کچھ کرنے کو اب بھی وقت ہے


مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں 5 اگست کا دن خصوصی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے اور اس سال اس دن کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ تھی کیونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پامالی اور دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کی بدولت مقبوضہ کشمیر کے خصوصی اسٹیٹس کے خاتمے کے بعد یہ پہلا 5 اگست تھا۔ یعنی اس تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بھارتی یک طرفہ اقدام اور غاصبانہ قبضے کو ایک برس بیت گیا۔

اس دوران بھارتی سرکار نے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دس لاکھ سکیورٹی فورسز کے ذریعے کچلنے کی سر توڑ کوشش کی جو کامیاب نہیں ہو سکی۔ 365 دن گزر جانے کے باوجود کشمیر میں حالات آج بھی نارمل نہیں ہیں اور اہل کشمیر کی مزاحمت جاری ہے۔ طویل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے نفاذ سے کشمیریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے مگر ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ برہان وانی، سرتاج احمد، پرویز احمد، کمانڈر ریاض نائیکو، کمانڈر یاسین ایٹو، ڈاکٹر سبزار، پروفیسر رفیع بٹ، ڈاکٹر منان بشیر وانی، جنید اشرف صحرائی سمیت سینکڑوں جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں کشمیری مسلسل پابند سلاسل ہیں مگر کشمیریوں کے پائے استقامت میں لغزش بالکل نظر نہیں آ رہی۔

بھارتی سرکار کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ظلم و ستم نئی بات نہیں مگر گزشتہ سال کشمیر کی امتیازی حیثیت برقرار رکھنے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد کشمیری عوام پر ظلم و ستم میں انتہائی تیزی آئی ہے۔ گزشتہ ستر سالوں سے بھارت مختلف حیلوں سے کشمیری عوام کی نسل کشی کی ڈھکی چھپی کوششوں میں مصروف تھا۔ صدارتی حکم کے ذریعے مذکورہ آرٹیکل کے خاتمے کے بعد مگر کشمیری عوام کی نسل کشی کی بالکل علانیہ کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

اس سے قبل غیر کشمیری شخص پر وادی میں جائیداد خریدنے اور ملازمت حاصل کرنے جیسی پابندیاں عائد تھیں تاکہ کشمیری عوام کی اکثریت غیر مقامی افراد کی آباد کاری کے سبب اقلیت میں تبدیل نہ ہو۔ لیکن اس پابندی کے خاتمے کے بعد اب کشمیر کا درد سر ختم کرنے کے لیے بلا جھجک وہی طرز عمل اختیار کیا جا رہا ہے جو اسرائیل غزہ میں کر رہا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تصفیہ طلب مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ کے ہی چارٹر کے مطابق کوئی بھی قابض ریاست مقبوضہ علاقے میں اپنے رہائشی نہیں بسا سکتی، اس کے باوجود کھلم کھلا یہ عمل جاری ہے۔

اس مذموم عمل پر کشمیری عوام کے ممکنہ رد عمل کو دبانے کے لیے تقریباً سال بھر گزرنے کے بعد بھی کرفیو کی سی کیفیت نافذ ہے جس کے باعث پورا مقبوضہ کشمیر جیل بنا ہوا ہے۔ عوام گھروں میں محصور ہیں انہیں روزگار تعلیم اور عبادت جیسے بنیادی حقوق کی بھی اجازت نہیں ملتی۔ آزادی کا پیدائشی حق مانگنے والوں کو شیلنگ، تشدد اور پیلٹ گنوں کے ذریعے معذور کیا جا رہا ہے۔ عورتوں کے خلاف ریپ اور جنسی تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔ محاصرے کے باعث خوراک اور ادویات کی قلت ہے اور لوگ سنگین بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں اور بہت بڑی تعداد کو روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے کھانے کے لالے پڑے ہیں۔ ٹیلی فون، موبائل، انٹرنیٹ، میڈیا اور مواصلات کے دیگر تمام ذرائع پر قدغنوں کی وجہ سے مگر وہاں کی درست خبر دنیا تک نہیں پہنچ رہی۔

گزشتہ سال 5 اگست کے غاصبانہ بھارتی اقدام کے فوراً بعد سے کئی بار میں نے لکھا تھا کہ ان ہتھکنڈوں کا اصل مقصد وادی میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنا ہے۔ اب سال بھر گزرنے کے بعد مستند عالمی اداروں میں بھی اس قسم کی تحاریر شائع ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئے ایک مضمون کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال میں سات لاکھ سے زائد کشمیری بیروزگار ہو چکے ہیں۔ اندازہ لگائیں یہ کتنی بڑی تعداد ہے اور ان سے وابستہ خاندانوں کا حساب لگایا تو سمجھا جا سکتا ہے کہ صورتحال کس قدر سنگین ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ مضمون کے مطابق اس قلیل مدت میں بھارتی سرکار چار لاکھ کے قریب غیر کشمیریوں کو مقبوضہ وادی کا ڈومیسائل جاری کر چکی ہے۔ اس کے بعد بھارتی سرکار کی کشمیریوں کی نسل کشی کی پالیسی میں ابہام باقی نہیں رہا۔ حالات یہی رہے تو لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدل کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے بھارت سرکار اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے نام پر استصواب رائے کا ڈرامہ رچا کر اپنا مکروہ قبضہ ہمیشہ کے لیے مستحکم کرلے گی۔

مقبوضہ کشمیر کے لیے عملاً کچھ کرنے کا وقت ہمارے پاس تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ پچھلا ایک سال جب بین الاقوامی سطح پر لوہا گرم تھا پہلے ہی ہم اندرونی خلفشار اور سیاسی دشنام طرازی میں ضائع کر چکے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے آپشن محدود ہیں اور ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا۔ مقبوضہ کشمیر پر عملی اقدامات کی بات ہو تو یہ سوال بجا طور پر اٹھتا ہے کہ بطور ریاست ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ بات تو اب گرہ سے باندھ لینے کی ضرورت ہے کہ انڈیا بھی ہماری طرح نیوکلیئر پاور ہے اور کسی مہم جوئی سے ہم نہ تو کشمیر لے سکتے ہیں نہ عالمی برادری اس کی اجازت دے گی۔

دوسرا نمبر آتا ہے سویلین مزاحمت کو سپورٹ کیا جائے نائن الیون کے بعد عالمی منظرنامے کی صورت گری میں ہم اب اس کے بھی متحمل نہیں ہو سکتے اور پہلے ہی Fatf کی تلوار ہم پر لٹک رہی ہے۔ آخری آپشن سفارت کاری ہے بشرطیکہ بھرپور طریقے سے اپنے آپشن بروئے کار لائے جائیں۔ بھارتی سرکار کو دباؤ میں لانے کی خاطر کشمیری حریت لیڈران کی حکومت بنوائی جا سکتی ہے اور مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر بھارت سرکار کے خلاف یورپی و امریکی عدالتوں میں مقدمے کیے جا سکتے ہیں۔

تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل وفد تشکیل دے کر کشمیر کاز کے لیے تمام بڑے دارالحکومتوں اور عالمی اداروں کے دورے کرنے کی ضرورت ہے۔ بات مگر یہ ہے کہ جب تک وطن عزیز اندرونی طور پر خلفشاراور محاذ آرائی کا شکار رہے گا تو دنیا بھی ہماری بات کو وقعت نہیں دے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کو ہیں اس عرصہ میں نہ صرف ملکی معیشت تباہی کا شکار ہوئی بلکہ سیاسی محاذ آرائی اور عدم برداشت بھی بھیانک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اب بھی وقت ہے خان صاحب کو اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کے حوالے سے ترجیحات بدلنا ہوں گی بصورت وہ وقت دور نہیں جب کشمیری عوام یہ تصور کر لیں گے ہم ان کے لیے زبانی جمع خرچ بھی درست طریقے سے نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).