پاکستان کی برآمدات میں اضافہ: کیا پاکستان تجارت میں ہمسایہ ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟


معیشت

پاکستان کی برآمدات جولائی کے مہینے میں مجموعی طور پر 5.8 فیصد اضافے سے بڑھی ہیں

کورونا وائرس کی وجہ سے لگاتار تین مہینوں میں خسارے کا شکار رہنے کے بعد پاکستان کی برآمدات جولائی کے مہینے میں مجموعی طور پر 5.8 فیصد اضافے سے بڑھی ہیں۔

پاکستان کی برآمدات نے رواں سال اپریل کے مہینے میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی تو مئی کے مہینے میں یہ کمی 35 فیصد اور جون میں چھ فیصد تک رہی۔

تاہم جولائی کے مہینے میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو لگ بھگ چھ فیصد تک رہا۔ پاکستان سرجیکل آلات، کھیلوں کی مصنوعات، چاول، پھل، چمڑے کی مصنوعات وغیرہ برآمد کرتا ہے لیکن برآمدی شعبے میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی مصنوعات کا ہے، جو تقریباً 55 فیصد سے زائد ہے۔

انڈیا اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ

ماہ جولائی میں پاکستان کی برآمدات میں تقریباً چھ فیصد اضافہ ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آیا ہے جب خطے کے دو اہم ملکوں یعنی انڈیا اور بنگلہ دیش کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جولائی کے مہینے میں انڈیا کی برآمدات 13.7 فیصد جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات 17 فیصد کی شرح سے گری ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’تحریک انصاف نے محدود معاشی کامیابی حاصل کی‘

چین سے درآمدات میں کمی، پاکستان کی صنعت پر کیا اثرات ہوں گے

مقامی سطح پر بننے والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی، وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی چند دوسری وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش اور انڈیا میں پاکستان کے برعکس کورونا وائرس کی وجہ سے سخت لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان دونوں ممالک میں برآمدی شعبے کی جانب سے آرڈر کی تکمیل نہیں ہو پا رہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو پاکستان کے برآمدی شعبے نے پُر کیا ہے۔

پاکستان

حالیہ اضافے میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمدات کا حصہ 14 فیصد سے زائد ہے

کیا برآمدات میں اضافے کا رجحان برقرار رہے گا؟

پاکستان کی جانب سے جولائی کے مہینے میں جو ایکسپورٹ کی گئی اس میں مجموعی اضافہ 5.8 فیصد ہے۔ اس اضافے میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کی برآمدات کا حصہ 14 فیصد سے زائد ہے۔

معروف بزنس مین اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ وہ اس اضافے کو اضافہ نہیں مانتے۔

ان کا کہنا تھا کہ برآمدات میں جو اضافہ حالیہ دنوں میں دیکھا جا رہا ہے وہ دراصل اضافہ نہیں بلکہ وہ رکے ہوئے برآمدی آڈرز تھے جو دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیرونی خریدار نہیں اٹھا سکے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیرونی خریداروں نے آرڈر کیے ہوئے مال کو بھیجنے کے لیے انتظار کا کہا اور اصل میں یہ وہی مال ہے جسے اب حکومت برآمدات میں اضافہ قرار دے رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ تین مہینوں میں ملک کی برآمدات نے جس بڑے خسارے کا سامنا کیا اس کے مجموعی خسارے کے سامنے یہ اضافہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ موتی والا نے کہا کہ حکومت نے ایک سیاسی بات کی ہے تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ملکی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

موتی والا نے اس اضافے کے رجحان کے برقرار رہنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ اضافہ ہی نہیں تو اس کے برقرار رہنے کے بارے میں بات کرنا فضول ہے یہ اصل میں رُکا ہوا مال تھا جو جولائی کے مہینے میں اکٹھا برآمد ہو گیا۔

پاکستان

کیا یہ انڈیا اور بنگلہ دیش کا حصہ تھا؟

پاکستان کا رواں برس 22 سے 24 ارب ڈالر کی برآمدات کرنے کا منصوبہ ہے جس میں پاکستان ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کی برآمد پر زیادہ انحصار کرے گا۔

پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی سالانہ برآمدات 40 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں جن میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سر فہرست ہیں۔ انڈیا کی مجموعی برآمدات 300 ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ان میں بھی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں۔

برآمدات میں اضافے پر بات کرتے ہوئے ملک میں پائیدار ترقی سے متعلق کام کرنے والے ادارے (ایس ڈی پی آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ برآمدات میں اضافہ کی وجہ یہاں کچھ دوسری وجوہات ہیں، تاہم یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان نے انڈیا اور بنگلہ دیش کے برآمدی آڈرز سے کچھ حصہ حاصل کیا ہو جہاں پاکستان کے مقابلے میں لاک ڈاؤن سخت تھا اور کاروباری شعبے مکمل طور پر بند تھے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ اس کے پس پردہ کچھ دوسرے عوامل بھی تھے جنھوں نے ایکسپورٹس کو بڑھایا۔

زبیر موتی والا نے اس سلسلے میں کہا کہ آج بنگلہ دیش جو برآمد کرتا ہے وہ اصل میں ہمارا ہی مال تھا جو پاکستان میں برآمدی شعبے کو درپیش مشکلات کی وجہ سے بنگلہ دیش منتقل ہو گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ کچھ تھوڑا بہت شیئر شاید پاکستان کے حصے میں آیا ہو جو انڈیا اور بنگلہ دیش میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا ہو تاہم بنیادی طور پر یہ پاکستان کا رُکا ہوا مال تھا جو اکٹھا ایکسپورٹ ہوا تو اضافے کی وجہ بنا۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری

سب میں بڑی برآمدات میں سے ایک گارمنٹس مصنوعات ہیں

کیا پاکستان بنگلہ دیش اور انڈیا سے برآمدی شعبے میں مقابلہ کرسکتا ہے؟

انڈیا اور بنگلہ دیش سے برآمدات کا شیئر ’چھیننے‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے موتی والا نے کہا کہ یہ کام کل ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ملکی برآمدی شعبے کے لیے سازگار حالات کا ہونا بہت ضروری ہیں۔

’اگر ہم برآمدی مال کی تیاری کی لاگت کو ہی لے لیں تو بنگلہ دیش میں یہ لاگت ہم سے 20 فیصد کم ہے۔ ایک ایسی صورتحال میں جب بنگلہ دیش سستی اشیا بیرون دنیا میں بیچے گا تو کون پاکستان میں تیار ہونے والی مہنگی مصنوعات خریدے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش میں بجلی کی لاگت پاکستان کے مقابلے میں آدھی ہے جبکہ وہاں پانی کی مفت اور بلا تعطل فراہمی برآمدی شعبے کو کی جاتی ہے، اسی طرح وہاں سستی لیبر بھی میسر ہے۔ ’اس کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگی بجلی اور مہنگا پانی ہے جو اکثر عدم دستیاب ہوتا ہے۔ یہ سب عوامل برآمدی شعبے میں تیار ہونے والی اشیا کو عالمی منڈی میں غیر مسابقتی بنا رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ بنگلہ دیش کو نہایت کم ترقی یافتہ ملک ہونے کا فائدہ حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کی مصنوعات کے لیے مختلف ممالک میں کوٹہ ہے اور وہاں یہ زیرو ڈیوٹی پر ایکسپورٹ کی جا سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو آسٹریلیا، امریکہ اور انگلینڈ جیسی منڈیوں میں ٹیرف پر خصوصی رعایت حاصل ہے جو اسے پاکستان کی مصنوعات کے مقابلے میں سستا مال بیچنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کو جہاں عالمی منڈیوں میں ٹیرف کی رعایت اور اندرونی طور پر کم پیداواری لاگت کی برتری حاصل ہے تو اس کے ساتھ امن و امان کی صورتحال نے بھی ملک کو بہت فائدہ پہنچایا، اس لیے پاکستان سے سرمایہ کاری بھی بنگلہ دیش منتقل ہوئی اور مقامی تاجروں نے بنگلہ دیش میں انڈسٹری لگانے کو فوقیت دی۔

انڈیا سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پڑوسی ملک کو انرجی کی لاگت کی وجہ سے جو برتری حاصل ہے وہ اس کی مصنوعات کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ پُرکشش بناتی ہے۔

معیار اور جدت میں سرمایہ کاری

پاکستان

پاکستان کی برآمدی مصنوعات کے معیار اور ان میں جدت لانے کے لیے سرمایہ کاری کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق سینیئر نائب صدر ابراہیم کسومبی نے کہا کہ عالمی سطح پر اپنی مصنوعات کو پرکشش بنانے کے لیے ’برانڈ ڈویلپمنٹ‘ لازمی ہے جو پاکستان میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔

اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا پاکستان کا ٹیکسٹائل کا شعبہ ملکی مارکیٹ میں کپڑا اور اپنی مصنوعات بیچ کر نفع کما لیتا ہے اور بیرونی دنیا کے لیے بہت کم محنت کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ مصنوعات میں جدت لانے کے لیے کاروباری شعبہ اس وقت سرمایہ لگاتا ہے جب اس کے سامنے بزنس آرڈرز کی معقول تعداد ہو۔ ’جب ٹیکسٹائل والوں کی مصنوعات ملکی مارکیٹ میں کھپ جاتی ہیں تو ان کی جانب سے کم ہی معیار اور جدت پر توجہ دی جاتی ہے۔‘

ڈاکٹر سلہری نے اس سلسلے میں بتایا کہ بیرونی سرمایہ کاری ہمارے ہاں برآمدی شعبے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

’اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی مثال لے لیں جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں تک سرمایہ کاری لاتی ہیں اور اپنے برانڈ کی مصنوعات تیار کراتی ہیں۔‘ انھوں نے کہا اسی طرح انڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری برآمدی شعبے میں آتی ہے ہمارے ہاں اس کے مقابلے میں بہت قلیل مقدار میں برآمدی شعبے میں بیرون ملک سے سرمایہ آتا ہے۔

ڈاکٹر سلہری کے مطابق دوسری جانب ہماری انڈسٹری جس میں سب سے بڑی ٹیکسٹائل کی صنعت ہے وہ بھی اندرون ملک اپنی مصنوعات بیچ کر کچھ نفع کما لیتی ہے لیکن معیار اور جدت پر کم ہی توجہ دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp