سانگھڑ میں امریکن کونسلیٹ


مختلف ممالک میں بکھرے ہمارے اہل خانہ کا اصرار تھا کہ سبز پاسپورٹ پر امریکی ویزہ کی معیاد ختم ہوتی ہے۔ اس کی تجدید کرا لیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے تو سختیاں کریں گے۔ ہم نے کہا بھی کہ امریکہ کی محبت ماں جیسی ہے۔ مالدار سابق فوجیوں، میمنوں اور ایک پارٹی کے سیاست دانوں کو ان کے مال مسروقہ کی فراوانی کی بنیاد پر برطانیہ اور امریکہ ویزہ پٹزا کی ہوم ڈلیوری والوں کے ہاتھ بھیج دیتے ہیں۔ چنتا کس بات کی۔ بڑے دیش دیالو اور ان داتا ہوتے ہیں۔

مودی کی مثال لے لیں، پہلے اسے دہشت گرد کہا پھر اپنے ہاں بلایا بھی۔ جلسہ بھی کرنے دیا اور گوگل کو اربوں ڈالر کی بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت دے دی۔

 اہل خانہ کے اصرار میں شدت آئی تو ہم کونسلیٹ آستانہ فیض پر تجدید ویزہ کے لیے پہنچ گئے۔ دالان میں خوف انکار کے دوپٹوں میں منھ چھپائے امید کے پستانوں سے چسر چسر دودھ پیتے پاکستانی زیر لب وظائف دہراتے تھے۔ ہال میں داخل ہوتے ہی ایک کھڑکی پر لگی تختی بہت بھلی تھی ــ’’خزانچی۔ پاکستانی اداروں میں ایسا کہاں۔ ہر جگہ کئیشئر لکھا ہوتا ہے، یہاں خزانچی‘‘۔ دالان میں پہنچتے ہی ویزہ کے متمنی افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ اردو میں سوال جواب کے لیے تیار درخواست گزار ایک  طرف، دوسری جانب قربت و تفاخر میں انگریزی کے سیرپ میں لتھڑے ہماری طرح نازاں افراد۔ ہم سے پہلے مقتل میں جانے کی باری ملیر کے نوجوان میر ابصار عالم جعفری کی تھی۔

حضرت جعفری تنومند ایسے کہ پھنسی پھنسی FCUK ْ(French Connection UK-) کی زینب مارکیٹ سے خریدی سیاہ ٹی شرٹ۔ ان کے پلے ہوئے ڈولے اور سینے کے مسلز پھٹے پڑتے تھے۔ ٹی شرٹ کی یہ چپ چپاہٹ دیکھ کرپرینکا چوپڑہ کے بلائوز یاد آ گئے۔ لیونارڈو ڈاونچی کہا کرتے تھے۔ Every thing conncets with every thing۔ ہمیں بھی مردوں کا لباس دیکھ کر عورتوں کا دھیان آئے تو اس کا الزام ہم ڈاو ونچی کو یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ

دشت سے زندگی کی رو، ایک مثال لے گئی

ہمارے بارے میں غیر ضروری طور پر متجسس تھے کہ ہم انگریزی میں سوال جواب والی قطار میں شامل ہوں گے کہ اردو والی لائن میں لگیں گے۔ ہم نے جواب دیا کہ ’’ توُ اپنی فکر کر ، ناداں قیامت آنے والی ہے‘‘ کہنے لگا کہ پچھلی بار اردو میں انٹرویو دیا تھا۔ کھڑکی پر کوئی سڑیل پاکستانی تھا۔ دوسرے ہی سوال پر ویزہ دینے سے انکاری ہوا اور حکم لگادیا کہ چھ ماہ بعد آنا۔ اب کی انگریزی میں سوالات کا جواب دوں گا۔

برابر کی لائین میں ایک ادھیڑ عمر کا جوڑا کھڑا تھا۔ سانگھڑ کے کسی پنجابی چک سے آیا تھا۔ مرد نے اعلان کیا کہ وہ پنجابی میں جواب دے گا۔ ایسا لگتا جن کپڑوں میں سوئے تھے۔ دونوں اسی ملبوس میں میں اٹھ آئے تھے۔ ہم مملکت کے دیہاتیوں کو ہرگز سادہ نہیں مانتے۔ ان میں وہ کمینگی بھرپور ہوتی ہے جسے انگریز برصغیر میںNative Intelligence  پکارا کرتا تھا۔ جو ہروقت اپنے مفادات دھیان میں رکھتی ہے۔

ان کا حلیہ بشرہ دیکھ کر ہم نے امریکیوں کی فراخدلی پر دعائے خیر کی۔ نہ ہوا سندھ سیکرٹریٹ، مجال ہے اس لباس مییں کوئی انہیں کبوتر چورنگی تک بھی آنے دیتا۔ خدشہ یہی تھا کہ ویزہ ملنے کے بعد اسی لباس میں امریکہ بھی جا پہنچیں گے۔ ان کے زبان پنجابی کے انتخاب کے اعلان پر وہاں بلا کے مستعد ، خوش اطوار اور شریں کلام عملے میں کھلبلی مچ گئی۔ معمولی در و کد کے بعد وہ عملے ہی میں سے ایک پنجابی مترجم ڈھونڈ لائے۔

سانگھڑ کے اس جوڑے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک حسن بلا خیز ڈاکٹرنی ضویا کی باری تھی۔ وہ اسلام آباد کے قریبی مرکز کو چھوڑ کر اس لیے آئی تھی اسے پر کسی نے یہ منتر پھونک دیا تھا کہ کراچی عنقریب ستارہ نمبر اکیاون بن کر امریکہ کے پرچم میں جگمگارہا ہوگا۔ لاہور اور گھوٹکی والے بھی یہاں ویزہ لے کر آئیں گے۔ امریکی اپنا جان کر کراچی کے امیدواروں کو ویزہ دیتے وقت عدسی شیشے سے ہاتھی کا بدن نہیں ٹٹولتے۔ اس وجہ سے کراچی میں نسبتاً امریکہ کا ویزہ ملنے کا امکان اسلام آباد سے زیادہ ہوتا ہے۔

ہم نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو دیکھ کر تو یقین نہیں ڈیرہ اسماعیل میں تیرے جیسے سادہ لوح بھی پیدا ہوتے ہیں مگر اسے کراچی کا ٹوٹ کر امریکہ کی ریاست بننے کا پورا یقین تھا۔ اس کے باوجود ہم نے اسے سمجھایا کہ یہ بات اس لیے درست نہیں کہ ویزہ کی پالیسی ملک بھر کے لیے بہت یکساں ہوتی ہے۔ اس میں شہر کی تخصیص نہیں ہوتی۔ اسے باہر انتظار گاہ میں ہی بتا دیا تھا کہ اسے ویزہ نہیں ملے گا۔ کہنے لگی ایسی صورت میں اسے ڈیفنس میں خیابان بادبان پر ڈراپ کرنے کی ذمہ داری ہماری ہوگی۔ اس کے عزیز اسے چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ وہ کراچی سے زیادہ واقف نہیں

ہم نے دھیرج بندھائی کہ وہ انکار کی صورت میں اپنی فیس بچانے کے لیے اپنا کیس اسلام آباد بھجوانے کا کہے۔ دیر تک اپنی شانت وشال گگن جیسی بڑی بڑی آنکھوں سے ہمیں ایک نگاہ بے اعتبار سے دیکھتی رہی گو فیس والے نقطے پر اس کے چہرے کے تاثرات میں رنگ اثبات شامل تھا۔

اردو میں انٹرویو کے لیے ایک گوری کو بٹھایا تھا۔ انگریزی والی کھڑکی پر مصروفیت ہوتی تو وہ اگلے امیدوار سے انگریزی میں شروع ہوجاتی تھی۔ ورنہ اس تخاطب کا جال اردو میں ہی بچھتا تھا۔

اس خاتون کو اردو بولتے سنا تو ہمیں اس کے لب و لہجے میں تجلیوں کی وہ ہما ہمی محسوس ہوئی جو کم از کم پاکستان میں تو کسی نجی اور سرکاری ارادے حتی کہ کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ، طلبا و طالبات کی گفتار میں بھی کبھی سنائی نہیں دی۔ جامعات کے استاد تو کوئی بھی زبان بولیں لہجے کے بوجھل پن اور غیر ضروری سنجیدگی کے باعث ایسے لگتے ہیں گویا دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی رات میں قبرستان میں  مردوں کو پاکستان کے آئین کی دفعات سناتے ہوں۔

اس امریکن دوشیزہ کی اردو سن کر خیال آیا کہ آج اگر امرائو جان زندہ ہوتی اور او لیول میں اردو کا پرچہ دے رہی ہوتی تو ٹیوشن لینے اسی کے پاس آتی۔ مثلاً کھڑکی کے قریب درخواست گزار کو آتا دیکھ کر وہ  کہتی تھیـ’’ آئیے تشریف لائیے مزاج گرامی‘‘ کاغذات اور کمپیوٹر پر ایک چھچھلتی (سرسراتی) نگاہ ڈال کر درخواست گزار کی فراہم کردہ تفصیلات کا ایک سمندر اپنے سوالات کے گلاک پستول میں لوڈ کر لیتی۔ اس کے بعد ایک ادائے تغافل سے بہت کھنکھاتی ہوئی آواز میں شعیب اختر والا بائونسر مارتی کہ ’’ اللہ خیر کرے جناب کا امریکہ جانے کا ارادہ ہے؟ اب جاوید اختر کے والد والدہ صفیہ اور جانثار اسے طنز و تمسخر سمجھیں تو اور بات ہے۔ ہمارے جیسے میمن، سندھی پٹھان پنجابی اسے تہذیب کا تخاطب مانتے ہیں‘‘ جواب فراہم کردہ تفصیلات کے عین مطابق ہوتا تو وہ پوچھتی کہ ’’رہنمائی فرمائیں کیا وہاں آپ کے عزیز و اقارب بھی ہیں جناب کا، قیام کہاں اور کتنے دن کا ہوگا؟‘‘ ’’ تنہا کیوں جارہے ہیں اہل خانہ کیوں نہیں جا رہے۔ آپ کی اہلیہ کیوں ساتھ نہیں جارہی ہیں‘‘ بہت کم پاکستانی آخری سوال سن کر یہ کہنے کی ہمت کر سکتے تھے کہ میں اہل ہوں کسی اور کا، میری اہلیہ کوئی اور ہے۔

مطمئن ہوتی تو ویزہ عطا کردیتی۔ نہ ہوتی تو اپنے شیریں لبوں سے اتنی اپنائیت اور لگائو سے دوبارہ قسمت آزمائی کی تسلی دیتی۔ انکار بار گراں نہیں لگتا تھا۔ بن برسات بادل کی چھائوں لگتا تھا۔ اس کی اُردو سن کر خاکسار کو یہ احساس دامن گیر ہوا کہ اب اردو اور اسلام پاکستان سے ہجرت کرتے ہیں اور پیچھے ریاست مدینہ میں لے دے کہ مہاجر اور مسلمان رہے جاتے ہیں۔ اس ہجرت لامتناہی کا نتیجہ یہ ہے کہ شبلی، حسرت، سیدنا مودودی، احتشام الحق تھانوی اور کرار حسین کے جانشین جاوید لنگڑا، ریحان کانا، مجید دھوبی، نعیم شری، یعقوب مادہ ، نعیم چشمو، سلیم چنگاری اور اجمل پہاڑی ٹھہرے ہیں۔

پنجابی جوڑے سے مترجم کے توسط سے سوال ہوا کہ ’’آپ امریکہ جانے کے خواہش مند کیوں ہیں‘‘ جواب ملا ’’ پتر فوکے نے بلایا ہے‘‘۔ اس عفت مآب نے اعتراض کیا کہ فوکا نام کی کوئی تفصیل ان کے پاس نہیں‘‘۔ وضاحت کی گئی کہ’’ پتر کا نام محمد فاروق ہے مگر وہ اور سارا چک اسے فوکا ہی کہتا ہے‘‘۔ ’’آپ پہلے کبھی پاکستان سے باہر تشریف لے گئے ہیں‘‘۔ معصومہ نے پوچھا۔ جواب ملا کہ ’’اسی تے کراچی وی پہلی واری ویخیائی۔ اینو آکھو کہ اوتھے سانگھڑ وچ وہ دفتر کھولن، اوتہوں وی بوہتی لوک امریکہ جاندے نے ( ہم نے تو کراچی بھی پہلی مرتبہ دیکھا ہے اس سے کہو کہ وہاں سانگھڑ میں بھی ایک دفتر کھولیں وہاں سے بھی بہت لوگ امریکہ جاتے ہیں)۔

ان کا مطالبہ سن کر وہ زور سے ہنسی تو خاکسار کو لگا کہ آندھرا پردیش بھارت میں کسی نے بے احتیاطی سے پٹّو (ریشم) کا تھان کھول دیا ہے۔ کہنے لگی “Why Not” وہاں فوکا صاحب کیا کام کرتے ہیں تو جواب ملا ’’ سانوں کی پتہ‘‘ پانچ سال کا ویزہ تیسرے سوال پر منظور کرتے ہوئے کہنے لگی کہ’’ ان سے کہو کراچی دیکھ لیا ہے تو ہمارے امریکہ پر بھی ایک نظر ڈال لیں‘‘۔ اس غیر متوقع عنایت پر بوڑھا باپ اپنی لاتعلق شریک حیات کی طرف دیکھ کرکہنے لگا ’’فوکا صحیح آکھدا ہے کہ اے امریکی لوکی جنتی نیں‘‘(فوکا صحیح کہتا ہے یہ امریکی جنتی لوگ ہیں)۔ معصومہ نے اس آخری جملے کا ترجمہ مترجم سے ترجمے کا مطالبہ کیا تو وہ انگریزی پر اتر آیا کہنے لگا He says you will go to heaven ۔ وہ ہنس کر کہنے لگی Tell them I have no plans to die so soon (ان سے کہو کہ فوری طور پر میرا مرنے کا کوئی ارادہ نہیں)۔ وہ رخصت ہو گئے تو اردو والے ختم ہوگئے۔ ایک مختصر سا لمحہ سکوت ٹلا تو لگا کہ سفارت خانے کی کھڑکیوں پر بیگم اختر کی غزل اے محبت تیرے انجام پر رونا آیا کی استھائی تھم گئی ہے۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan