انڈیا چین کشیدگی: سرحد پر سرد موسم گزارنے کے لیے انڈین فوج کتنی تیار ہے؟


انڈین فوج

لداخ میں گزشتہ تین ماہ سے زیادہ عرصے سے انڈیا اور چین کی فوجیں مختلف مقامات پر آمنے سامنے ہیں۔ حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں لیکن مزید افواج کی تعیناتی اور آنے والے دنوں کی تیاریوں سے انڈیا کی فوج زبردست دباوٴ میں معلوم ہو رہی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈیا کی فوج کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انڈین فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ ‘اپنی موجودگی کو مضبوط کرنے کے لیے اس علاقے میں بھیجے جانے والے سکیورٹی اہلکار فی الحال واپس نہیں بلائے جائیں گے۔’ یعنی اب فوجی دستے اس علاقے میں سردیوں میں بھی رہیں گے اور اس سے موجودہ حالات کی سنجیدگی کا بھی پتا چلتا ہے۔

سرد موسم میں پیش آنے والی مشکلات

لداخ میں ہر برس گرمیوں کا موسم شروع ہونے کے ساتھ ہی سڑکوں سے برف ہٹانے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران سردیوں کے لیے فوجیوں کو ضروری اشیاء فراہم کرنے کا کام شروع ہو جاتا ہے، کیوں کہ سردیوں میں یہاں کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور فوجیوں تک رسد پہنچانا مشکل ہو جاتا ہے۔

گرمیوں میں سڑک کے راستے لداخ جانے والے کسی بھی شخص کے لیے طویل اور ایک طرفہ فوجی قافلے نظر آنا معمول کی بات ہے۔

موسم سرما میں سرینگر کے جوزیلا پاس سے ہوتے ہوئے منالی کے راستے روہتانگ پاس کے ذریعے لداخ پہنچنے کے راستے پر برف کی دبیز چادر جمی رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

لداخ: چین کے 17 ہزار فوجیوں کے جواب میں انڈیا کی جانب سے بھاری تعیناتی

گلوان: انڈین، چینی افواج کے ’پیچھے ہٹنے‘ سے کیا مراد ہے؟

‘کیا انڈیا چین کے جال میں پھنس چکا ہے؟’

انڈیا، چین تنازع میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

انڈین فوج

یہاں سے دور دراز علاقوں میں اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول، لائن آف کنٹرول کے آگلے مورچوں پر، سیاچن اور ایکچوئل گراوٴنڈ پوزیشن پر تعینات فوجیوں کے لیے راشن، ایندھن، ہتھیار، گولا بارود اور کپڑے جیسی اشیاء پہنچائی جاتی ہے۔

اس میں نئی بات کیا ہے؟

انڈیا اور چین کے درمیان لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر عام طور پر فوجیوں کی اتنی تعداد نہیں ہوا کرتی ہے جتنی ایل او سی پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ایل اے سی پر خار دار تاروں کی سرحد یا فلڈ لائٹز جیسے دیگر انتظامات بھی نہیں ہیں۔

انڈیا اور چین کے درمیان 3,488 کلومیٹر طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا علاقہ ہے جو لداخ سے لے کر انڈین ریاست ہماچل پردیش، اتراکھنڈ اور سکم سے ہوتا ہوا اروناچل پردیش میں ختم ہوتا ہے۔

اس سرحد پر وسیع اور طویل اور عریض ایسے کھلے سرحدی علاقے ہیں جن کی نگرانی دونوں ممالک کی افواج گشت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کرتی ہیں۔ ان دِنوں حالات اور بھی سخت ہو گئے ہیں۔

انڈین فوج کی اودھم پور میں واقع شمالی کمان کے کمانڈر رہ چکے ریٹائرڈ لیفٹنینٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا نے بتایا کہ ’اتنی بڑی سطح پر اشیاء بھیجے جانے کا اتنا بڑا آپریشن نہ صرف موجودہ فوجیوں کی بلکہ یہاں بھیجے جانے والے مزید فوجیوں کی بھی مدد کرے گا۔ ایسا آپریشن شمالی لداخ میں اس سے قبل نہیں ہوا۔ اور یہی بات اسے غیر معمولی بناتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’عام طور پر معاشی سال کے آغاز میں فوج اشیاء کی سپلائی کا کام شروع کر دیتی ہے تاکہ سرد موسم تک سٹاک اکٹھا کیا جا سکے۔ اس میں کپڑے، راشن کے ٹھیکے دینا، اشیاء کی تیاری کا آرڈر دینا، ٹرانسپورٹنگ اور نومبر تک چوکیوں تک اشیاء کی فراہمی شامل ہیں۔‘

ہوڈا نے بتایا کہ ’چودہویں کور کے لداخ میں تعینات 80 ہزار فوجیوں کے لیے تو یہ کام ایک دم ٹھیک رفتار پر چل رہا ہے لیکن اب ہمارے پاس وہاں مزید فوجی بھی ہیں۔ ان کے لیے ٹھیکے دیے جانے اور ٹرانسپورٹیشن جیسے کام شروع سے کرنے ہیں اور اس سب کے لیے تھوڑا ہی وقت باقی ہے۔ یعنی سڑک کے راستے یہ تمام کام نومبر تک پورے ہو جانے چاہئیں۔ اس کے بعد فضائی راستے سے اشیاء فراہم کرنا پڑے گیں۔‘

فوجی افسران بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ اب صرف شمالی لداخ تک محدود نہیں ہے۔ ایل اے سی کا پورا علاقہ ہی کشیدہ ہے۔

ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ اس بار لداخ میں فوجیوں کا کام کاج کس طرح مختلف ہو گا۔ انڈین فوج کے سابق ڈپٹی چیف لیفٹنینٹ جنرل ایس کے پتیال لیہ میں واقع چودہویں کور کے کمانڈر رہ چکے ہیں۔

انڈین فوج

انھوں نے بتایا کہ ‘امن کے دوران مان لیجیے کم تعداد میں فوجی یا فوج کی ایک کمپنی (قریب سو فوجی) ایل اے سی کے نزدیک تعینات ہوتی ہے۔ حالیہ کشیدگی کے دوران فوجی ایل اے سی سے زیادہ نزدیک ہوں گے ہیں اور انھیں اپنے ساز و سامان کے ساتھ وہاں جانا ہو گا۔ انجینیئرز، کمیونیکیشنز کے ماہرین اور میڈیکل کور سبھی کو ان کے ساتھ وہاں جانا ہو گا۔‘

پتیال نے بتایا کہ وہاں تک اشیاء پہنچانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں نئی جگہ محفوظ مقامات پر رکھا جائے۔ یہ ایک بہت بڑا کام پوتا ہے۔

یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا انڈیا اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے ساتھ چین پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے؟

انڈین فوج فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد میں تعیناتی کے بارے میں اب تک خاموش ہے۔ حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے ایسے سمجھنا چاہیے کہ انڈیا اپنے تحفظ کے لیے ایسا کر رہا ہے نہ کہ چین پر حملے کی تیاری کے لیے۔

پتیان کا کہنا ہے کہ ’لداخ میں خطرناک سردی ہوتی ہے۔ درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے اور چالیس فٹ تک برف بھی جم جاتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے حالات میں عام طور پر گشت کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ واضح طور پر یہ ایسا دور نہیں ہو گا کہ جب انڈیا جنگ کرنا چاہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انڈین فوج خود کو عام حالات کے مقابلے زیادہ تیار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اس لیے مزید فوجی دستے وہاں بھیجے گئے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر فوری کارروائی کی جا سکے۔‘

جنرل ہوڈا بھی ان کی اس بات پر متفق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ تعیناتی دشمن کو اپنے علاقے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے کی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں چین ابھی بھی ہمارے سامنے ایک بڑی فوج کھڑی کیے ہوئے ہے۔‘

مشکل ابھی ٹلی نہیں ہے

انڈو تبت سرحد پولیس (آئی ٹی بی پی) اس سرحد کی نگرانی کے لیے ہی بنائی گئی ہے اور ایسے کشیدہ حالات میں یہ پورے سال ایل اے سی کے قریب ہی تعینات رہتی ہے۔

اس علاقے میں قریب چار دہائی کی تعیناتی کے تجربے والے آئی ٹی بی پی کے سابق آئی جی جیویر چودھری کہتے ہیں ’زیادہ تعداد میں تعینات فوجیوں کے لیے ان کی ضرورت کی اشیاء فراہم کرنا بے حد مشکل کام ثابت ہونے والا ہے۔ اس کی قیمت کافی زیادہ ہو گی۔ لیکن یہ ایک فرض کی طرح ہے اور مشکلات کسی کو روک نہیں پائیں گی۔ تمام مشکلات کے باوجود ہمیں اس میں کامیاب ہونا ہو گا۔‘

فوج کی چودہویں کور کے چیف آف سٹاف کے طور پر کام کر چکے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سنجے کلکرنی ایک اور بات پر زور دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور چین دونوں کے ہی فوجیوں کے درمیان کئی بار ایل اے سی پر گشت کے دوران کشیدگی ہو جاتی ہے۔ ماضی میں ایسا ہونے پر فوری طور پر معاملے کا حل نکال لیا جاتا تھا۔ لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب کچھ بھی ہوا تو دونوں جانب سے سمجھا جائے گا کہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا گیا ہے۔ ایسے میں معاملہ الجھ سکتا ہے۔‘

ہوڈا کے مطابق خاص طرح کے کپڑے فراہم کرنا اور شیلٹرز بنانا اس وقت بڑا چیلینج ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شیلٹر صرف فوجیوں کے لیے ہی نہیں چاہیے بلکہ ضروری ہتھیاروں اور آلات کے لیے بھی محفوظ ٹھکانے چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ٹینکوں اور آرمڈ پرسنل کیریئرز کو کھلے میں نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔

انڈین فضائیہ بھی تیاریوں میں شامل

مگ

فوج کی مدد کے لیے بڑی سطح پر ٹرانسپورٹ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی بھی تعیناتی ہوئی ہے۔ اس طرح انڈین فضائیہ بھی اس مشن میں شامل ہے۔

اس مسئلے پر ریٹائرڈ ایئر وائس مارشل منموہن بہادر نے بتایا کہ ‘واضح طور پر اس دوران علاقے میں زیادہ طیارے موجود ہوں گے۔ انڈین فضائیہ کی ٹرانسپوٹ یونٹ خاص طور پر سرد موسم میں مدد کرے گی۔ لیہ اور تھوئس ہمارے اہم فضائی اڈے ہیں، جہاں سے ہم فوج کی مدد کریں گے۔ ہارے پاس سی 17، آئی ایل 76، سی 130 جے، اے این 32 جیسی زبردست قوت والے طیارے ہیں۔ ہمارے پاس ایم آئی 17 وی 5، چیتک اور چیتا جیسے ہیلی کاپٹر بھی ہیں جو آئی ایف اور آرمی ایوی ایشن دونوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔‘

فنڈنگ کیسے ہو گی؟

ایک بے حد ضروری بات یہ ہے کہ اس دوران خرچ بھی بڑھے گا۔ لیکن پندرہ مئی کو ایک ویبینار میں خطاب کے دوران انڈین فوج کے سربراہ جنرل ایم ایم نرونے نے کہا تھا کہ ‘خرچوں میں کمی کی جائے گی۔ اس پورے برس ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم کس طرح اخراجات میں کٹوتی کر سکتے ہیں۔ ہم نے کچھ شعبوں کی شناخت کی ہے جہاں اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔’

حالانکہ فوجی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ایل اے سی پر تب سے اب تک حالات میں تیزی سے تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ زیادہ تر فوجی اہلکار اس بات پر متفق ہے کہ انڈین فوج کے لیے طے شدہ بجٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔

حکومت کے اس بارے میں ارادوں کا اس وقت اندازہ ہوا جب وزارت دفاع نے بارڈر روڈز آرگنائزیشن کے سالانہ بجٹ میں بڑا اضافہ کر دیا تھا۔ بی آر او کا اس وقت سرحدی علاقوں میں سڑکوں کے تعمیراتی کام پر زور ہے۔

انڈیا ایک اور بات پر زور دے رہا ہے۔ انڈین وزارت دفاع نے غیر ملکی ٹھیکہ داروں کے مقابلے انڈین ٹھیکہ داروں کو ٹھیکہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ایسا کرنے سے کم وقت میں ضروری اشیاء فوجیوں تک پہنچنے کی امید ہے۔

مارچ میں وزارت دفاع نے پارلیمان کو بتایا تھا کہ مقامی ٹھیکہ داروں کو 2015-16 میں 39 فیصد ٹھیکہ دیا گیا تھا جو کہ 2019-20 میں بڑھ کر 75 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp