لاہور بھی لاہور سے آگاہ نہیں ہے


عام لاہوری کو لاہور کا اتنا ہی پتا ہے جتنا اندھے کو کھیر کا۔ اگر آپ کسی لاہوری سے پوچھیں انارکلی کدھر ہے؟ عین ممکن ہے وہ کہے ”مغل اعظم“ میں۔ ”اس بازار میں“ ”پھجے“ کا اتا پتا معلوم کرنا چاہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ کوئی آپ کو میکڈونلڈ کا رستہ بتا کر خود پھچے کے ہوٹل میں جا بیٹھے۔ اسی طرح وہیں کھڑے کھڑے اگر کسی راہ چلتے سے یہ استفسار کریں کہ ”کہاں گئے ہیں وہ گل ہائے دل نشیں سارے؟“ تو ایسی دل خراش راہنمائی کے لیے تیار رہیے۔ ”پا جی! راوی کے پہلے کنارے سے راے ونڈ کی آخری حد تک، کھول آنکھ، زمیں دیکھ، ادھر دیکھ، ادھر دیکھ“ ہاں البتہ رکشے والا آپ کو ایسے سوال پر داتا دربار، باغ جناح یا ریس کورس لے کر جا سکتا ہے۔

مینار پاکستان، شاہی مسجد اور قلعہ دیکھنا ہے تو میٹرو پل سے گزرتے ہوئے دور ہی سے تاریخ کا دیدار کر لیجیے۔ قریب جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ راہ بھول سکتے ہیں اور قدموں کی چاپ سے تاریخ بھی بیدار ہو سکتی ہے۔ اس مقام فکر پر یہ یاد رہے کہ تغیرات زمانہ سے لاہور کی لاہوریت کو دھچکا لگا ہے، تاریخی حقائق کو نہیں۔ آج بھی لاہور کی آنکھیں غروب آفتاب کے بعد روشن ہوتی ہیں۔ اسی طرح آج بھی لاہوری پانی پیے بغیر سرکاری نل نہیں چلتے۔ لاہور کا یہ کمال بھی بدستور قائم ہے کہ جس آشفتہ سر کی خبر اس کی گلی سے نکلی وہ خبر نامہ بن گئی۔

بس گدھے رہ گئے تھے۔ اگرچہ رنگیلے نے سلور سکرین پر ان کی عظمت بہت پہلے دکھا دی تھی۔ لیکن گردش ماہ و سال کے ظالمانہ اسلوب کا کیا کیجیے کہ عظمت کے بعد حقارت کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یعنی نرگس کو ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونا پڑتا ہے تب کہیں جا کر یہ مثل بنتی ہے ”خدا مہربان تو گدھا پہلوان“ ۔ کچھ سال پہلے یہ خبر گرم ہوئی کہ لاہوری ہوٹلوں میں گدھوں کے گوشت سے لاہوریوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ اس خبر سے، ملک کے طول و عرض میں بکروں، گائیوں، بیلوں اور اونٹوں کی مانگ کم ہوگئی۔ حلال و حرام اور پاپ و پن کے مباحث چل نکلے، البتہ سر ”پھٹولی“ تک نوبت نہیں آئی؟ بہرکیف، ہاہا کار مچانے کی کیا ضروت تھی؟ لاہوریوں سے پوچھ لیتے، جنھوں نے جس گدھے کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کے دوبارہ سینگ نکل آئے۔

بہرحال استاد کا کہنا ہے کہ لاہور نے ہماری سیاسی، سماجی، علمی و ادبی اور ثقافتی زندگی کو جو کچھ دینا تھا دے دیا۔ اس لیے، اب اگر اس شہر کی لاہوریت کو بچانا ہے تو اسے میوزیم کا درجہ دے کر، اس پر ٹکٹ لگا دینا چاہیے۔ ورنہ لاہور کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، چند سالوں بعد ہڑپہ کی طرح لاہور کی لاہوریت بھی کسی کھدائی کے دوران ہی دریافت ہوگی۔ ، ”استاد جی! جو لوگ لاہور میں رہتے ہیں ان کا کیا بنے گا۔ کوئی مسئلہ نہیں، جو خواص ہیں ان کی رہایش گاہوں کے گرد جنگلے لگا کر ان کو چڑیا گھر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ان کے کھلے عام دندنانے سے پاکستان کی دیہی اور شہری آبادی کو خطرہ ہے“ ۔

”اور جو عام ہیں؟“ انھیں دریاے راوی کی خشک زمینوں پر جھونپڑیاں بنا کر وہاں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ اگر وسیع تر قومی مفاد کی خاطر انھیں وہاں لاہوری نہاری اور سری پائے کے ہوٹل کھولنے کی اجازت دے دی جائے تو اہلیان لاہور کی قدیم راویتی خوراک میں شامل ”تازہ دریافت شدہ لحم“ ٹرکوں کے ذریعے با آسانی افغانستان اور وسطی ایشیائی مملک میں بھیجا جا سکتا ہے۔ آخر انھیں بھی تو پتا چلے کہ حلوہ پوری، دال پوری اور ساگ پات کھانے والے کس طرح بتدریج بکروں، بیلوں، گائیوں اور اونٹوں کا گوشت کھاتے کھاتے ایک دم گدھوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ بھیا! ماس خوری کے تخم کو ہوا دینے والوں بھی تو نئے ذائقے سے آشنا ہوں ”۔

”محترم! دریا میں تو کبھی کبھار پانی آ جاتا ہے“ ۔ ”تو آنے دیں، میاں! جتنا پانی اب دریائے راوی میں آتا ہے، اتنے پانی میں لاہوری کی ناک نہیں ڈوبتی اور اگر ڈوبتی ہوتی تو وہ ساون کی بارشوں میں کئی دفعہ ڈوب چکی ہوتی۔“ ”لیکن استاد جی! لاہور کی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا کیا ہوگا؟“ صاحبزادے! وہ میوزیم کا حصہ بن جائیں گی ”۔ وہ کیسے؟ بھئی دیکھو جہاں تک ادبی سرگرمیوں کا تعلق ہے اس کے لیے میوزیم کے اندر ہی کچھ نامی اور سرکاری شاعروں اور ادیبوں کو منتخب کرکے انھیں تا دم مرگ کنٹریکٹ پر رکھا جاسکتا ہے، اور خزانے کی حالت بہتر بنانے کے لیے ان پر ٹکٹ بھی لگایا جا سکتا ہے۔

میوزیم میں جو بھی آئے ٹکٹ خریدے، اپنی مرضی کے شاعر اور ادیب سے، اس کا کلام سنے، پان کھائے، سگرٹ پیئے اور میٹرو پر بیٹھ کر رات بھیگنے سے پہلے لاہور سے باہر آ جائے اور اگر نہ آئے تو؟“ میاں پھر لاہور اسے بھگو دے گا اور لاہور کا بھیگا جلد سوکھتا نہیں۔ باقی رہے علمی اور ثقافتی مسائل، یاد رہے سارے کام ایک دن میں اور ایک ہی اندا ز میں نہیں ہوتے ”۔

”ہاں البتہ ایک کام کیا جاسکتا ہے۔ میوزیم میں کچھ بین الاقوامی اور مقامی دانشوروں کے مجسمے رکھ دیے جائیں اور اس کے علاوہ بہتے بہاتے لاہور آنے والے دانشوروں کو سرکار کی فراہم کردہ لیسٹوں کے مطابق میوزیم میں جگہ دے دی جائے تاکہ سرکار کی سرکاریت کی ترویج و ترقی کے اسباب ان اہل علم کی صورت میں دکھائے اور بتائے جا سکیں۔ بس ان پر ایک شرط عائد کر دی جائے کہ وہ چپ رہیں گے اور گایے گاہے سگرٹ کے کش لگا کر دھویں کے مرغولے چھوڑتے رہیں گے تاکہ میوزیم میں آنے والوں پر سرکاری دانشوری کا تاریخی بھرم برقرار رہے“ ۔

”استاد جی! لاہور کے جو بڑے سرکاری دفاتر ہیں ان کا کیا بنے گا“ ؟ بھئی! ان کا مقبرہ بنے گا ”۔“ جی! ”۔“ ہاں جی! بس لاہور کو میوزیم کی صورت میں ڈھالنے والوں کو اتنا کرنا ہوگا کہ بڑے سرکاری دفاتر میں فائلوں کا ڈھیر لگا کر ان پر کچھ خاندانی کلرکوں اور افسروں کے مجسمے سجانے ہوں گے تاکہ سیاح لاہور کے افسر شاہی نظام کی تاریخی کارگزاریوں کو فائلوں میں دبا دیکھ سکیں ”۔

”چلیں یہ سب تو ہوا لیکن لاہور کی جامعات اور کالجز کا کیا ہو گا“ ؟ میاں ان کا کیا ہونا یے۔ جدید میوزیم میں آنے والے طلبہ کی رومانوی تربیت کے لیے ایسی تفریح گاہوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان تفریحی گاہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے لاہور کی سب سے قدیم یونیورسٹی کے زیر انتظام باقی تمام درس گاہوں کو میوزیم کے اندر تفریح گاہوں کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ ”اور لائبریریاں“ ؟ ”بھئی! کتابیں لاد کر نہ راوی پار ہوتا ہے اور نہ چناب ; باقی رہی لاہوریت تو وہ بچاری ویسے بھی پلوں کے نیچے لیٹی فریاد کناں ہے :

برہ بدھا کی ماری مرت ہوں
سوجھے نہ مو کو جوگ نہ بھوگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).