کیا پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام یکساں قومی نصاب کو اپنانے کے لیے تیار ہے؟


سکول

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں رائج موجودہ تعلیمی نظام معاشرے میں ‘طبقاتی تقسیم’ کا بڑا ذریعہ ہے

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان میں ملک میں ’یکساں قومی نصاب‘ کا نفاذ بھی شامل تھا کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ ملک میں رائج موجودہ تعلیمی نظام معاشرے میں ’طبقاتی تقسیم‘ کا بڑا ذریعہ ہے جو بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔

رواں سال جولائی کے مہینے میں وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اپریل 2021 سے ملک بھر کے سرکاری و نجی سکولوں اور دینی مداس میں یکساں قومی نصاب کے نفاذ کا عمل شروع کیا جائے گا۔‘

حکومت کے اس منصوبے کے حوالے سے ملک کے ماہرین تعلیم سوالات اٹھاتے رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔

پاکستان میں یکساں نصاب کے حوالے ماضی میں کی جانے والی کوششوں میں سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے دورِ حکومت کا منصوبہ قریبی مثال ہے۔ چند ماہرین موجودہ حکومت کے تیار کردہ نصاب تعلیم کے منصوبے کو مشرف دور کے منصوبے کا عکاس قرار دے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پنجاب میں نصابی کتب پر پابندی کی وجہ صرف حقائق کی غلطیاں ہیں؟

’اساتذہ اپنے بچے کیوں سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھاتے؟‘

پاکستان کے سرکاری سکول پانچ برس میں کتنے بدلے؟

وفاقی وزیر تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود نے آئندہ تعلیمی سال سے یکساں قومی نصاب کے ملک بھر میں نفاذ کے پہلے مرحلے یعنی ’نرسری اور پہلی سے پانچویں جماعت‘ کے لیے ایک نصاب رائج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسرا مرحلہ چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک سنہ 2022 جبکہ یکساں قومی نصاب کا تیسرا اور آخری مرحلہ نویں سے بارہویں جماعت کا نصاب ملک میں آئندہ عام انتخابات کے سال یعنی سنہ 2023 میں نافذ کیا جائے گا۔

پاکستان کے سرکاری سکول

چند ماہرین موجودہ حکومت کے تیار کردہ نصاب تعلیم کے منصوبے کو مشرف دور کے منصوبے کا عکاس قرار دے رہے ہیں

یکساں قومی نصاب سے کیا مراد ہے؟

پاکستان کی وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے وضع کردہ وہ بنیادی نکات جن پر یکساں قومی نصاب کو تشکیل دیا جا رہا ہے ان میں قرآن و سنت کی تعلیمات، آئین پاکستان کا تعارف، بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے افکار، قومی پالیسیاں، خواہشات اور قومی معیارات، جنس، رنگ نسل یا مذہب کے حوالے سے روادی اور تعمیری سوچ کی ترویج، تعلیمی نظام کی بہتری کے حوالے سے پاکستان کے بین الاقوامی معاہدوں خصوصاً پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول، ملک میں تعلیمی اداروں، اساتذہ اور پیشہ ورانہ تربیت میں اضافے سمیت اس بات کا تعین کیا جا رہا ہے کہ بچے کیا پڑھیں گے، کیا سیکھیں گے اور ان تعلیمات کا بچوں پر کیا اثرات ہوں گے۔

یکساں قومی نصاب کے حوالے سے وزات تعلیم کے دستاویزات کے مطابق بچوں کی ابتدائی تعلیم کے سال یعنی ’نرسری یا پریپ‘ کلاس میں انھیں جن سات نکات پر تعلیم دی جائے گی اس میں ذاتی یا معاشرتی ترقی، زبان اور خواندگی، بنیادی ریاضی، آس پاس کے ممالک، صحت اور تخلیقی فنون شامل ہیں۔

پہلی سے پانچویں جماعت کے لازمی مضامین میں اُردو، انگریزی، اسلامیات، جنرل نالج، ریاضی، جنرل سائنس اور معاشرتی علوم شامل ہیں جبکہ اقلیتوں کے لیے پہلی سے بارہویں جماعت تک اسلامیات کے مضمون کی جگہ ’دینی تعلیم‘ کا مضمون متعارف کرایا گیا ہے جس میں تمام مذاہب کا بنیادی تعارف اور تعلیمات موجود ہوں گی۔ ایک اور تبدیلی انگریزی کو مضمون کی بجائے زبان کے طور پر پڑھایا جانا ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کہتے ہیں کہ ’اب تک یکساں قومی نصاب کے حوالے سے قومی ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا گیا ہے، جس میں تمام صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی متعلقہ وزارتیں اور ادارے تمام فیصلہ سازی شامل رہے ہیں۔ اور سب یکساں قومی نصاب کے نفاذ پر رضامند ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مسلسل مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کی تعلیمی زبان کے انتخاب کا اختیار بھی صوبوں کو دیا جائے، یعنی بچوں کو اردو یا مادری زبان میں تعلیم دینے کا حق صوبوں کو حاصل ہو گا، جبکہ اس ضمن میں دوسرا اہم فیصلہ ایک جیسی کتب کے بارے میں کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے ایک ماڈل ٹیکسٹ بک بنائی جا رہی ہے، جو صوبوں، نجی سکولوں اور مدارس کو فراہم کی جائے گی، اور انھیں قومی نصاب کے بنیادی نکات پر رہتے ہوئے اس میں اضافے یا تبدیلی کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔‘

یکساں قومی نصاب کے حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور یونیورسٹی آف ماڈرن سائنسز سے وابستہ ماہر تعلیم ڈاکٹر علی عثمان قاسمی نے کہا ہے کہ ’یکساں نصاب کے بارے میں اب تک وزارت تعلیم کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق اس کو قومی نصاب کہنا درست نہیں ہے، تاہم اسے تعلیمی پالیسی یا گائیڈ لائنز‘ کہا جا سکتا ہے۔ اور نہ ہی پاکستان جیسے ممالک جہاں مختلف مذاہب، نسلوں، زبانیں بولنے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہوں، یکساں قومی نصاب رائج کیا جا سکتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’تاحال یکساں قومی نصاب کا حکومتی منصوبہ، پاکستان تحریک انصاف کے اس سیاسی یا انتخابی نعرے کی تکمیل سے زیادہ کچھ نہیں جو وہ ماضی میں بلند کرتے رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر ملک میں تعلیم کے منقسم نظام کو ایک کریں گے، غریب اور امیر کے لیے ایک جیسی تعلیم کی سہولتیں ہوں گی۔ جو کہ ایک کتاب اور زبان کی پابندی کی بغیر ممکن نہیں، آئندہ بھی بڑے نجی تعلیمی ادارے ان فراہم کردہ سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر طبقاتی تقیسم میں خود کو نمایاں رکھیں گے۔‘

نجی سکول

’آئندہ بھی بڑے نجی تعلیمی ادارے ان فراہم کردہ سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر طبقاتی تقیسم میں خود کو نمایاں رکھیں گے‘

یکساں قومی نصاب کیوں ضروری ہے؟

شفقت محمود کہتے ہیں کہ ’یکساں قومی نصاب کا مطلب اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ملک کے کسی بھی حصے میں رہنے اور سرکاری یا نجی سکول میں پڑھنے والے، حتٰی کہ مدرسے میں زیر تعلیم بچوں کو ایک معیار کی تعلیم حاصل ہو۔ ایک قوم ایک نصاب کے نعرے تلے ہماری حکومت جو نظام وضع کرنے جا رہی ہے، اس سے نہ صرف تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کے حوالے سے پیدا کردہ تقسیم ختم ہو گی، بلکہ ہمارے بچے ایک جیسی تعلیم حاصل کرکے ایک جیسی سوچ اپنا سکیں گے۔‘

ڈاکٹر علی عثمان کے مطابق ’دنیا بھر میں سامراجی طاقتوں کے زیر تسلط رہنے والی قومیں مخصوص حالات میں ملک و قوم کی ترقی کا جائزہ لیتے ہوئے، یکساں نصاب کے نہ ہونے کو ترقی نا کر پانے کی بڑی وجہ قراردیتی رہی ہیں، یہ نعرہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یا ضرورت ترقی کے لیے ایک جیسی سوچ کی ترویج کا ضروری سمجھا جانا ہے۔ جب کہ حقیقاً اس نکتے پر سوچ بچار کی ضرورت ہے کہ معاشرتی تنوع کے بغیر ایک قوم کی قابلیت یا حیثیت کیا ہو گی۔۔۔‘

نصاب کیسے بنایا گیا ہے؟

یکساں قومی نصاب کی تیاری کے لیے وزیر اعظم عمران خان نے سنہ 2018 میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی تجویز پر قومی نصاب کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔ سنہ 2019 کے آغاز میں وجود میں آنے والی اس کونسل کی بنیادی تشکیل میں ہر صوبے اور خطے سے تین تین اراکان، صوبائی نصاب بیورو، ٹیکسٹ بک بورڈز اور ہر تعلیمی بورڈ کا ایک ایک رکن شامل تھا۔ جس کے بعد اس کونسل نے قومی نصاب کی تیاری اور اس پر عملدرآمد کی راہ متعین کرنے کے لیے ایک ’تکنیکی ماہرین کی کمیٹی برائے نصاب‘ قائم کی۔

قومی نصاب کونسل کے سربراہ اور وزات تعلیم کے جوائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر محمد رفیق طاہر نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’تکنیکی ماہرین کی کمیٹی میں ملک بھر سے سترہ سے زیادہ نصاب کے ہر مضمون کے ماہرین کو شامل کیا گیا۔ جنھوں نے صوبائی اور وفاقی سطح پر مشاورتی عمل اور کانفرنسوں کے ذریعے نصاب کا بنیادی ڈھانچہ اور اس کی عملداری سے متعلق تجاویز وضع کیں، جنھیں تمام صوبوں کی مشاورت سے منظور کیا گیا ہے۔‘

رفیق طاہر کہتے ہیں کہ ’نصاب کی تیاری میں بین الاقومی معیار کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے دیگر ممالک اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں رائج تعلیمی نصابوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں سنگاپور، ملائشیا، انڈونیشیا اور کیمبرج شامل ہیں۔‘

مدارس

’ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ نئے نصاب میں مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کے بجائے، پورے ملک کے نظام تعلیم کو مدارس کے طرز تعلیم پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘

نصاب کا نفاذ کیسے ہوگا؟

یکساں قومی نصاب پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صوبہ سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کہتے ہیں کہ ’18ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ اور نصاب کی تشکیل کے امور صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں۔

’اگر ہم نے وفاق کے تیار کردہ یکساں قومی نصاب کو صوبہ سندھ کے موجودہ تعلیمی نصاب سے بہتر پایا تو ہمیں اسے اپنانے میں شاید اعتراض نہ ہو لیکن ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اس کے نفاذ کا اعلان صوبائی حکومت ہی کرے گی، اور اس پر عملدرآمد کرنے کا سارا اختیار بھی صوبائی حکومت کے پاس ہی ہونا چاہیے۔ آئین پاکستان نے جو حق صوبوں کو دیا ہے اس سے ہم کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔‘

سعید غنی کا کہنا ہے کہ ’ہم وفاق کے نصاب کو دیکھنے کے بعد ہی صوبے میں اس کا نفاذ کریں گے۔ اگر وہ صوبہ سندھ کے پہلے سے موجود نصاب سے بہتر ہوا، تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن اگر صوبہ سندھ کا نصاب وفاق کے تیار کردہ نصاب سے بہتر ہوا، تو ہم مطالبہ کریں گے کہ اسے پورے ملک میں نافذ کیا جائے۔‘

کیا موجودہ تعلیمی نظام معیاری یکساں قومی نصاب کو اپنانے کے لیے تیار ہے؟

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کے مطابق حکومت کو ملک کے نظام تعلیم کی کمزوری کا بخوبی ادراک ہے، جن کو دور کرنے کے لیے منصوبہ سازی کی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’نصاب اور نظام تعلیمی کی بہتری ایک مسلسل عمل ہے، جس میں وقت اور ضروریات کے مطابق استعداد کار، سکولوں میں اضافہ، سکول سے باہر بچوں کو دائرہ تعلیم میں لانا اور اساتذہ کی ٹریننگ جیسے اہم امور شامل ہیں۔‘

قومی نصاب کونسل کے سربراہ رفیق طاہر کہتے ہیں کہ ’کونسل نے یکساں قومی نصاب پر مؤثر انداز میں عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے خواہشمند اداروں سے اساتذہ کی ٹریننگ کا ماڈل تیار کرنے کی درخواستیں طلب کی تھیں۔ بہت سے اداروں نے خواہش کا اظہار کیا مگر شفاف طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ کراچی (آغا خان یونیورسٹی) کا انتخاب کیا گیا ہے، اور دسمبر سے پہلے ملک بھر کے اساتذہ کی ٹریننگ کا عمل شروع ہو جائے گا۔‘

ڈاکٹر علی عثمان قاسمی حکومت کے قومی نصاب کے نفاذ کے طریقہ کار کو غیر حقیقی منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایک سال کے عرصے میں نصاب میں وضع کردہ دائر کار کے مطابق کتابوں کی تیاری کا عمل مکمل ہو جانا ہی ممکن ہوتا نظر نہیں آتا، جبکہ اساتذہ کی ٹریننگ کا عمل اس سے کہیں زیادہ غور اور توجہ طلب کام ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یکساں قومی نصاب کے نام پر حکومت ملک کے تعلیمی نظام میں جو بھی تبدیلیاں لانا چاہتی ہے، ان کی عملداری میں جلد بازی سے مزید خرابیاں پیدا ہوں گی۔ ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ نئے نصاب میں مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں لانے کے بجائے، پورے ملک کے نظام تعلیم کو مدارس کے طرز تعلیم پر استوار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو یہ اور ان جیسے دیگر اہم نکات پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔‘

محمد رفیق طاہر اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’نئے نصاب میں ایسے مضامین متعارف کرائے گئے ہیں جو بچوں اور اساتذہ دونوں کے لیے آسان ہوں۔ استاد ایک بچے کو اسلامیات کا کوئی مضمون پڑھانے کے بعد مشق کے ذریعے انھیں سمجھائے گا بھی اور پھر آخری مرحلے میں اس کا جائزہ بھی لیا جائے گا کہ بچوں نے کیا سیکھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp