جرم کی سزا ہوتی ہے تو مجرم بنانے کی کیوں نہیں؟



عدالت سے دوبارہ اسے دارلامان بھیجا گیا تاکہ ضروری کاغذی کارروائی کرکے اسے باقاعدہ آزاد کیا جائے۔

بھیا کی گاڑی گھر کے دروازے پہ رکی تو چند لمحوں کے لیے بسمہ کو لگا جیسے وہ کئی صدیوں بعد اس گیٹ کو دیکھ رہی ہے۔ حالانکہ صرف 4 دن بعد وہ واپس آ گئی تھی۔ وہ گھر میں داخل ہوئی تو خلاف توقع امی اور دادی نے بڑھ کے اسے گلے لگا لیا۔ امی کافی دیر اسے گلے سے لگائے روتی رہیں۔ دادی مسلسل باسط کو دہائیاں دے رہی تھیں جس نے ان کی بچی کو ایسے گھر سے نکال دیا تھا۔ بسمہ رونا چاہتی تھی مگر اس کے آنسو خشک تھے۔ اسے جس وقت ان کی پشت پناہی کی ضرورت تھی اس وقت سب نے اسے سسرال میں بنا کے رکھنے کے مشورے دیے۔ اب گلے سے لگا لگا کے رونے کا کیا فائدہ؟ بسمہ کو ان سب سے الجھن ہو رہی تھی۔ وہ خود کو چھڑا کر باتھ روم چلی گئی بہت دیر تک نہاتی رہی جیسے دارلامان کی ہر یاد بہا دینا چاہتی ہو۔

اگلے کچھ دن گھر کا ماحول تناؤ کا شکار رہا۔ امی اور دادی، ابو اور بھیا کو قصور وار ٹھہرا رہی تھیں کہ وقت پہ بسمہ کی مدد کردی جاتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ جب کہ بسمہ سب سے ہی بے زار تھی۔ باسط اور اس کا مسئلہ صرف چند روپوں کے دینے اور نہ دینے کا نہیں تھا۔ ایک ایسا شخص جو عورت کو صرف استعمال کی چیز سمجھتا ہو اسے پسند کرتے ہوئے گھر والوں نے کیا دیکھا؟ بسمہ کے اندر اتنا غصہ بھر گیا تھا کہ وہ اپنی عادت کے برعکس سارا دن ٹھس بیٹھی رہتی۔ امی کو کام کرتے دیکھتی رہتی اور خود یا تو سوتی رہتی یا پھر بلا وجہ بستر پہ پڑی رہتی۔ جب کئی دن یونہی گزر گئے تو ایک اتوار کو جب دونوں بہنیں بھی آئی ہوئی تھیں تو امی نے اسے بٹھا کر بات کرنے کا سوچا۔

”آگے کا کیا سوچا ہے اب تم نے؟“
”کس حوالے سے“

اپنی زندگی کے حوالے سے، شوہر کے پاس کب جاؤ گی۔ کہو تو ہم اس سے بات کر کے معاملہ سلجھانے کی کوشش کریں؟ ”

بسمہ نے حیرت سے انہیں دیکھا
”امی آپ کے خیال میں واپس جانے کی یا معاملہ سلجھانے کی گنجائش ہے؟“

”بسمہ ہر معاملہ سلجھانے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اللہ نے عورت کی ذات میں بڑی نرمی اور لچک رکھی ہے۔ چلو اگر باسط سے غلطی ہو بھی گئی تو تم دل بڑا کرو اور معاف کردو۔ ابھی تمہیں زمانے کا نہیں پتا، یہ لوگ عورت کا جینا مشکل کر دیتے ہیں۔ عورت تو بس اپنے شوہر کے گھر میں ہی عزت سے رہتی ہے۔“

اسماء آپی نے اپنے حساب سے بہت مدلل بات کی اور بشرہ آپی نے زور و شور سے سر ہلا کر ان سے اتفاق کیا۔

”آپی جو میں دو دن میں دیکھ کر آئی ہوں وہ آپ چاروں خواتین کے زندگی بھر کے تجربے سے زیادہ ہے۔ لہٰذا آپ مجھے یہ تو نہ ہی بتائیں کہ مجھے کیا پتا ہے اور کیا نہیں۔ اور ریپ غلطی نہیں ہوتی جرم ہوتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ آپ لوگوں کا سارا دھیان اس دو منٹ کے واقعے پہ کیوں ہے جب اس نے مجھے گھر سے نکالا۔ وہاں اتنے عرصے میں نے جو کچھ سہا وہ کیوں نہیں دیکھتے آپ لوگ؟“ بسمہ کا یہ لہجہ سب کے لیے حیران کن تھا۔ بسمہ کو خود بھی پتا نہیں چلا تھا کہ کب نازیہ کو جواب دیتے دیتے اسے ہر بات کا جواب دینا آ گیا تھا۔

اگر یہ پہلے والی بسمہ ہوتی تو شاید امی اور دادی اسے اتنی بات کرنے پہ خوب سناتیں مگر سب سے انوکھے تو اس کے تیور تھے جس نے سب کو سانپ سونگھا دیا تھا۔

”آپ لوگ پلیز مجھے کچھ دن سکون لینے دیں۔ میں خود جو فیصلہ کروں گی بتا دوں گی۔“ بسمہ یہ کہہ کر ان سب کے بیچ سے اٹھ گئی۔

شاید ان چاروں کو ہی اندازہ نہیں تھا کہ وہ جاتی ہوئی بسمہ کو پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں جیسے کوئی خلائی مخلوق دیکھ لی ہو۔ بسمہ کے لہجے سے جو بغاوت جھلک رہی تھی وہ خوفناک تھی۔ کسی طوفان کا پیش خیمہ۔

اگلے دن ابو آفس سے آئے تو چہرے پہ غیر معمولی سنجیدگی تھی۔ امی کو اندازہ ہو ہی گیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ پوچھنے پہ پتا چلا کہ آج کوئی بندہ ملنے آیا تھا جو باسط کے گھر کے قریب ہی رہتا ہے۔ اس نے بتایا کہ کچھ دن پہلے باسط کو ایک ہفتے کے ریمانڈ پہ جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس پیشی میں نازیہ کی ہی طرف سے رافع کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جمع کروایا گیا اور اس پہ لگے چارج ختم کروائے گئے تھے۔ مگر باسط پہ تمام الزام برقرار تھے اور صورت حال سے اندازہ ہورہا تھا کہ فیصلہ باسط کے حق میں نہیں ہوگا۔ نازیہ نے ثبوت کے طور پہ رافع کا کوئی بیان بھی جمع کروایا تھا۔ جس میں باسط کے جرم کا تذکرہ بھی تھا اور یہ بھی پتا چلتا تھا کہ رافع نے خودکشی کی ہے۔ رافع کی موت کی خبر بسمہ کے لیے شدید دھچکہ تھی۔ اتنے عرصے میں اس نے یہی دیکھا تھا کہ اس گھر کا سب سے بے ضرر فرد رافع تھا۔

بسمہ جو کچھ دن سکون سے گزارنا چاہتی تھی۔ اس خبر کے بعد وہ ذہنی طور پہ خود کو بہت زیادہ تھکا ہوا محسوس کرنے لگی تھی۔ اچانک اسے عجیب و غریب خواب دکھائی دینے لگے۔ اسے کبھی اپنا آپ دوبارہ دارلامان میں نظر آتا۔ کبھی اسے گل بانو بارش میں کھڑی روتی دکھائی دیتی۔ کبھی دارلامان کی وہ کم عمر لڑکیاں نظر آتیں جن کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ مگر خواب میں وہ سب گل بانو جیسی لگتی تھیں۔ کبھی کبھی اسے رافع دارلامان میں قید دکھائی دیتا۔

کبھی اپنی اور رافع کی شکل گڈمڈ ہوتی دکھائی دیتی۔ وہ ان خوابوں سے اتنا خوفزدہ ہوگئی کہ آہستہ آہستہ اس نے سونا چھوڑ دیا۔ اسے سونے سے ڈر لگنے لگا۔ تھکن اور ذہنی دباؤ نے اس کی عجیب حالت کردی تھی۔ وہ بات بات پہ چڑ جاتی۔ کبھی امی سے بحث کرتی کبھی اسد سے لڑتی۔ امی اسے کسی فقیر بابا کے پاس بھی لے جانے کی کوشس کرتی رہیں کہ کسی طرح دم کروا لیا جائے تو شاید اسے سکون آ جائے۔ اگر کبھی شدید نیند کی وجہ سے آنکھ لگ جاتی تو چیخ مار کے اٹھ جاتی تھی۔ اس کیفیت سے تنگ آکر اس نے نیند کی گولیاں کھانا شروع کردیں۔ مگر ذہنی دباؤ کسی صورت کم ہو کے نہیں دے رہا تھا۔ گھر والے سمجھ رہے تھے کہ وہ جان بوجھ کے ان لوگوں کو تنگ کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سب کا ذمہ دار انہیں سمجھتی ہے۔

بلاوجہ الٹے سیدھے کام کرنے لگتی کبھی اسٹور صاف کرنے کے بہانے سارا کاٹھ کباڑ لا کر صحن میں ڈال دیتی اور پھر آدھا کام بیچ میں چھوڑ کر نیند کی گولی کھا کر سو جاتی۔ کبھی سب کے کپڑے دھونے کھڑی ہوجاتی اور سفید اور رنگین کپڑے ساتھ ہی دھو ڈالتی۔ گھر میں روزہنگامہ مچنے لگا تھا۔ ایک دن اپنی الماری کے سارے کپڑے نکال کر باہر ڈھیر کیے ہوئے تھے۔ پرانی پرانی چیزیں نکال کر دیکھ رہی تھی۔ اسی دوران کوئی پرانا رسالہ ہاتھ لگ گیا اور وہ سب کپڑوں کے ڈھیر پہ بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگی۔

دادی چپ چاپ اس کی حرکتیں دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے بھی اب اسے کچھ کہنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک بات کے دس جواب دیتی تھی اب۔ کافی دیر رسالے میں سر کھپانے کے بعد سارے کپڑے ایک دوسرے میں لپیٹ کے یونہی ٹھونسنے لگی تو ایک گولہ بنی قمیض میں کچھ کڑکڑاتا ہوا محسوس ہوا قمیض کھول کے جھاڑی تو ایک وزٹنگ کارڈ گرا اسے یاد آیا کہ بختاور کا کارڈ اس نے کپڑے بدلنے کے بعد انہیں کپڑوں میں لپیٹ دیا تھا۔ کارڈ کو الگ رکھا اور جلدی جلدی سارے کپڑے دوبارہ الماری میں ٹھونس دیے۔ پھر کارڈ لے کر فون کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ دو دفعہ تو نمبر ملانے پہ انگیج ٹون سنائی دی۔ پانچ منٹ بعد دوبارہ ملایا تو رنگ جانے لگی۔

”اسلام علیکم“ دوسری طرف سے کال ریسیو ہوتے ہی بختاور کی آواز آئی
”بسمہ بول رہی ہوں“
”جی بسمہ کیسی ہیں آپ۔ بتایئے کیسے فون کیا؟“
”مجھے آپ سے مشورہ چاہیے میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں اور دارلامان کی عورتوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔“
” ہمم دونوں بہت اچھے فیصلے ہیں۔ آپ میرے آفس آسکیں تو تفصیل سے بات ہو جائے گی۔“
”ٹھیک ہے کب آؤں؟“
”جب آپ آسکیں 9 سے پانچ کے درمیان“
”ٹھیک ہے میں انشا اللہ کل صبح آپ کے آفس آجاؤں گی۔“

بختاور نے اسے کارڈ پہ لکھا پتا ٹھیک سے سمجھا دیا۔ اگلے دن صبح ابو آفس کے لیے نکلنے لگے تو بسمہ بھی تیار کھڑی تھی۔

”ابو مجھے ایک جگہ جانا ہے“
”کہاں؟ کیا کام ہے؟ اسد سے کہو وہ کر دے گا“
”اسد میری جگہ پڑھ نہیں سکتا“
”پڑھ تو لیا جتنا پڑھنا تھا“

”تب آپ نے شادی کروانے کے لیے پڑھایا تھا اب میں زندگی گزارنے کے لیے پڑھنا چاہتی ہوں، آپ لے جا رہے ہیں تو ٹھیک ہے نہیں تو میں رکشا کر کے چلی جاتی ہوں۔“ بسمہ نے باہر قدم بڑھا دیے

ابو نے مڑ کے امی کو دیکھا
”پاگل ہوگئی ہے کیا یہ؟“
امی نے بے بسی سے کندھے اچکا دیے۔ ابو تیزی سے اس کے پیچھے باہر نکل گئے۔
آدھے گھنٹے بعد وہ بختاور کے آفس میں اس کے سامنے بیٹھی تھی۔
”بختاور میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہوں مگر سمجھ نہیں آ رہا کہ شروع کہاں سے کروں۔“
”مثلاً کیا کچھ کرنا چاہتی ہیں آپ؟“

”میں جاب کرنا چاہتی ہوں تاکہ اپنا خرچہ خود اٹھا سکوں۔ مگر میٹرک کی بنیاد پہ کوئی اچھی جاب نہیں ملے گی۔ ساتھ ہی دارلامان کی خواتین کی مدد کرنا چاہتی ہوں کسی طرح، مجھے لگتا ہے اس طرح شاید میں گل بانو کی روح کو خوش کرسکوں گی۔ مجھے جیسے خواب نظر آتے ہیں مجھے لگتا ہے وہ بہت بے چین ہے۔ مگر سارا مسئلہ ہی آکر میری تعلیم پہ اٹک رہا ہے۔ اگر میں پڑھنے میں لگ گئی تو یہ مقصد رہ جائے گا۔ گل بانو کو تو جانتی ہوں گی آپ؟“

بختاور نے سر ہلا دیا
”ہمم وہ بھی آپ کی اور اسلم کی کلاس فیلو تھی ناں؟“
”جی وہی“

” بسمہ آپ کا یہ اندازہ تو ٹھیک ہے کہ ادھوری تعلیم کی بنیاد پہ آپ کو بہت اچھی جاب نہیں مل سکتی جو آپ کے سارے خرچے پورے کرسکے۔ مگر بیٹا آپ تھوڑے سے شروع کریں کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے۔“

”مگر وہ تھوڑا بھی کیا؟ مجھے سمجھ نہیں آرہا“

”ایسا کرتے ہیں میں پتا کرتی ہوں کچھ این جی اوز ہیں جو ضرورت مند اسٹوڈنٹس کو اسپانسر ہیں اور اچھے اداروں میں ان کی تعلیم کے خرچے اٹھاتے ہیں۔ مگر آپ کو ان کا ٹیسٹ کوالیفائے کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ یہ کہ آپ کو شام میں دارلامان میں پڑھانا ہوگا پہلے آپ کو ٹریننگ دی جائے گی کہ بالغ لوگوں کو پڑھانے کے لیے کیا طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ مگر بیٹا اس کے لیے ہم آپ کو پندرہ ہزار دے سکیں گے۔ پک اینڈ ڈراپ ہماری طرف سے ہوگا“ یہ آفر بسمہ کی توقع سے کچھ بہتر ہی تھی۔ اگر اسے مفت تعلیم کا موقع مل جائے تو پندرہ ہزار بھی ابتداء کے لیے کافی تھے۔ اس نے فوراً حامی بھر لی۔ اس نے بختاور کو اپنے گھر کا نمبر دیا ساتھ ہی بختاور نے اسے تین دن بعد بلایا تاکہ ٹیسٹ لیا جاسکے کہ وہ اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ کسی کو کچھ پڑھا سکے

کافی دن بعد وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔ واپس آکر وہ اپنی کتابیں نکال کر دیکھنے لگی تاکہ تین دن بعد والے ٹیسٹ کے لیے تھوڑی دہرائی کر لے۔ بھیا گھر آئے تو خلاف معمول سیدھا اس کے کمرے میں آگئے۔ انہیں کمرے میں دیکھ کر بسمہ کو کافی حیرت ہوئی، انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اخبار اسے تھمایا

”یہ پڑھو“

اخبار کے پیچھے کے صفحات اوپر کی سمت طے ہوئے تھے اور سامنے ہی باسط کی تصویر کے ساتھ موٹی سی ہیڈ لائن تھی

”زیادتی کے مجرم کا دردناک اعتراف جرم
کمرۂ عدالت میں ہر آنکھ اشک بار ”

بسمہ نے فوراً خبر کی تفصیل پڑھی۔ خبر کے مطابق ریمانڈ کے دوران باسط نے جرم کا اعتراف کر لیا تھا اور عدالت میں تفصیلی بیان بھی دیا۔ اخبار نے کافی تفصیل سے بیان چھاپا تھا

”جج صاحب میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے نازیہ جو کہ مجھ سے بڑے بھائی کی بیوی تھی اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا۔ مجھے پتا تھا کہ اس کا شوہر یعنی میرا بھائی اس میں دلچسپی نہیں لیتا کیوں کہ وہ کسی بھی عورت میں دلچسپی نہیں لیتا تھا نہ لے سکتا تھا۔ یہ بات مجھے بچپن سے پتا تھی۔ میری اور اس کی عمر میں صرف تین سال کا فرق تھا۔ مگر اسے اسکول میں دیر سے داخل کروایا گیا اور میری اور اس کی کلاس میں صرف ایک سال کا فرق رہ گیا۔

ہمارے گھر کا ماحول ہمیشہ سے عجیب رہا۔ والد صاحب کی توجہ کبھی ہم پہ نہیں رہی اور والدہ ہمیشہ ان سے ڈرتی رہیں۔ مجھے عورت ذات کی عزت کرنا سکھایا ہی نہیں گیا والد صاحب خواتین کا تذکرہ ایسے کرتے تھے جیسے وہ انسان نہ ہوں صرف مزہ لینے کا سامان ہوں۔ فحش فلمیں دیکھتے ہوئے وہ کبھی ہماری موجودگی کا خیال نہیں کرتے تھے والدہ اگر ٹوکتی تھیں تو ہمارے سامنے ہی انہیں مارتے تھے۔ ہمارے گھر میں بہت غیر اخلاقی کتب موجود تھیں جو والد صاحب کے خیال میں چھپا کے رکھی ہوتی تھیں مگر ہم دونوں بھائیوں کو کافی جلدی ان تک رسائی حاصل ہوگئی تھی۔

بڑے بھائی البتہ ان سب سے دور رہتے تھے۔ ایک دفعہ والد صاحب نے ایسی ہی ایک کتاب میرے پاس دیکھ لی اور ناراض ہونے کی بجائے میری پیٹھ ٹھونکی کہ میرا بیٹا جوان ہوگیا۔ اس کے بعد سے جیسے مجھے اجازت نامہ مل گیا ہر غلط حرکت کرنے کا۔ والد صاحب میری ہر نازیبا حرکت پہ میری پشت پناہی کرتے رہے۔ میں نے ہی اسکول میں رافع کے مسئلے کے بارے میں دوسرے لڑکوں کو بتایا تھا جو وہ بچارہ بھائی سمجھ کر مجھے بتا گیا تھا مجھے اس کا مذاق اڑانا بہت اچھا لگتا تھا کیونکہ اس سے مجھے ابو کی حمایت ملتی تھی۔ مجھے گھر میں ایک دم غیر معمولی اہمیت مل گئی میں بہت چھوٹا تھا مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر مجھے اسکول کے بڑے لڑکوں بلکہ کچھ مرد و خواتین اساتذہ نے استعمال بھی کیا ساتھ ہی انہوں نے ہم بھائیوں کو اسکول میں بدنام بھی کر دیا کہ یہ غلط قسم کے لڑکے ہیں۔

ایک طرف مجھے والدین کی محبت چاہیے تھی دوسری طرف دوستوں کی ضرورت تھی۔ مگر کچھ بھی مکمل نہیں مل پارہا تھا۔ جو دوست ملتے وہ استعمال کرتے جو اچھے بچے تھے وہ میرے قریب ہی نہیں آتے۔ میرے اندر غصہ بڑھتا جا رہا تھا میرا دل چاہتا تھا ہر ایک کو تباہ کردوں جو چاہیے چھین لوں کیوں کہ خود سے کوئی مجھے نہیں دے گا۔ میٹرک تک آتے آتے میری حرکتوں کی وجہ سے کئی لڑکیوں نے اسکول بدل لیے یا پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ مجھے محبت ہوتی تھی مگر اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔

پہلی بار مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا جب اپنی ہی منگیتر سے پیش قدمی کی کوشش کی مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ محبت میں زبردستی نہیں ہوتی۔ شادی کے بعد میں جتنی زیادہ اس سے محبت کرتا جا رہا تھا اتنا زیادہ اسے اذیت دیتا تھا۔ نازیہ بھابھی کو تو میں استعمال کر کے بھول بھی گیا تھا مجھے ایک فیصد بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے۔ مجھے صرف ایک اذیت تھی اور ہے وہ یہ کہ کسی ایک شخص نے بھی مجھ سے محبت نہیں کی توجہ سے بات نہیں کی۔

میں نے بسمہ سے شدید محبت کی مگر اس کے کترانے پہ مجھے اور غصہ آتا جو میں اسی پہ اتار دیتا تھا۔ کوئی نہیں تھا جو مجھے سکھاتا کہ کیا صحیح ہے کوئی نہیں تھا جو مجھے سکھاتا کہ محبت کیسے کی جاتی ہے۔ رافع کی موت بلکہ اس سے زیادہ اس کے اعتراف نے مجھے اندر تک ہلا دیاہے۔ میں نے کتنی زندگیاں تباہ کردیں مجھے خود بھی اندازہ نہیں تھا۔ میں اپنے ہر جرم کی سزا کے لیے تیار ہوں مگر مجھے اس اذیت ناک زندگی میں مبتلا کرنے والے میرے باپ کے لیے بھی کوئی قانون ہے یا نہیں۔

میں مانتا ہوں میں غلط تھا مگر مجھے صحیح غلط سکھانا بھی تو کسی کی ذمہ داری تھی۔ میں نے وہی کیا جو مجھے سکھایا گیا۔ آپ جج ہیں ناں؟ مجرم کو سزا دیتے ہیں؟ مگر کوئی ایسی عدالت ہے جو ان عوامل کو روکے جو معصوم بچوں کو درندہ بنا دیتی ہے؟ مجھے بھی یاد ہے اپنا بچپن، میں ہنستا تھا کھیلتا تھا جب سے تھوڑا چلنا شروع کیا تو شام میں ابو کے آنے کے وقت دروازے پہ بیٹھ جاتا تھا کیونکہ دوسرے گھروں میں یہی دیکھتا تھا کہ باپ آتا ہے تو بچوں کو پیار کرتا ہے چیزیں دیتا ہے۔

میرا باپ دوسرے گھروں میں جھانکتا ہوا آتا تھا دروازے سے ایسے گزر جاتا جیسے میں ہوں ہی نہیں۔ بہت جلد میری بے فکر ہنسی اور کھیل کہیں گم ہوگئے اور اذیت پسندی نے ان کی جگہ لے لی۔ آپ بتائیں ہے اس کی کوئی سزا جو ایسے باپ کو سدھار سکے۔ کوئی ایسا پیمانہ جو جانچ سکے کہ ایک شخص اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے باپ بننے کی اجازت دی جائے۔ مجھے وہ تکلیف یاد تھی اسی لیے میں نے خود کو باپ بننے کی اجازت ہی نہیں دی۔ مجھے عدالت سے کسی قسم کی کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی۔ کیونکہ میرے جرم اس سے زیادہ ہیں۔ شاید اس جرم کی سزا پا کر میں خود کو بہتر انسان بنا سکوں۔ ”

اس تفصیلی بیان کے بعد خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ باسط کو 7 سال کی قید اور 3 لاکھ جرمانے کی سزا سنادی گئی۔

بسمہ خبر پڑھتے پڑھتے رونے لگی۔ پہلی بار اس نے باسط کے لیے وہ محسوس کیا جو کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ اس کا شدت سے دل چاہا کہ وہ عدالت میں ہوتی تو کم از کم ایک بار اسے اپنی بانہوں میں لے کر اسے بتاتی کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ اسے اپنی کیفیت پہ حیرت ہو رہی تھی۔ کیا اسے باسط سے محبت ہو گئی تھی؟ کافی دیر بعد جاکر اس کے آنسو تھمے مگر وہ مسلسل اپنی کیفیت کے بارے میں سوچتی رہی۔ اگر اسے باسط سے محبت ہے تو کیا وہ دوبارہ باسط کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہے۔

اس نے کئی بار خود سے یہ سوال کیا مگر ہر بار اس کا جواب نفی میں آیا۔ وہ صرف باسط سے ہمدردی دکھا سکتی تھی اس کو دوبارہ ہم سفر نہیں بنا سکتی تھی۔ بلکہ شاید اب کبھی بھی وہ کسی مرد کو اپنی زندگی کا ساتھی نہیں بناسکتی تھی۔ رات ہوتے ہوتے باسط سے ہمدردی کے جذبات بھی سرد ہوتے چلے گئے۔ اسے لگنے لگا کہ باسط نے یہ سب کچھ عدالت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے کہا ہوگا۔ اسے پتا تھا کہ اس کے سسر کا ہمیشہ سے یہی رویہ تھا مگر وہ یہ ماننے سے گریزاں تھی کہ یہ ان کی اولاد یا خاص کر باسط کے لیے تکلیف دہ ہوگا۔ کئی بار اس نے بے دھیانی میں حقارت سے سر جھٹکا۔

”ہونہہ! مظلوم بن رہا ہے۔ ہر بندہ اپنی غلطی کا خود ذمہ دار ہوتا ہے“

وہ یہ بھول گئی تھی کہ وہ خود اب ہر بات میں والدین کو اپنی زندگی تباہ کرنے کے طعنے دیتی تھی۔ ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتی تھی جو ان کی مرضی کے خلاف ہو۔ آگے پڑھنے کا فیصلہ بھی کہیں نہ کہیں اس کی انا کو سکون دے رہا تھا کہ اس نے اپنی زندگی تباہ کرنے کا بدلہ لے لیا۔

دو دن بعد وہ دوبارہ بختاور کے آفس میں تھی۔ اس کی ذہانت نے اس کا ساتھ دیا اور بہت آسانی سے نہ صرف وہ اس جاب کے لیے ٹیسٹ پاس کر گئی بلکہ چند دن بعد فرسٹ ایئر کے لیے ایک این جی او کا اسکالر شپ ٹیسٹ بھی پاس کر لیا۔ وہ آگے بڑھ رہی تھی۔ کامیاب ہو رہی تھی مگر اسے اپنی کامیابی سے زیادہ والدین کی بے بسی خوشی دے رہی تھی۔

گھر کا ماحول مسلسل تناؤ کاشکار تھا۔ بھیا نے کہہ دیا تھا کہ جب تک یہ گھر میں ہے میں شادی ہی نہیں کروں گا۔ اور اگر کروں گا تو الگ گھر لے لوں گا ورنہ یہ میرا اور میری بیوی کا جینا حرام کردے گی۔

کچھ ہی دن میں بسمہ نے بختاور کی مدد سے باسط کو جیل میں طلاق کا مطالبہ بھجوا دیا اور حیرت انگیز طور پہ بغیر کسی اعتراض کے باسط نے اسے تحریری طلاق بھجوا دی۔ مگر پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے گھر میں بتانے کی زحمت تک نہیں کی۔

کچھ ہی عرصے میں بھیا کی شادی ہوگئی اور ابو ریٹائر ہوگئے۔ بھیا الگ تو نہیں ہوئے مگر اوپر کے پورشن کا راستہ الگ کر لیا۔ اب ان کی بیگم دن میں ایک بار شام کے وقت بھیا کے ساتھ نیچے آتیں دو چار باتیں کرتیں اور واپس اوپر چلی جاتیں۔ مہینے کے خرچ کے پیسے جو پہلے ہی بھیا محدود دیتے تھی وہ اور محدود کردیئے۔ فہد بھی اب کالج میں تھا اور بسمہ کو دارلامان کی جاب سے جو کچھ ملتا وہ اس میں سے ایک روپیہ بھی گھر میں دینا مناسب نہیں سمجھتی تھی۔

گھر کے حالات عجیب ہوتے جا رہے تھے۔ نیچے کے پورشن میں کچھ خراب ہوجاتا تو یونہی پڑا رہتا۔ ابو کی پینشن میں سے فہد کی پڑھائی کا خرچہ نکال کے بمشکل کھانے اور بلوں کا خرچہ نکلتا تھا۔ بہنیں اگر کبھی آکر بسمہ کوسمجھانے کی کوشش کرتیں تو بسمہ کا دو ٹوک جواب یہی ہوتا کہ امی ابو کی اپنی غلطی ہے۔ بیٹوں کو سر پہ چڑھایا تھا اب بھگتیں۔ تقریباً سال پورا ہونے والا تھا۔ بسمہ کے فرسٹ ایئر کے پیپر ہونے والے تھے۔

ایک دن وہ بختاور کے آفس پہنچی تو وہاں اسلم بھی موجود تھا۔ بقول بختاور، وہ بھی اب رضاکارانہ طور پہ ساتھ کام کروائے گا۔ بسمہ اسے دیکھ کر اتنا ٹینس ہوگئی کہ گھر آکر بھی پریشان رہی۔ رات کو سونے سے پہلے پہلے وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ بختاور سے بات کرے گی اگر اسلم آفس آئے گا تو وہ جاب چھوڑ دے گی۔

******۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ
اس سیریز کے دیگر حصےایک صرف بات کر کے بھی بد چلن دوسرا ریپ کر کے بھی پاکیزہ؟عزت ہمیشہ عورت کی نہیں، کمزور کی لٹتی ہے

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima