چاندنی چوک ’فیس لفٹ‘ منصوبہ: شاہجہاں آباد کا قلب اور جہاں آرا کا خواب ‘جہاں قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے’


آگرہ کے قلعے میں دھوم ہے۔ نئے بادشاہ خرم کی تاج پوشی 14 فروری 1628 کو ہو رہی ہے۔ ارجمند آرا اس موقعے کی مناسبت سے تیاریوں میں مشغول ہیں لیکن روشن آرا تھک کر سو چکی ہیں۔

باقی بچے دارا، شجاع اور اورنگزیب تیر اندازی کی مشق کے لیے نکل گئے ہیں۔ جہاں آرا کو کوئی کام نہیں اور وہ محل کے کونے میں موجود مسجد کا رخ کرتی ہیں جس میں عام طور پر حرم کی بیگمات ہی جاتی ہیں۔

مسجد میں جہاں آرا کو ایک خاتون نماز میں مشغول نظر آتی ہیں۔ ان کی عبادت میں مخل ہوئے بغیر وہ محل کے بارے میں سوچ رہی ہیں جہاں چھ سال پہلے وہ رہا کرتی تھیں اور پھر چھ سال تک دکن میں مانڈو، برہان پور، ادے پور اور ناسک میں جلاوطنی کی زندگی گزار کر محض ایک ہفتے قبل ہی واپس آئی تھیں۔

خاتون سلام پھیرتی ہیں اور اس بھری دو پہر میں جہاں آرا کو مسجد میں تنہا دیکھ کر حیرت کا اظہار کرتی ہیں۔ جہاں آرا انھیں پہچان لیتی ہیں۔ وہ فتح پوری بیگم ہیں، جہاں آرا کی سوتیلی ماں۔ دونوں باتیں کرنے لگتی ہیں۔ فتح پوری بیگم سنسان صحن پر نظر ڈال کر کہتی ہیں ‘ایک دن میں بھی ایک مسجد بنواؤں گی۔ اب خرم شہنشاہ بن چکا ہے تو شاید وہ مجھے اس کے لیے پیسہ دے دے۔’

یہ بھی پڑھیے

مغل ملکہ جو حقوق نسواں کی علمبردار کہلائيں

بادشاہ اورنگزیب اور ان کے بارے میں پھیلی ’غلط فہمیاں‘

جہاں آرا خواب آگیں انداز میں کہتی ہے کہ ‘میں بھی ایک مسجد کا ڈیزائن تیار کروں گی جس کے گنبد اونچے نیچے لہردار پیٹرن میں سیاہ اور سفید سنگ مرمر کے ہوں گے۔’

یہ کوئی معمولی خواتین نہیں بلکہ اگر ایک ہندوستان کے نئے تاجدار مغل بادشاہ شہاب الدین محمد شاہجہاں کی بڑی اہلیہ فتح پوری بیگم ہیں تو دوسری سب سے چھوٹی بیگم ارجمند بیگم یعنی ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہونے والی شاہجہاں کی بڑی بیٹی جہاں آرا ہیں جنھوں نے نہ صرف آگرے کی جامع مسجد کی تعمیر کروائی بلکہ دلی کے چاندنی چوک کی تعمیر بھی ان کے ہی خوابوں کی تعبیر ہے۔

چاندنی چوک

وہی چاندنی چوک جو انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں واقع پرانی دلی کا دل ہے اور جو شاہجہاں بادشاہ کے بسائے ہوئے شہر شاہجہاں آباد کا قلب ہوا کرتا تھا۔ چاندنی چوک گذشتہ 370 سال انڈیا کے تاریخی اتار چڑھاؤ کا گواہ رہا ہے۔

اب حکومت دہلی نے چاندنی چوک کی پرانی رونق بحال کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ فتح پوری مسجد سے لے کر لال قلعے کے میدان تک تقریبا سوا کلومیٹر میں پھیلا یہ بازار ان دنوں تزئین و آرائش سے گزر رہا ہے۔

حکومت کے مطابق اسے ‘کاروں سے پاک’ علاقہ بنایا جا رہا ہے اور اس کی پرانی طرز آرائش کو واپس لانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ یہ علاقہ نومبر تک عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

دراصل چاندنی چوک کے فیس لفٹ کا خیال پہلے پہل سنہ 2004 میں آیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2008 میں دہلی کی وزیر اعلی شیلا دیکشت نے جو خود ایک خاتون تھیں، شاہجہاں آباد ری ڈیولپمنٹ کارپوریشن قائم کیا لیکن ان پر سنہ 2018 تک اس وقت تک عمل نہیں ہو پایا۔

ان دنوں کورونا کی وبا کی وجہ سے سڑکیں خالی ہیں اور چاندنی چوک اجڑی ہوئی ہے۔ کیا اس کی پرانی رونق بحال ہو سکتی ہے۔ آئیے جہاں آرا کے فن تعمیر سے لگاؤ اور چاندنی چوک کے حوالے سے جواب تلاش کرتے ہیں۔

جب شاہجہاں ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انھیں اپنے خوابوں کی تکمیل اور اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لیے ایک نئے شہر اور نئے دارالحکومت کی ضرورت محسوس ہوئی چنانچہ انھوں نے قدیمی تاریخی شہر دلی کے نواح میں ایک جگہ منتخب کی اور ایک قلعے کے ساتھ ایک فصیل بند شہر کا نقشہ کھینچا۔ سنہ 1639 میں اس پر کام شروع ہوا جو کہ دس سال کی محنت اور بے دریغ پیسے کے خرچ کے بعد سنہ 1649 میں تیار ہو کر سامنے آیا۔

دہلی کا لال قلع

دہلی کا لال قلع جہاں سے آج بھی ہر سال یوم آزادی کے موقعے پر انڈیا کا پرچم لہرایا جاتا ہے

جہاں تک چاندنی چوک بازار کا معاملہ ہے تو یہ اس کے ایک سال بعد یعنی سنہ 1650 میں تیار ہوا۔ جب بادشاہ نے اس بازار کی سیر کی تو انھوں نے اپنی بیٹی اور پادشاہ بیگم جہاں آرا کے ذوق کی تعریف کی۔

شہزادی نے آگرے کے بازار دیکھے تھے اور اپنی والدہ کے ساتھ وہاں خریداری کی تھی لیکن آگرے کی تنگ گلیاں والد شاہجہاں کی طرح انھیں بھی لبھا نہ سکیں چنانچہ انھوں نے جس بازار کا خاکہ تیار کیا اس میں دو رویہ جھولتے پیڑ، سڑک کے بیچو بیچ رواں نہر اور دونوں کنارے وسیع و عریض دور تک پھیلی سیدھی سڑک اپنے آپ میں شاہانہ جلال اور عظمت کا نمونہ معلوم ہوتی تھی۔

شہزادی جہاں آرا (1614-1681) کی والدہ ممتاز بيگم کے انتقال کے بعد 17 سال کے کمسن کندھوں پر مغل حرم کا بوجھ آن پڑا لیکن انھوں نے اسے جس خوش اسلوبی سے نبھایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

شاہجہاں اور جہاں آرا کی فن تعمیر میں دلچسپی

جہاں آرا نے 12 سال کی عمر ایک ڈائری لکھنی شروع کی تھی۔ اس ڈائری میں فن تعمیر کے متعلق اچھا خاصا ذکر اس وقت آتا ہے جب شاہجہاں بیمار ہو کر برہان پور لوٹتے ہیں۔

ایک بار جمعے کی نماز ادا کرنے کے لیے وہ سب وہاں کی جامع مسجد جاتے ہیں تو شاہجہاں دروازے پر ٹھٹھک جاتے ہیں پھر نماز کے بعد مسجد کا معائنہ کرتے ہیں اور امام صاحب سے ملاقات کر کے پوچھتے ہیں کہ ‘آخری بار اس کی مرمت کب ہوئی تھی اور کیا وہ انھیں اس کی مرمت کی اجازت دیں گے۔ امام صاحب اظہار تشکر سے دوہرے ہو جاتے ہیں۔ بار بار کورنش بجا لاتے ہیں۔’

جہاں آرا لکھتی ہیں: ‘والد اس وقت سب سے زیادہ خوش رہتے ہیں جب وہ کچھ تعمیر کر رہے ہیں ہوں۔ انھیں تعمیرات کے نقشوں کے پلندوں کے ساتھ بیٹھنے اور معماروں سے بات چیت کرنے سے زیادہ کچھ پسند نہیں جو کہ سنگ مرمر کو تراشتے ہیں، ان پر نقش و نگار بناتے ہیں اور ان کے رنگ و روغن کو طے کرتے ہیں۔ آگرے کے محل میں گھوم گھوم کر یہ منصوبے بناتے تھے کہ وہ کس قسم کی تعمیرات کریں گے اور کیسے بدلاؤ لائیں گے۔

‘آجکل وہ روزانہ سنگ تراش اور ماہر تعمیرات کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور گنبد و مینار اور ستون کی آرائش اور ان کے پیٹرن پر غور و فکر کرتے ہیں۔ وہ مسجد کے گنبد کو سنگ مرر سے ڈھکنا چاہتے ہیں اور میناروں میں سفید و سیاہ سنگ مرمر کا پیٹرن چاہتے ہیں۔ انھیں اپنی عمارتوں میں سنگ مرمر کا استعمال بہت پسند ہے۔ وہ بعض اوقات خود بھی ڈیزائن کرتے ہیں۔ کل شام وہ اپنی میز پر بیٹھ کر کھلتے ہوئے سوسن (للی)، اور اڑتے ہوئے بادل کی درائنگ کر رہے تھے جو وہ ستونوں پر ابھارنا چاہتے تھے۔ روشن آرا اور ہم انھیں دیکھ رہے تھے۔

روشن آرا نے پوچھا، ‘ابو آپ نے یہ کہاں سے سیکھا؟’ ابو نے جواب دیا جب ہم بچے تھے تو مصورخانے میں مصوروں کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ انھوں نے مجھے تصویر بنانی سکھائی۔’ میں نے کہا کہ ایک بار میں اور دارا، دادا جہانگیر کے ساتھ وہاں گئے تھے، انھیں پینٹنگ بہت پسند تھی، ہے ناں؟ ابو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ‘ہاں، اور میں وہاں اپنے دادا اکبر کے ساتھ جاتا تھا۔ وہ بھی پینٹنگ پسند کرتے تھے لیکن وہ عمارتیں بنوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ اور میں ان کے جیسا ہوں۔۔۔ انھوں نے فتح پور سیکری میں اتنے خوبصورت محلات تعمیر کرائے۔ انھوں نے مجھے سکھایا کہ کس طرح ایک شہر کو آباد کرنے کا ڈیزائن تیار کیا جاتا ہے، محلات بنائے جاتے ہیں اور بلند و بالا دروازے تعمیر کیے جاتے ہیں۔’

ڈائری کی سرورق کی تصویر

ڈائری کی سرورق کی تصویر

چاندنی چوک کا خاکہ

جہاں آرا کی ڈائری کے یہ اوراق بتاتے ہیں کہ کس طرح شاہجہاں نے بادشاہ بننے کے بعد ‘عالم میں انتخاب’ ایک شہر دلی کی بنیاد رکھی، کتنے محلات تعمیر کرائے اور کتنے دروازے بنوائے جس کے نشانات آج تک باقی اور مرجع خلائق ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایم وسیم راجہ نے بتایا کہ کس طرح جہاں آرا نے آگے چل کر شاہجہاں کے شہر دلی میں اپنے خواب کو پورا کيا۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت دہلی یعنی شاہجہاں آباد میں تقریبا سولہ، سترہ تعمیری پروجیکٹ جاری تھے جنھیں خواتین کی سرپرستی حاصل تھی اور ان میں سے نصف درجن جہاں آرا کے زیر نگرانی تعمیر ہو رہے تھے جن میں چاندنی چوک، محل کے ساتھ والا باغ اور بیگم کی سرائے اہمیت کی حامل ہیں۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے تاریخ اور ثقافتی شعبے میں اسسٹینٹ پروفیسر ڈاکر رحما جاوید راشد نے جہاں آر، ان کی علم دوستی، صوفیوں کے ساتھ عقیدت، ان کی فیاضی، دربار میں ان کی حکمت عملی اور باغ و تعمیرات سے لگاؤ پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘جہاں جہاں مغل سلاطین اپنی چھاپ چھوڑ رہے تھے وہاں جہاں آرا بھی اپنی چھاپ چھوڑ رہی تھیں۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘اگر چہ ہم آج بھی اس (قدیم دلی) شہر کو شاہجہاں کے ہی نام سے جانتے ہیں لیکن اس کی جو شہ رگ یا دل ہے وہ چاندنی چوک ہے کیونکہ جتنی بھی اہم مالی سرگرمیاں ہیں یا جتنی بھی ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں ہیں سب کا مرکز چاندنی چوک رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ عمارتیں پیغام دیتی ہیں اور تعمیرات سلطنت، سلاطین اور شخصیات کا پرتو ہوتی ہیں۔ مغل تعمیرات میں خواتین کا ذکر اس طرح نہیں ہوا ہے جس کی وہ حقدار تھیں لیکن آگرے کی جامع مسجد میں صدر دروازے پر لگے پشتاق اور اس میں جہاں آرا کے ذکر سے ان کے بلند مقام کا پتہ چلتا ہے۔

چاندنی چوک کے بارے میں ڈاکٹر رحما نے کہا: ‘سب جانتے ہیں کہ اس کا نام چاندنی چوک کیوں پڑا۔ اس کے مرکز میں ایک تالاب تھا جس میں جمنا سے نکالی جانے والی نہر ‘نہر بہشت’ سے پانی آتا تھا۔ رات کو جب چاند کی روشنی اس پانی میں پڑتی تو روشنی چاروں طرف پھیلتی تھی۔

ایک دوسرے مورخ کا کہنا ہے کہ چاندنی چوک میں ایک دوسری نہر کا پانی دوڑتا تھا اور وہ نہر بھی محل سے چاندنی چوک سے گزرتی ہوئی فتح پوری مسجد ہوتے ہوئے نکل جاتی تھی۔

ڈاکٹر رحما چاندنی چوک کی تعمیر کے بارے میں کہتی ہیں کہ ‘جہاں آرا نے محسوس کیا کہ شاہجہاں آباد میں ایک بازار ہونا چاہیے اور اس کے لیے انھوں نے اپنا پیسہ لگا کر اس بازار کی تعمیر کرائی جہاں سڑک کے دونوں کنارے دکانیں تھیں۔ 18ویں صدی کے جو فارسی ماخذ ہیں ان میں ہمیں دہلی کی ساری مالی اور ثقافتی سرگرمیاں چاندنی چوک اور اس کے گردو نواح میں ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

دکن کے سیاح درگاہ قلی خان سالار جنگ نے اپنی کتاب ‘مرقع دہلی’ میں چاندنی چوک کا ذکر کیا ہے وہ دہلی آتے رہتے تھے۔ ان کی فارسی تصنیف کو دہلی یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر نورالحسن انصاری نے اردو میں ترجمہ کیا اور یونیورسٹی سے ہی اس کی اشاعت ہوئی۔

تاریخی کتب میں چاندنی چوک کا ذکر

چاندنی چوک کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘چاندنی چوک دوسرے چوکوں سے زیادہ رنگا رنگ اور دیگر بازاروں سے کہیں زیادہ آراستہ ہے۔ اہل ذوق یہاں سیر کرتے ہیں اور اہل تفریح نظارہ کرتے ہیں۔ راستے میں ہر طرح کے نفیس کپڑے ملتے ہیں اور دنیا جہان کی چیزیں فروخت کے لیے موجود ہیں۔ ہر گوشے میں کسی نہ کسی نادر چیز پر نظر پڑ جاتی ہے، ہر کونے میں کوئی نفیس شئے من کو لبھاتی ہے۔ اس بازار کا راستہ نیک بختوں کی پیشانی کی طرح کشادہ ہے اور آغوش رحمت کی طرح بازہے۔

‘نہر میں جنت کا چشمہ بہتا رہتا ہے۔ ہر دکان میں لعل و گہر کا خزانہ ہے اور ہر کارخانے میں موتیوں کا ڈھیر ہے۔۔۔ عین چوک میں جو قہوہ خانے ہیں وہاں ہر روز شعرا جمع ہو کر داد سخنوری دیتے ہیں۔ بڑے بڑے امرا بھی اپنے منصب اور مرتبے کے باوجود چاندنی چوک دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں ہر روز ہی اتنے نوادرات اور عجیب و غریب اشیا نظر آتی ہیں کہ اگر قارون کا خزانہ بھی ہاتھ آ جائے تو ناکافی ہوگا۔’

ڈاکٹر رحما کہتی ہیں کہ اگر آپ ایک لاکھ روپے لے کر نکلے ہوں تو چند ہی گھنٹوں میں اسے چاندنی چوک مین خرچ کر سکتے ہیں پوری دنیا کا بہترین سامان وہاں فروخت ہوتا تھا۔

درگاہ قلی خان لکھتے ہیں: ‘ایک نوجوان امیر زادے کو اس چوک کی سیر کی خواہش ہوئی۔ اس کی مان نے اپنی بیکسی کی معذرت کے بعد باپ کے ترکے سے ایک لاکھ روپیہ دیا اور بولی اگر چہ اس رقم سے چاندنی چوک کی نفیس و نادر چیزیں نہیں خریدی جا سکتیں لیکن چونکہ تمہار جی وہاں جانے کو چاہتا ہے اس لیے اس حقیر رقم سے اپنی پسند کی بعض ضروری چیزیں خرید لینا۔’

ڈاکٹر رحما بتاتی ہیں کہ جہان آرا نے جو سرائے تعمیر کرائی تھی اس کا مقصد جہاں بڑے سوداگروں کے ٹھہرنے کا تھا وہیں وہ اسلامی نقطۂ نظر سے مسافر کا مستقر بھی تھا۔

اسی طرح عصر حاضر کے معروف افسانہ نگار علی اکبر ناطق نے ‘مرقع دہلی’ میں جہاں قلعے اور نہر بہشت کا ذکر کیا ہے وہیں چاندنی چوک کا ایک خاکہ بھی کھینچا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت کیا ہوگی اس سے قطع نظر چاندنی چوک کی منظر کشی سے لطف سے خالی نہیں۔

وہ لکھتے ہیں: ‘جب لال قلعہ بن چکا تو نہر کو آگے چاندنی چوک بازار میں جاری کر دیا۔ یہ نہر جمنا سے قلعے کی بیرونی دیوار کے ساتھ ساتھ گھسیٹ کر شمال کی طرف سے شہر میں داخل کی گئی تھی۔ اور پاٹ سے لے کر کناروں تک سراسر سرخ پتھروں سے بنی تھی۔ حقیقت میں شاہجہاں آباد کا وجود اسی نہر سے گندھ کر تیار ہوا تھا۔۔۔ یہ وہی چاندنی چوک کا بازار ہے جس کو شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا نے بنوایا۔ کیفیت اس بازار کی یہ ہے کہ قلعے کے سامنے 480 گز کا میدان چھوڑ کر شہر کے حدود شروع ہونے سے پہلے اسی گز کے قطر کا ایک چوک ہے جہاں بے شمار شہ توتوں کے تکیے ہری ہری چھاؤں کے ساتھ میٹی اور ملبی گوہلوں کو بکھیرتے یہیں، جھنڈ کے جھنڈ لگے پیپلوں کی چھاؤں میں شہر کے امرا کی سواریاں جھولتیں، شرفا کی پالکیاں اٹھتیں، عوام الناس کی اونٹ گاڑیاں چلتیں اور پیدل چنلے والوں کی چہل پہل رہتی۔’

اسی طرح نئے دارالحکومت میں قلعے اور ملکہ کے باغ کے درمیان جہاں آرا نے ایک بہت بڑی سراے تعمیر کرائی تھی جس کے نشان اب باقی نہیں لیکن ان کے ذکر سے لگتا کہ یہ کسی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں رہا ہوگا اور یہ بھی چاندنی چوک سے متصل تھی۔

ضیا الدین برنی اطالوی سیاح منوچی کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ‘اس شہزادی نے اپنی یادگار قائم کرنے کے ارادے سے شہر اور قلعے کے درمیان میدان میں ایک سرائے تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ یہ سارے ہندوستان میں نہایت خوبصورت سرائے ہے۔ اوپر کے کمرے نفیس، نقش و نگار سے آراستہ کیے گئے ہیں اور اس میں خوبصورت باغ بھی ہے جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں۔ اس سرائے میں بڑے بڑے مغل اور ایرانی سوداگروں کے علاوہ کوئی قیام نہیں کرتا۔ اعلی حضرت عمارت کا معائینہ کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے جو ان کی پیاری بیگم کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ اور انھوں نے شہزادی کی فیاضی اور مذہبی جوش کی بہت تعریف کی۔’

ڈاکٹر ایم وسیم راجہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ‘یہ کارواں سرائے چاندنی چوک کی سڑک کے مشرق میں واقع تھی۔ انھوں نے ہربرٹ چارلز فیشاوے کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے سنہ 1909 میں اس سرائے کا ذکر کیا تھا اور لکھا تھا کہ چاندنی چوک کی طرف جاتے ہوئے کئی دکانوں کو پار کرنے کے بعد شاہزادی جہاں آرا بیگم کی کارواں سرائے ہے۔’

انھوں نے اپنے زمانے کے معروف مورخ برنیئر کے حوالے سے بتایا کہ انھوں نے اس سرائے کو دہلی کی بہرتین عمارت قرار دیا اور اس کا موازنہ فرانس کے پیلس رایل سے کیا جو کہ اسی زمانے میں تعمیر ہوا تھا اور آج بھی فرانس کی بہترین تعمیر شمار ہوتی ہے۔

ڈاکٹر وسیم راجہ نے بتایا کہ بعد میں ‘وہ سرائے ٹاؤن ہال میں تبدیل کر دی گئی اور اس کا چوراہا گھنٹہ گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔’

چاندنی چوک نے اس سے قبل نادر شاہ کا حملہ اور جلوہ بھی دیکھا شاہجہاں آباد کی بنیاد رکھنے کے عین سو سال بعد یعنی سنہ 1739 میں نادر شاہ دہلی میں محمد شاہ رنگیلا کے دور میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے اور چاندنی چوک کے پاس ایک تراہے پر بیٹھ کر قتل کا عام کا حکم جاری کیا تھا جو کئی دنوں تک جاری رہا۔

اسی چاندنی چوک پر بادشاہوں کی سواریاں اور جلوس گزرتے۔ ڈاکٹر رحما کہتی ہیں کہ دراصل شاہجہاں آباد کا قیام شاہجہاں کے خوابوں کی تعبیر تھی جو آگرے کی تنگ گلیوں میں پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ بڑے شان و شکوہ والے جلوس چاہتے تھے اور چاندنی چوک سے لے کر دہلی کے لال قلعے تک اس کا زمانے تک اہتمام ہوتا رہا یہاں تک کہ چاندنی چوک غدر میں اجڑ گیا۔

چنانچہ اردو کے معروف شاعر اور سنہ 1857 کی جنگ کے چشم دید گواہ مرزا اسداللہ خاں غالب نے دلی کی بربادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ‘بھائی کیا پوچھتے ہو کیا لکھوں دلی کی ہستی منحصر کئی ہنگاموں پر تھی۔ لال قلعہ، چاندنی چوک، ہر روز مجمع جامع مسجد کا، ہر ہفتے سیر جمنا کے پل کی، ہر سال میلہ پھولوں والوں کا۔ یہ پانچوں باتیں اب نہیں پھر، کہو دلی کہاں؟’

غدر سے ذرا قبل سرسید احمد خاں نے آثارالصنادید میں چاندنی چوک کا ذکر اس طرح کیا ہے: ‘لال قلعہ دہلی کے لاہوری دروازے سے آگے جو کشادہ اور وسیع بازار تھا اور جس کا نام کسی زمانے میں لاہوری بازار تھا اسے جہاں آرا نے ہی بنوایا تھا۔ قلعے کے لاہوری دروازے سے 480 گز پر ایک چوک ہے 80 گز کا مربع۔ اس چوک میں کوتوالی چبوترہ ہے۔ اس چوک سے 400 گز آگے ایک اور چوک ہے ہشت پہلی سے سوگز اس چوک کو چاندنی چوک کہتے ہیں۔ اس کے آگے 460 گز لمبا اور بازار ہے اور سراسر اس میں نہر بہتی ہے۔ اس بازار کے سرے پر سنہری مسجد ہے۔’

غدر میں اجڑنے کے بعد دہلی کی بحالی رفتہ رفتہ پھر سے ہوئی کیونکہ یہ نگر کئی بار اجڑا اور بسا۔ سنہ 1911 میں جب انگریزون نے کلکتہ کے بجائے دہلی کو دارالحکومت بنایا تو پھر دہلی میں نئی دہلی کا قیام شروع ہو گیا لیکن فصیل بند دہلی تمام سرگرمیں کا حصہ تھی۔

اس سے قبل سنہ 1908 میں ہی چاندنی چوک میں نہر کی جگہ ٹرام چلنے لگی۔ یہ اپنے عروج پر سنہ 1921 میں تھی جب 15 کلومیٹر کے فاصلے میں کھلی ٹرام چلتی تھی۔ جو جامع مسجد، چاندنی چوک، چاوری بازار، کٹرا، لال کنواں، اور فتح پوری کو سبزی منڈی، صدر بازار، پہاڑ گنج اور اجمیری گیٹ سے جوڑتی تھی۔ سنہ 1963 میں دہلی سے ٹرام بھی رخصت ہو گئی لیکن چاندنی چوک دہلی کا مرکز بنا رہا۔

چاندنی چوک کی سڑک جو لاہوری گیٹ سے فتح پوری تک جاتی تھی اس کے درمیان سے بہت سے سڑکیں اور بازار نکلتے تھے، جیسے آج جہاں گرودوارہ سیس گنج صاحب ہے کبھی وہاں اردو بازار ہوا کرتا تھا۔ جوہری بازا کوتوالی چوک سے چاندنی چوک کے درمیان پھیلا ہوا تھا۔ اب وہان نہ ٹاؤن ہال ہے اور نہ ہی گھنٹا گھر۔

اسی طرح چاندنی چوک سے فتح پوری مسجد تک فتح پوری بازار پھیلا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے آس پاس کوچے، کٹرے اور حویلیاں تھیں اور ان میں سے بعض اب بھی ہیں خواہ کتنے ہی خستہ حال کیوں نہ ہوں۔ چاندنی چوک سے ایک راستہ غالب کی حویلی تک بھی جاتا ہے۔ جبکہ ایک راستہ ہکسر کی اس حویلی کو جاتا ہے جہاں انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی آٹھ فروری سنہ 1916 کو کملا نہرو سے شادی ہوئی تھی یعنی نہرو کی بارات چاندنی چوک سے گزری تھی۔

چاندنی چوک آج بھی دہلی کا سب سے پرشور بازار ہے اور شادی کی خریداری کے لیے لوگ آج بھی وہیں جانا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں جتنی انواع و اقسام موجود ہے وہ کہیں اور نہیں۔

انڈیا کے آثار قدیمہ میں اسسٹنٹ آرکایوسٹ سلمیٰ کہتی ہیں کہ زمانے کی گرد کے باوجود چاندنی چوک کی چمک دمک اب بھی قائم ہے۔ جس طرح پہلے وہاں گھڑی بھر میں ایک لاکھ روپے خرچ کرنا انتہائی آسان تھا اسی طرح آج بھی چیزیں اس راستے سے گزرنے والوں کو لبھاتی ہیں۔

چاندنی چوک کے فیس لفٹ کے ساتھ دہلی حکومت نے ایک بار وہاں ٹرام چلانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جو ایک قسم کا فیوژن ہی ہو سکتا ہے لیکن اب جس طرح اس کا نقشہ تیار کیا جا رہا ہے وہاں ٹرام کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔

حکومت دہلی نے چاندنی چوک کی پرانی شان و شوکت کو بحال کرنے 90 کروڑ کا ایک بڑا منصوبہ بنایا ہے اور ایک بلو پرنٹ تیار کیا ہے۔ اسے سنہ 2020 کی جنوری میں ہی تیار ہونا تھا لیکن تاخیر ہوتی گئی یہاں تک کورونا کی وبا نے اسے مزید تاخیر کا شکار کیا۔

اسسٹنٹ آرکایوسٹ سلمی سے جب یہ سوال پوچھا کہ کیا پرانا چاندنی چوک واپس آسکتا ہے تو انھوں نے کہا یہ ممکن نہیں ہے لیکن حکومت کی کوشش قابل ستائش ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘مغلوں کی تعمیرات میں پہلے بھی مرمت کی گئی ہے لیکن جب مرمت بھی ٹھیک ڈھنگ سے نہیں ہو سکتی تو پھر تاریخ کے اوراق میں گم کسی چیز کو پھر سے قائم کرنا بعید از قیاس ہے۔’

انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘تاج محل ایسی عمارت ہے جس کا سب سے زیادہ خیال کیا جاتا ہے زمین پر جو سنگ مرمر بدلے گئے ہیں وہ بھی پرانے سنگ مرمر کا بدل نہیں کیونکہ پرانے سنگ مرمر پر گرمیوں میں بھی ننگے پاؤں چلیں تو پاؤں نہیں جلتے ہیں جبکہ جتنے سنگ مرمر بعد میں لگے ہیں ان کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp