بیروت بدیل باغ جناں


امین ابو یحییٰ لبنان کے میڈیا کا جانا پہچانا چہرہ ہے۔ چند سال قبل ان سے فیس بک پر رابطہ ہوا جو اب تک برقرار ہے۔ وہ العربیہ اور سی این بی سی کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ آج کل ایشیا ٹی وی میں شو کرتے ہیں اور متعدد دوسرے ٹی وی چینلز پر مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال پر بطور تجزیہ کار نمودار ہوتے ہیں۔ کئی بار لبنان کے معاملات پر ان سے مختصر سی گفتگو ہو جاتی ہے۔ میں نے انہیں لبنان کا لینڈ سکیپ دکھانے کی فرمائش کی تو انہوں نے کچھ زیتون کے باغات، گندم کے کھیتوں اور اس ساحلی علاقے کی تصاویر دکھائیں جو چند روز پہلے طاقتور دھماکے کی زد میں آ کر کھنڈر بن گئے ہیں۔

امین ابو یحییٰ سے پوچھا لبنان کے لوگ اس صدمے کو کیسے برداشت کر گئے۔ جواب ملا ”ہمارے بدن میں ہر چیز ہے، سوائے روح کے“ ۔ امین نے دھماکے کو قیامت خیز قرار دیا۔ امین ابو یحییٰ کی وال پر کئی ویڈیوز ہیں جن میں سے کچھ میں وہ خود لوگوں کی مدد کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک چھ سات سال کی بچی پل منہدم ہونے کے بعد ملبے میں دھنس گئی۔ دوسرے روز امین ابو یحییٰ نے اس علاقے کی رپورٹنگ کے دوران محسوس کیا کہ وہاں کوئی دفن ہے۔

انہوں نے ملبے کو ہٹایا تو بچی سانس لے رہی تھی۔ دوسری ویڈیو میں شہری دفاع کے ایک کارکن کو لوگ ملبے سے نکال کر ہسپتال لے جا رہے ہیں۔ ایسی ویڈیوز آ رہی ہیں جن میں لبنان کے مرد و خواتین گلیوں میں بکھرے شیشے اور کنکریٹ کے ٹکڑوں کو خود صاف کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو لبنان سے واقفیت نہیں وہ اس زندہ دل شہر پر اس دھماکے سے مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ ایسے لوگ چاہیں تو فیض صاحب کی نظم سے تھوڑا تعارف لے سکتے ہیں ؛ بیروت نگار بزم جہاں بیروت بدیل باغ جناں بچوں کی ہنستی آنکھوں کے جو آئنے چکنا چور ہوئے اب ان کے ستاروں کی لو سے اس شہر کی راتیں روشن ہیں اور رخشاں ہے ارض لبنان ٭٭٭ یہ شہر ازل سے قائم ہے یہ شہر ابد تک دائم ہے بیروت نگار بزم جہاں بیروت بدیل باغ جناں بیروت 5 ہزار سال سے زیادہ قدیم شہر ہے، آج بھی اس کے رہائشی علاقوں میں کئی آثار مل جاتے ہیں۔

یہاں ہزاروں سال پہلے کے انسانی استعمال میں رہنے والے کئی اوزار دریافت ہوئے ہیں۔ لبنان ایسا عرب ملک ہے جہاں کی جمہوریت نے سماج کی تقسیم کو حقیقت سمجھ کر آئینی طور پر یہ مسئلہ حل کیا ہے۔ لبنان کا وزیراعظم ہمیشہ سنی العقیدہ مسلمان ہوگا، پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ مسلمان کو بنایا جاتا ہے جبکہ صدر کا عہدہ قبطی مسیحی شخصیت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس انتظام کے ساتھ شدید قوم پرستی ان گروہوں کا مشترکہ ورثہ ہے۔

کوئی مسلمان جتنا عرب اور لبنانی ہونے پر فخر کرتا ہے وہاں کی مسیحی آبادی بھی اسی شدت سے اپنے عرب اور لبنانی ہونے کا اظہار کرتی ہے۔ لبنان میں جہاں حزب اللہ کے ارکان نے اسرائیل کے خلاف دفاع کو مضبوط کیا ہے وہاں مسیحی آبادی نے لبنانیوں کو تعلیم دینے میں شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ 4 اگست کو بیروت شہر کی بندرگاہ کے قریب دو ہولناک دھماکے ہوئے۔ دھماکوں کی وجہ 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے کو لگنے والی آگ بتائی جاتی ہے۔

ان دھماکوں سے 158 افراد ہلاک جبکہ 6 ہزار زخمی ہوئے۔ دس سے پندرہ ارب ڈالر کی املاک تباہ ہوئیں۔ امونیم نائٹریٹ کا یہ ذخیرہ لبنانی حکام نے چھ سال قبل ایک لاوارث بحری جہاز سے برآمد کیا اور بندرگاہ کے گودام میں بنا کسی حفاظتی انتظام کے یہ دھماکہ خیز مواد پڑا رہا۔ دھماکوں کی شدت 3.3 درجے کے زلزلے کے برابر تھے۔ ان کے جھٹکے ترکی، شام، اسرائیل اور یورپ کے بعض علاقوں تک محسوس کیے گئے۔ لبنان ان دنوں بدترین معاشی بحران سے لڑ رہا ہے۔

بیرونی قرضوں نے ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ چند ماہ قبل لبنان میں مظاہرے شروع ہوئے تو امین ابو یحییٰ نے کئی تصاویر دکھائیں۔ غربت کی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ کورونا کے باعث اکثر ہسپتال بھرے ہوئے ہیں، ان ہسپتالوں کے پاس ادویات خریدنے کے لیے رقم نہیں جس بندرگاہ پر تباہی اتری 4 گودیاں اور 12 گودام ہیں۔ ایک بڑا کنٹینر ٹرمینل موجود تھا۔ دھماکے والی جگہ کے پاس ہی مشکل صورت حال میں کام آنے والے غلہ گودام تھے۔

تحقیقات سے معلوم ہوا کہ جس جہاز سے امونیم نائٹریٹ برآمد ہوا تھا وہ مالدیپ کا تھا اور ایک روسی شہری کی ملکیت۔ کھاد سے بھرا یہ جہاز باتومی، جارجیا، بیرا اور موزمبیق سے ہوتا ہوا لبنان کی سمندری حدود میں داخل ہوا تو ایک رپورٹ کے مطابق اس کا انجن فیل ہو گیا۔ ہنستے بستے شہر کی تباہی کے اسباب دریافت کرنے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ان ٹویٹس پر غور کیا جا رہا ہے جو دھماکوں سے محض ایک دن قبل جاری کیے گئے اور لبنان کو سخت کارروائی کی دھمکی جیسا لہجہ اختیار کیا گیا۔

یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ اتنے برس تک گودام میں دھماکہ خیز ذخیرہ ضروری حفاظتی بندوبست کے بنا کیوں چھوڑ دیا گیا۔ امریکہ اور اسرائیل ابھی دبے لفظوں میں حزب اللہ کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور امونیم نائٹریٹ حزب اللہ کے زیر استعمال ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ لبنان دو ہفتوں کے لیے سوگ میں ہے۔ اس واقعہ نے لبنان کی شہری زندگی سوگوار کردی ہے۔ لبنانی ان دھماکوں کو اپنا نائن الیون قرار دے رہے ہیں۔ لبنان کے قبطی عیسائی اور مسلمانوں کے دونوں مسالک اسرائیل کے شدید مخالف ہیں۔ اسرائیل کے جتنے عرب ہمسائے ہیں ان میں سے شاید سب سے زیادہ چوکس اسے لبنان سے رہنا پڑا ہے۔ تازہ اطلاع یہ ہے کہ لبنان کے عوام حکومت کے خلاف باہر نکل آئے ہیں۔ کئی سرکاری دفاتر پر انقلاب پسندوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ دھماکے کے بعد بھوک اور انتشار ایک نئے بحران کی خبر دے رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).