زمانہ سازی و نقشہ بازی


”ناک نقشہ“ محاورے کا استعمال عموماً رشتہ لے کر آئے مہمانوں کے سامنے ٹرالی دھکیلتی یا چائے، سموسے سے لدی ٹرے بردار لڑکی کے سلسلے میں کیا جاتا ہے۔ مہمان اگر ازغیبیئے نہ ہوں تو یہ تبصرہ زیر نمائش فریق کے باورچی خانے میں لوٹ جانے کے بعد ہوتا ہے اور اگر ہوں (جیسا کہ اکثر ہوتا ہے ) تو موجودگی ہی میں داغ دیا جاتا ہے۔ پہلی دوسری پیشی پر ہی لڑکیاں سمجھ جاتی ہیں کہ اس انتحاب محاورہ میں ان کے عدم انتخاب کا اعلان مضمر ہے، تاہم صاف الفاظ میں اس لیے نہیں کہا گیا کہ آئندہ چند ماہ چائے اور سموسہ مدارات جاری رہیں۔ ناک نقشے کی تعریف کا تکلف بھی محض رنگت و عمر کے شعبے میں پختگی کی نشاندہی کی غرض سے کیا جاتا ہے اور ’تیکھے نین نقش” کا پرسا برسبیل اشک شوئی ہوا کرتا ہے۔ اس طویل اور پھاپا کٹنی تمہید کے بعد عرض یہ ہے کہ مضمون در اصل“ نام۔ نقشے ”سے متعلق ہے،“ ناک ”کی وجہ نزول و نزلہ بعد میں گرائیں گے۔

کارٹوگرافی کے لیے موزوں اردو محاورہ ”نقشہ سازی“ ہے، ”نقشے بازی“ ایک علیحدہ دھندا ہے اور آج کل اس قدر عام ہے کہ اسے سرکاری سطح پر گھریلو صنعت کا درجہ دینے پرغور کیا جا رہا ہے۔ جگہوں اور مقامات کے ناموں کی تبدیلی بھی آج کل سرحد کے دونوں جانب عروج پر ہے، گویا؛

دونوں طرف تھی لوٹ برابر مچی ہوئی
جو کچھ کسی کے ہات لگا لوٹتا رہا
زیدی وہ لوٹتے رہے میرے قرار کو

میں بے قراریوں کے مزے لوٹتا رہا

(یہ اشعارنجانے کس کے ہیں، علی زیدی کے بہرحال نہیں ہو سکتے کیونکہ بے قراری کی لوٹ مار ان کی ترجیح میں سرے سے نہیں )

جگہوں کے نام تبدیل ہونا شروع ہوئے تو یونہی خیال آیا کہ کن مقامات کے نام کسی بھی وجہ سے تبدیل کئیے جا سکتے ہیں اور ان کے متبادل نام کیا تجویز کئیے جائیں۔ مثال کے طور پر بنی گالہ؟ موجودہ نام پر ایک اعتراض تو یہ بنتا ہے کہ پلے بوائے کے انتقال کے بعد (گھبرانا نہیں ہے، ہماری مراد رسالے کے مالک ہئیو حیفنر سے ہے) ”بنیز“ یعنی زیر جامے میں ملبوس خرگوشوں کا دور بھی ختم ہوا، رہ گیا ”گالہ“ تو حکمراں جماعت کے وتیرے کے پیش نظر ”گالی“ زیادہ مناسب ہے۔

اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ متبادل نام کیا تجویز کیا جائے؟ ہم نے وفاق کی کراچی میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر سوچا کہ جس طرح دوپٹا بدل بہنیں ہوتی ہیں، اسی طرح نام بدل جگہیں بھی ہونی چاہئیں۔ ہمارے خیال میں بنی گالہ پر رنچھوڑ لائن زیادہ جچے گا۔ مشتعل یا متبسم ہونے سے قبل یہ جان لیں کہ ”رن“ سندھی، سرائیکی یا پنجابی میں استعمال نہیں ہوا۔

رن رزم، مبارزت اور میدان جنگ کے طور پر استعمال ہوتا ہے مثلاً رن بھومی، یا ”گھمسان کا رن۔“ مشہور مصرع ہے کہ ”کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔“

رن۔ چھوڑ کے تناظر پر غور کیا تو یہی سمجھ میں آیا کہ کوئی میدان چھوڑ کر بھاگنے کا واقعہ ہوا ہوگا جس کی بنا پر علاقے کا نام پڑا۔ اگر کسی کو اس متبادل پر اعتراض ہو تو اس کا برعکس یعنی رندھاوا لائن بھی تجویز کیا جاسکتا ہے، مگر اس کے لیے رن اور دھاوا کو الگ الگ لکھا جائے تاکہ مطلب واضح ہو جائے یعنی رن میں دھاوا بولنے والا۔ یہ امر خاصا دلچسپ ہے کہ حملہ اور یورش کیے جاتے ہیں، مگر دھاوا اور ہلہ بولا جاتا ہے۔ اغلب امکان یہی ہے کہ جس زمانے میں جرنیل پلاٹوں کے بجائے ممالک پر قبضہ کرنے کو ترجیح دیتے تھے، کسی تمن دار یا ہزاری نے ”ہلہ“ یا ”دھاوا“ کا نعرہ بلند کیا ہو اور یوں یہ لشکری محاورہ زبان کا حصہ بن گیا اور آج بھی ”بولا“ جاتا ہے۔

شاہراہوں اور گزرگاہوں کے نام بھی تبدیل ہو رہے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری بھی ایک گزارش ہے۔ دیکھئیے نا اچھا کوئی تھوڑی لگتا ہے کہ پنڈی سے شاہراہ سرینگر کی جانب سفر کرنے کے لئے لازماً کھنہ پل کے ”تھلے لگا“ جائے۔ اب دو ہی صورتیں ہیں، یا تو کھنہ پل کا نام تبدیل کر کے ”لبیک پل“ رکھ دیا جائے، یا یہ پنڈی سے آنے جانے کا خرخشہ ہی ختم کیا جائے اور سارا تام توبڑہ ہی اسلام آباد منتقل کر دیا جائے۔ ایک ترکیب اور بھی ہو سکتی ہے اور وہ صنفی مساوات کے سلسلے میں بھی پیش رفت شمار ہوگی، پل کا نام مکمل کر دیا جائے، یعنی یہ خالی خولی ”کھنہ“ سے پہلے ڈمپل یا ٹوئنکل کا اضافہ کیا جائے۔

پھر آپ ”آنیاں۔ جانیاں“ دیکھئے گا پنڈی بوائز کی، روز سرینگر کی جانب روانہ ہوں گے۔ ویسے ایس، ایم، کیو کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے دیں، جونہی سرینگر ہمارے زیر انتظام آیا ہم وہاں استصواب رائے کا اہتمام کریں گے اور اگر وہاں کے لوگوں نے ہماری تجویز سے اتفاق کیا تو سرینگر کا نام بھی تبدیل کر کے سری دیوی نگر رکھ دیا جائے گا۔

ہمارے ایک دوست بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں واقع ہندو باغ کا نام تبدیل کر کے مسلم باغ رکھا گیا تو کسی دوراندیش شخص نے مشہور پہاڑی سلسلے ہندو کش کا نام بھی تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی جو کہ رد کردی گئی۔ اب تبدیلی کی ہوا چلی ہے تو لگے ہاتھوں یہ کام بھی نمٹا نہ دیا جائے؟ چلیں ہندو کش کا متضاد نہ رکھیں، ”خود کش“ رکھ لیں، وہ بھی تو چند برس قبل اپنے ”گمراہ بھائی“ گردانے جاتے تھے۔ ”گمراہ“ تو اب قومی دھارے میں شامل ہو گئے، ”گم کردہ“ جانے کب بازیاب ہوں گے۔

حرف آخر:

سنتے آئے تھے کہ ”شیروں کے مقابل کبھی آتے نہیں روباہ“ لیکن اسلام آباد انتظامیہ نے گزشتہ دنوں جو سلوک اصلی شیروں کے ساتھ کیا ہے اس کے بعد کاغذی شیروں کو قشعریرہ ہونا (لرزہ طاری ہونا) فطری عمل ہے۔ سرکس کے شیر ناک چنے چبوانے سے ناک رگڑنے کی مراجعت میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).