آرٹیکل 370 کے خاتمے کا ایک سال: معاشی بدحالی کے باعث ’کامیاب‘ کشمیری بھی ریڑھی لگانے پر مجبور


کشمیر

اب حالات یہ ہیں کہ پچھلے سال تک اپنا ایکسپورٹ کا بزنس چلانے والے آج ڈل جھیل کے کنارے سبزیاں بیچ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں

خوبصورت ڈل جھیل کے کنارے ایک پسماندہ بستی میں پلے بڑے اعجاز احمد نے اپنے کزن کے ہمراہ کئی سال کی محنت کے بعد کشمیری دستکاریوں کی برآمد کا کاروبار شروع کیا تھا اور گذشتہ برس تک ان کا یہ بزنس ترقی کی نئی منازل چھو رہا تھا۔

انڈیا کی جنوبی ریاست کیرلا میں اُن کے شورُوم کا نام ’یوفوریا آرٹس‘ رکھا گیا جہاں سوزن کاری، کشیدہ کاری، قالین اور دستکاری کے دیگر نمونے کشمیر سے تیار ہو کر کیرلا پہنچائے جاتے، جہاں اعجاز اور اُن کے ساتھی یہ مال مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فروخت کرتے۔

تاہم 5 اگست 2019 کی صُبح، جب کشمیر کی بتدریج کمزور ہوتی خودمختاری کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا تو عوامی ردعمل کو دبانے کے لئے طویل قدغنوں اور بے مثال پابندیوں نے کئی ماہ کے لیے کشمیر میں ہر طرح کی تجارتی سرگرمی کو ٹھپ کر دیا اور اعجاز کا کاروبار بھی انہی بندشوں کے باعث متاثر ہوگئی۔

یوں پچھلے سال تک اپنا ایکسپورٹ کا بزنس چلانے والے اعجاز آج ڈل جھیل کے کنارے اپنے ہی گھر کے صحن میں اُگائی سبزیاں بیچ کر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔

’میں چھاپڑی فروش نہیں ہوں، ہمارا سالانہ ٹرن اوور تین کروڑ روپے تھا! لیکن اب شورُوم اور فیکٹریاں بند ہیں اور لوگ گھروں میں بیٹھے فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی سوچا کہ ایک شروعات کی جائے۔‘

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی جماعتیں اور رہنما خاموش کیوں؟

جموں کشمیر سے الگ ہوکر ایک سال میں لداخ کو کیا ملا؟

’دفعہ 370 آئین سے خارج ہوا مگر دلوں میں بس گیا‘

اگر یہ کافی نہیں تھا تو اس سال کی بہار سے ہی کورونا کی وبا سے بچاؤ کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن نے جہاں عالمی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا تو وہیں کشمیر کے لوگ مزید محصور ہوگئے اور خوف کا عالم ہر بستی پر طاری رہا۔

لیکن کشمیریوں کے لیے ہفتوں اور مہینوں تک اپنے گھروں میں بند رہنا، خوراک کی قلت کا سامنا کرنا اور غیریقینی معاشی صورتحال سے دوچار رہنا کوئی نئی بات نہیں کیونکہ وہ لگ بھگ 30 برس سے ایسے ہی حالات سے دوچار رہے ہیں۔

کشمیر

کشمیریوں کے لیے ہفتوں اور مہینوں تک اپنے گھروں میں بند رہنا، خوراک کی قلت کا سامنا کرنا اور غیریقینی معاشی صورتحال سے دوچار رہنا کوئی نئی بات نہیں

تاہم لاک ڈاؤن کے دوران یہ مسائل دوگنے ہوگئے۔ ابھی کشمیری پانچ اگست کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نکل ہی رہے تھے کہ وبا کے باعث یہاں کی سیاست، تعلیم، تجارت اور سماجی زندگی ایک بار پھر مفلوج ہو کر رہ گئی۔

اور تو اور، اگست 2019 سے اب تک جو بھی نئی قانون سازی کی گئی یا نئے حکم نامے سامنے لائے گئے، اُن سے عام لوگ نہ صرف اپنی شناخت کے بارے میں فکر مند ہیں بلکہ نوجوانوں کی بڑی تعداد بےبسی اور بے روزگاری کی گرفت میں بھی ہے۔

تاجروں کی سب سے پُرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) نے گذشتہ ایک سال کے دوران کشمیر کی معیشت کو ہونے والے نقصان کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق کشمیریوں کو مجموعی طور پر 400 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے۔

یہاں کی دو تہائی آبادی کا انحصار باغبانی کی صنعت پر ہے لیکن پچھلے سال کشمیر میں اگنے والے سیب یا تو درختوں پر ہی سڑ گئے یا منڈیوں میں پہنچنے سے پہلے ہی قدغنوں کی وجہ سے ٹرکوں میں ضائع ہوگئے۔ دوسرے میوہ جات کا بھی یہی حال رہا۔ ’دُکاندار دکانیں بند کر کے سڑکوں پر ریڑی لگانے لگے اور سیاحوں پر منحصر ٹرانسپورٹر نکڑ پر چائے بیچ رہے ہیں۔’

کے سی سی آئی کے صدر شیخ عاشق نے بی بی سی کو بتایا: ’سیاحت سے جُڑے 70 ہزار افراد بے روزگار ہوگئے اور یہی حال سبہی شعبوں کا ہے۔ ہم نے رپورٹ میں مستند اور محتاط اعدادوشمار شائع کئے ہیں جن کے مطابق کُل ملا کر پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔‘

سیب

پچھلے سال کشمیر میں اگنے والے سیب یا تو درختوں پر ہی سڑ گئے یا منڈیوں میں پہنچنے سے پہلے ہی قدغنوں کی وجہ سے ٹرکوں میں ضائع ہوگئے

شیخ عاشق کہتے ہیں کہ کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے کو روایتی معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ ’پڑھے لکھے نوجوانوں کے پاس سرکاری مواقع نہیں یا اُن کے پاس تجارت کے وسائل نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے، اُس کو فی الحال رہنے دیجیے۔ ہمارے یہاں اس وقت سنگین مسئلہ یہ ہے کہ جس کے پاس نوکری تھی وہ چلی گئی، جس کی دُکان ہے وہ بند ہے، کارخانہ اور ہے تو اُس پر بھی تالا ہے۔ فوراً کچھ نہ کیا گیا تو لوگ سڑکوں پر آ جائیں گے۔‘

پھلتی پھولتی تجارت سے ہاتھ دھونے کے بعد جھیل کناے سبزی بیچنے والے اعجاز احمد اس صورتحال سے خائف ہیں۔ ”دیکھ لینا ، جو کچھ ہورہا ہے مجھے لگتا ہے سب لوگ سڑک پر ریڈی لگائیں گے، ہم سب لوگ معمولی چیزیں لئے ریڈیوں پر ہونگے اور خریداروں کے پاس خریدنے کے لئے پیسے نہیں ہونگے۔”

قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر میں سرکاری ملازمین کی تعداد دیگر بھارتی ریاستوں سے بہت زیادہ ہے۔ جموں کشمیر میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے سالانہ بجٹ میں سے 38 ہزار کروڑ روپے ساڑھے چار لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر خرچ ہوتے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہی پیسہ فی الوقت مارکیٹ میں گردش کررہا ہے جس سے ابھی تک اجتماعی فاقہ کشی کا بحران پیدا نہیں ہوا۔ تاہم وہ کہتے ہیں: ”عام کشمیری کی قوتِ خرید تقریباً ختم ہوگئی ہے، اور سرکاری ملازم بھی اب صرف کھانے پینے پر خرچ کرتے ہیں کیونکہ غیریقینی صورتحال میں وہ پیسہ جمع رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں، ایسے میں تجارت کا حال جو ہوتا ہے وہی ہوا۔”

معاشی امور کے ماہر اعجاز ایوب کہتے ہیں کہ لداخ کو چھوڑ کر جموں کشمیر کی کُل آ بادی 1.25 کروڑ ہے۔”ہماری سروے کے مطابق اس تعداد میں سے ہمارے پاس 44 لاکھ کام کرنے کے اہل ہیں۔

کشمیر

لیکن پچھلے سال پانچ اگست سے پہلے اِن میں سے بارہ لاکھ افراد پہلے ہی بے روزگار تھے، یعنی بے روزگاری کی شرح 15 فی صد تھی۔ لیکن اب یہ شرح تین گناسے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ہماری معیشت میں سرکاری ملازمین کی کمائی کا حصہ فقط دس فی صد ہے، صورتحال بہت بھیانک ہے۔”

واضح رہے اس سال مارچ کے بعد لاک ڈاون سے بھارت میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد خسارے سے دوچار تاجروں اور بے روزگار ہوچکے نوجوانوں کی امداد کے لئے وزیراعظم نریندر مودی نے 21 لاکھ کروڑ روپے کی سرکاری معاونت کا اعلان کیا۔

تاہم ‘ کے سی سی آئی’ کے صدر شیخ عاشق کہتے ہیں : ”ایسا لگتا ہے کہ جموں کشمیر کو اس اعلان میں شمار ہی نہیں کیا گیا، حالانکہ ہم صرف لاک ڈاون سے نہیں بلکہ اُس اعلان سے بھی متاثر تھے جو یکطرفہ طور پر پچھلے سال پانچ اگست کو کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp