کے ساتھ اس کہاوت کو سنتے بڑی ہوئی تھی کہ ’عورت سفید عروسی جوڑے میں شوہر کے گھر جاتی ہے اور سفید کفن میں وہاں سے نکلتی ہے۔‘

مریم کا کہنا ہے کہ یہ معاشرتی روایت اس شادی سے نکلنے میں ان کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔

ایرانی روایتی طور پر بہت ذاتیات پسند ہوتے ہیں وہ اپنے خاندانی معاملات عموماً بند دروازوں کے پیچھے رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ گھریلو تشدد مرض کی طرح بن گیا اور خواتین کی وفادار اور صابر رہنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی۔

مسلسل مار پٹائی کے باعث ہسپتال کے بستر تک پہنچنے کے بعد مریم نے بالآخر یہ سب ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

نیم بے ہوشی کی حالت میں جو وہ زخموں سے چور تھیں انھوں نے خود سے پوچھا ’کیوں؟ میں یہاں کیوں ہوں؟ میرے ساتھ یہ کیوں ہوا؟‘


چند ہفتوں بعد وہ ہسپتال سے فارغ کی گئیں تو انھوں نے طلاق مانگ لی۔ خوش قسمتی سے ان کے والدین نے اس فیصلے میں ان کا ساتھ دیا لیکن سبھی متاثرین اتنی خوش قسمت نہیں تھیں۔

ہر پاڈ کاسٹ میں مریم کے ساتھ ایسی خواتین ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ خاندان کے مردوں کے ہاتھوں ہونے والے استحصال کا احوال سناتی ہیں۔

نیا قانون؟

اس پاڈ کاسٹ میں ذاتی کہانیوں کے علاوہ اس مسئلے کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے کہ ملک میں تشدد خصوصاً گھریلو استحصال سے خواتین کے بچاؤ کے لیے کوئی باضابطہ نظام نہیں۔

اس موضوع پر محض ایک مرتبہ سرکاری اعداد و شمار 16 برس قبل مرتب کروائے گئے جس کے مطابق دو تہائی خواتین نے کم از کم ایک مرتبہ گھریلو تشدد کا سامنا کیا۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل کی ایران کے حوالے سے سنہ 2013 کی رپورٹ میں کہنا تھا کہ ’ملک میں خواتین کو شادی، طلاق، وراثت، بچوں کی تحویل، قومیت اور بین الاقوامی سفر کے معاملات میں تعصب کا سامنا ہے۔‘

ایک والد کے ہاتھوں ایک نو عمر لڑکی کے غیرت کے نام پر قتل کے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے خواتین کے تشدد سے تحفظ کے بل پر تیز ترین جائزے کا حکم دیا۔ اس بل کا مسودہ 10 برس سے زیر التوا ہے۔

اس بل کو اب بھی پارلیمیان سے منظور کیا جانا باقی ہے جس ک بعد یہ قانون بنے گا۔ یہ سنہ 1979 کے انقلاب کے بعد خواتین کے حقوق کے حوالے سے سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔

اس میں عورت پر جسمانی تشدد کو جرم قرار دیا گیا ہے جبکہ عوامی مقامات اور سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے پر سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

شادی کے خاتمہ کے پانچ سال بعد مریم کا کہنا ہے کہ وہ اتنی خوش کبھی نہیں تھیں۔ وہ پاڈ کاسٹ کرتی ہیں اور تشدد کا شکار خواتین کے ساتھ کونسلنگ سیشنز کرتی ہیں۔

انہیں امید ہے کہ لوگوں کو بولنے کی آزادی دے کر وہ راز داری کی روایت کا خاتمہ کریں گی جو صرف اور صرف استحصال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp