…وہ جگنو بھی نہیں نکلا


رات کے پچھلے پہر نا شناس کی آواز نے کالم نگار کے دکھ کو اور بڑھا دیا۔ سہگل اور حبیب ولی محمد کے اسلوب کا یہ گائیک اپنی آواز میں ایک الگ ذائقہ رکھتا ہے۔ اس کی آواز طبلے سارنگی کے درد کو دوچند کر رہی تھی۔ وہ گا رہا تھا:

آج کی رات غم دوست میں شدت ہے بہت

جس سے الفت تھی بہت اس سے شکایت ہے بہت

اب وطن عزیز میں تبدیلی کے متوالوں کے دل میں رہ رہ کر یہی سوال اٹھتا ہے۔ کیا؟

تھا منیر آغاز سے ہی راستہ اپنا غلط

اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا

زندگی میں احساس زیاں منیر نیازی کو بھی ہوا۔ عمران خان کے ساتھ ملک میں تبدیلی کی تلاش میں نکلے لوگ بھی یہ رائیگانی محسوس کر رہے ہیں۔ تبدیلی کے بہت سے عشاق ابھی اپنے جذبات دل میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ لیکن بندہ اپنے جذبات کتنی دیر چھپا سکتا ہے؟ قدسیہ بانو نے اسلم کولسری کے بارے میں لکھا تھا۔ ”دو قدم آگے چل کر میلوں پیچھے بھاگ آنے والا“ اسلم کولسری کے بارے میں یہ سچ تھا یا نہیں؟ نہیں معلوم۔ البتہ عمران خان کے بارے میں یہ سچ سبھی دیکھ رہے ہیں۔

سبھی کڑھ رہے ہیں، عمران خان کے چاہنے والے کچھ زیادہ ہی۔ کالم نگار بھی اک عرصے تک عمران خان کی شخصیت کے طلسم کا اسیر رہا۔ تبدیلی کے سفر میں عمران خان کے بارے میں آخری امید کا لفظ اتنی بار دہرایا گیا تھا کہ ملک میں بسنے والے بہت سے صاحب بصیرت لوگ اللہ کے حضور جھک گئے تھے۔ یا اللہ! عمران خان کو حکومت نہ دیجیؤ۔ اگر یہ ناکام رہا تو قوم کی آخری امید بھی ٹوٹ جائے گی۔ امید زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ امید ہی زندگی ہے۔ کسی برفانی ملک کے حکمران کے سامنے ایک شخص کو پیش کیا گیا۔ اس پر کسی جرم کا شبہ تھا۔ اس کے خلاف کوئی ثبوت یا چشم دید گواہ نہ مل سکا تو یہ فیصلہ کیا گیا۔ اس ملزم کو زنجیروں سے باندھ کر شہر سے باہر پانی کے ایک تالاب میں رات بھر کھڑا رکھا جائے۔ اگر اگلے دن زندہ رہا تو اسے بے گناہ سمجھا جائے گا۔ اگلے دن اسے زندہ سلامت دیکھ کر سبھی حیران رہ گئے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا۔

 یونہی اس یخ بستہ پانی میں اترا تو مجھے گھپ اندھیرے میں کہیں دور اک ٹمٹماتی روشنی نظر آئی۔ میں نے فوراً اس روشنی پر نظریں جمالیں۔ پھر رات بھر نظریں ہٹائی نہیں۔ آہستہ آہستہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے روشنی کی حدت آنکھوں سے ہوتی ہوئی میرے جسم میں حلول کر رہی ہے۔ یہ گرمی مجھے یقین دلا رہی تھی کہ کچھ دیر بعد صبح ہونے والی ہے۔ پھر سورج نکل آئے گا اور ہر طرف دھوپ ہی دھوپ ہوگی۔

ان دنوں پاکستان میں احوال یوں ہیں کہ تبدیلی کے بہت سے متوالوں کی امید ٹوٹ چکی ہے۔ بہت سوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ تبدیلی کے سفر میں کہاں کھڑے ہیں۔ وہ جیتے ہیں یا ہارے ہیں؟ بہت سے مہنگائی کے ہاتھوں لاچار لیکن عمران خان کے ساتھ بڑی استقامت کے ساتھ ہیں۔ وہ کالم نگار جیسے ”کچے ایمان“ والوں کو کوس رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں سمجھا سکتا کہ تم لوٹے جا چکے ہو۔ انگریزی مزاح نگار مارک ٹوئن کی بات کا مزہ لیں۔

لوگوں کو بیوقوف بنانے سے کہیں زیادہ مشکل کسی شاطر کے جھانسے میں آئے ہوؤں کو اس بات پر قائل کرنا ہوتا ہے کہ انہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔ سو ان راسخ العقیدہ متوالوں سے کیا لینا دینا۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ ”نوائے وقت“ کے متین فطین بزرگ کالم نگار نصرت جاوید کشمیر ڈے یوم استحصال کشمیر کی بجائے یوم ندامت منانے کے حق میں ہیں۔ ان کے مطابق 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کے معاملے میں ہندوستانی غیرقانونی اقدام کے خلاف ہم نے عالمی پلیٹ فارم پر کونسا تیر مار لیا ہے جو ہمارے لئے باعث فخر ہو۔

 یہ کوزے میں پنج دریا بند کرنے والی بات ہے۔ ان پنج دریاؤں میں وہ دریا بھی شامل ہیں جن کا پانی اب ہماری دسترس میں نہیں رہا۔ سفارت کا باب بند ہوا، گورننس کا مضمون چھیڑتے ہیں۔ کالم نگار  Bad یا Good کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتا۔ ایک اخباری خبر سے پڑھنے والے خود ہی اس کا اندازہ لگا لیں۔ راوی کنارے نئے شہر کی افتتاحی تقریب کے بعد وزیر اعظم سے فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے چھ ممبران قومی اسمبلی نے مقامی ایس ایچ اوز اور ڈی ایس پیز کے خلاف شکایت کی کہ وہ کھلے بندوں جی بھر کے کرپشن کر رہے ہیں۔

 ان ممبران اسمبلی میں ایک انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سابق صدر بھی شامل تھا۔ کیا یہ لوگ اپنے اعلیٰ افسران کی آشیر باد کے بغیر کرپشن کر سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ اس سے آپ شکایت کنندگان کے لیول کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ ویسے ہماری پولیس کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم بھی پنجاب پولیس کی مراعات بے تحاشا بڑھا کر انہیں عوام سے حسن سلوک کی درخواست کر رہے ہیں۔ حکم نہیں دے رہے۔ اس عنوان میں اہم سوال یہ ہے کہ عوام کو کیا سہولت دی جا رہی ہے؟

 حکومت کی لوگوں کو بہتر شہری سہولتیں فراہم کرنے اور منڈی کی قوتوں کو قابو میں رکھنے پرکھنے کی کارکردگی بھی بہت مایوس کن ہے۔ منڈی کی قوتیں اشیائے ضروریہ کی فراہمی کے تمام معاملات کو من مرضی سے چلا رہی ہیں۔ سینی ٹائزر کی ننھی منی سی جیب میں رکھنے والی شیشی کی قیمت اڑھائی سو روپیہ ہے۔ اگر کرونا وبا نہ ہو تو کیا یہ اس قیمت پر ہمارے بازاروں میں بک سکتی ہے؟

پوری دنیا میں شاپنگ پلازے اور بازار غروب آفتاب کے ساتھ بند ہو جاتے ہیں۔  ہمارے تاجر ملک میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کے باوجود صرف سورج کی روشنی میں اپنی دکانداری کرنے کو تیار نہیں۔ کرونا کے باعث ایک موقع ہاتھ آیا تھا کہ انہیں شام کے بعد کاروبار بند رکھنے پر مجبور کر دیا جائے لیکن حکومت نے اپنی لاپرواہی کے باعث یہ سنہری موقع بھی ضائع کر دیا۔ پچھلے دنوں ملک کے اہم بلڈروں نے وزیر اعظم سے ملاقات میں تیرہ کھرب کے تعمیراتی منصوبے شروع کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ انہیں یہ رعایت دی گئی تھی کہ ان سے کالے دھن کی بابت کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ ملک میں مسئلہ رہائشی فلیٹوں اور گھروں کی دستیابی کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پندرہ ہزار ماہوار کمانے والے بے گھر لوگ یہ گھر کہاں سے خریدیں گے؟ اب ہماری روایتی سیاست میں عمران خان کو غیر روایتی سیاستدان سمجھنے والے اپنی سوجھ بوجھ اور انتخاب پر حیران کھڑے ہیں کہ

رخِ روشن کا روشن ایک بھی پہلو نہیں نکلا

جسے ہم چاند سمجھے تھے وہ جگنو بھی نہیں نکلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).