جھیل کنارے


گزشتہ کئی مہینوں سے دنیا سمیت پاکستان میں بھی کرونا وائرس نے زندگی کا پہیہ جام کر دیاہیں۔ حکومتی موئثر پالیسی اور عوامی تعاون سے کرونا پہ قابو پولیا گیا۔ لیکن، ابھی خطرہ ٹلا نہیں۔ اسی دوران خوف اور فرسٹریشن کے ماحول میں لاہور، کراچی اور شہر اقتدار کے صحافیوں کے ساتھ سیرو تفریح کا پلان بن گیا۔ جو بہت معلوماتی ٹور بھی تھا۔ باغوں کے شہر سے یہ سفر شروع ہوکر پہلی پڑاؤ شہر اقتدار کا تھا جہاں ایف سی کی جانب سے نہایت ہی لزیز کھانے سے تواضع کی گئیں۔

کھانا کھاتے ہی ناران کا سفر شروع کیا جب ایبٹ آباد کے قریب سے خوبصورت ٹنلز سے گزرے تو یوں لگا کہ کہیں ترکی کے شہر استنبول سے براستہ روڈ انقرہ جاتے ہوئے خوبصورت پہاڑوں میں بنی ہوئی ٹنلز سے گزر رہے ہیں اور اتنا حسین منظر دیکھ کر سب رفقا سابق وزیراعظم نواز شریف کو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ دوران سفر کبھی دائیں کبھی بائیں آبشاریں نکل رہی تھیں

جو ماحول کی دلکشی اور رعنائی کو چار چاند لگا ئے بیٹھی ہیں دن رات میں بدل چکا تھا۔ لاہور کا گرم موسم ناران کے سرد موسم میں تبدیل ہوچکا تھا۔ دوستوں نے سرد پہناوے اوڑھنا شروع کردیں اور تقریباً گیارہ گھنٹے کا سفر یوں لگ رہا تھا جیسے گیارہمنٹوں کا ہوں۔ کیونکہ جب ساتھ ان دوستوں کا ہوں جو آپ آپ کی زندگی میں صرف خوشیاں بانٹنے آئے ہوں۔ ہنستے کھیلتے، موسیقی سنتے، خوش گیپیاں مارتے، تصویریں بناتے ناران میں دریائے کنہار کے کنارے ایک دل کش منظر کے حامل ہوٹل میں قیام کیا
رات کا دوسرا پہر شروع ہونے کو تھا، سرد لباس پہنے رفقا تاروں سے باتیں کرتے پہاڑوں کے بیچ ٹھاٹے مارتے دریا کنارے بیٹھ گئے اور باربی کیو انجوائے کرتے رہیں۔
اگلی صبح سویرے حسین منظر کو کیچ کرنے کے لیے تھوڑی چہل قدمی کیں۔

اور پھر اگلے پڑاؤ کے لئے دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ سفر شروع کیا۔ دریا کنہار مسافروں کا دل لبھاتا ہیں کبھی سڑک کنارے بہنا شروع ہوجاتا ہے اورکبھی سینکڑوں فٹ گہرائی میں اتر جاتا ہیں کبھی شوخ و شنگ بچوں کی طرح اٹکھیلیاں کرتا پھرتا تو کبھی مدبر بزرگ کی مانند ٹھہراؤ اور متانت سے بہنے لگتا ہیں۔ گہرائی میں تیز بہتا پانی اور آسمان سے باتیں کرتے بلند وبالاپہاڑویں کے درمیان گاڑی پہ سفر جاری تھا لیکن قدرت کے نظاروں کو دیکھنے میں آنکھیں مدہوش تھی جیسے مدتوں بعد عاشق معشوق کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہے۔

دریا کنہار کے نقطہ آغاز پہ سطع سمندر سے 11190 فٹ بلندی پر واقع لولوسر جھیل پہنچے۔ یہ جھیل خدا کی کاریگری کا شاہکار ہے جھیل کے پانی کا ٹھہراؤ اس کی گہرائی کا پتا دیتی ہے۔ بلا کی خاموشی، سکون اور چند وزٹرز کی اٹکھیلیوں کی آوازیں مل کر فطرت کے حسن کو دو بالا کررہی تھی۔ سب نے خوبصورت مناظر کو اپنے کیمروں سے عکس بند کیا اور منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ بابو سر ٹاپ سے تھوڑا پہلے برف کا ٹیلہ ناکہ لگائے بیٹھا تھا۔

میزبان نے فوراً کرین کا انتظام کرکے پہاڑ نما ٹیلہ کو صاف کروادیا اس دوران سب دوست برف کے گولے بنا کے ایک دوسرے کا مارتے رہیں اور خاص طور پہ ہمسفر خواتین نے خوب تصاویر بنائی۔ اور پھر سے سفرشروع کر لیا اور برف کیسرنگوں سے گزرتے 13700 فٹ کی بلندی پہ واقع بابوسرٹاپ پہنچ گئے ابھی رکے ہی تھے کہ برف سے جمے پہاڑوں نے استقبال کیا اور ہلکی ژالہ باری شروع ہوگئی اسی دوران ٹھنڈ سے بچنے کے لئے سب نے دیسی انڈے کھائے زیادہ تر گاڑیوں میں بیٹھ گئے مجھ سمیت کچھ دوستوں نے اس نظارے کو آنکھوں کی ذریعے دماغی میموری میں ذخیرہ کر لیا۔

جیسے ہی بابو سر ٹاپ سے نکلے چند کلو میٹر آگے سے پہاڑی بکرے کو پہاڑی انداز میں پکا کر میزبان نے سب مہمانوں کو پیش کیا۔ جو لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والوں کے لئے بہت منفرد تھا جی بھر کے کھایا پیا اور گلگت کے لئے روانہ ہوگئے۔ اگلی قسط میں چودھویں کے چاند جیسی روشن، تاروں سے براہ راست محو گفتگو، پاسو کونز کا نظارہ کراتی، دلکش نیلی رنگ کی مالکن موسموں کی طرح اپنا رنگ بدلنے والی، فلک شگاف پہاڑوں کے بیچ ڈیرہلگائے جھیل کی خوبصورتی کو بیان کیا جائے گا، مارخور سے ملاقات احوال بھی کہا جائے گا، نیشنل پارک کی سیر اور چائینیز سرزمین کو بھی ہیلو ہائے کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).