انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لوگوں کی زندگیاں کیسے تبدیل ہوئیں: بارہ مہینے، بارہ کہانیاں


کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

انڈیا میں انتہا پسند ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ سال پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو انڈیا کے آئین کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے مرکزی حکومت کے براہ راست دائرہ اختیار میں شامل کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

اس متنازع ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں گذشتہ ایک سال سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور اس کے بعد سے نریندر مودی کی سرکار نے کشمیر میں 40 ہزار کے قریب سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تعینات کر دیے ہیں۔ انٹرنیٹ کی سہولت منقطع کر دی گئی، تمام سیاسی رہنماؤں اور بے شمار نوجوان کو گرفتار یا نظر بند کر دیا گیا اور سری نگر اور دیگر کئی جگہوں پر غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کر دیا گیا۔

کئی ماہ تک مسلسل کرفیو اور سخت سیکیورٹی اقدامات میں اس سال مارچ میں کچھ نرمی کی گئی۔ لیکن اس کے بعد کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر سری نگر اور وادی کے دوسرے علاقوں میں کارروبار زندگی مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بسنے والوں کے لیے گذشتہ ایک سال خوف اور شدید مشکلات کا سال تھا جس سے عوامی غم و غصہ اپنے عروج کو چھونے لگا ہے۔

بی بی سی نے زندگی کے مختلف شعبوں میں مختلف سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے 12 خواتین اور مرد حضرات سے بات کی ہے۔

ثنا ارشاد متو، عمر 26 سال

ثنا جو گذشتہ چار سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پیشے میں نجی اور پیشہ وارانہ زندگی کو آپ الگ الگ نہیں رکھ سکتے۔‘

’ہم ماضی میں کئی مرتبہ کرفیو سے گزرے ہیں لیکن گذشتہ سال ایک خوف کا ماحول تھا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے مواصلات کے طریقہ بدل گئے اور ہم نے اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کے لیے نئے طریقہ اختیار کرنا شروع کر دیے۔‘

محترمہ متو کے بقول سیکیورٹی اہلکاروں کا رویہ جو اخبار نویسوں کی طرف پہلے ہی بڑا جارحانہ تھا اس میں گذشتہ سال اگست کے بعد اور بھی شدت آ گئی۔

’اب اخبار نویسوں سے سوالات کیے جانے لگے اور انھیں گرفتار کیا جانے لگا۔ ان پر معلومات حاصل کرنے کے اپنے ذرائع ظاہر کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا۔ آج اگر مجھ سوشل میڈیا پر تبصرہ کرنا ہو تو مجھے کئی مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کیونکہ مجھے کام بھی تو کرنا ہے۔ مسلسل ایک خوف موجود ہے۔‘

’گھر میں بھی ایک خوف رہتا ہے۔ میں اپنے کام کے مسائل پر اپنے گھر والوں سے بات نہیں کرتی۔ کبھی کبھی تو جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے۔‘

الطاف حسین، عمر 55 برس

الطاف حسین کا بیٹا پانچ اگست کے حکومتی اقدامات کے ابتدائی دنوں میں مرنے والوں میں شامل تھا۔

عصیب الطاف جو 17 سال کا تھا اس نے اپنے پیچھے بھاگنے والے سیکیورٹی اہلکاروں سے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی تھی۔

ایک سال گزرنے کے باجود حکومتی سطح پر ان کی موت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ جس ہسپتال میں اس کی موت واقع ہوئی انھوں نے بھی موت کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے انکار کر دیا۔

الطاف حسین کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا فٹ بال کھیلنے گیا تھا اور تابوت میں واپس لوٹا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس دن کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی اور اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ مارا گیا۔

’میرے پاس عینی شاہدین موجود ہیں لیکن پھر بھی پولیس مقدمہ درج کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم پولیس سٹیشن کے بعد عدالت میں بھی گئے لیکن کوئی انصاف نہیں ہے۔‘

منیفہ نذیر، عمر چھ سال

منفیہ سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین میں ہونے والی ایک جھڑپ میں پھنس گئی تھیں۔

ان کی دائیں آنکھ میں کوئی چیز لگی۔

’میں کئی دن تک ہسپتال میں رہی لیکن اب مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں ہے۔ میں اپنی سکول کے سبق سب بھول گئی۔ میں سو فیصد نمبر حاصل کرتی تھی۔ جب میری آنکھ ٹھیک ہو گئی تو میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں کیونکہ ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا۔‘

منیفہ کے والد ایک مقامی نیوز ایجنسی میں فوٹو گرافر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی ایک آنکھ مکمل طور پر ضائع ہو گئی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ منیفہ کو انھوں نے سکول سے اٹھا لیا ہے کیونکہ وہ اس کے سکول کی فیس ادا نہیں کر سکتے۔

منیفہ نے کہا کہ وہ دیکھ نہیں سکتیں، انھیں صرف سائے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ 15 دن بعد وہ سکول جا سکیں گی لیکن ایک سال سے زیادہ ہو گیا وہ سکول نہیں جا سکیں۔

فاروق احمد، عمر 34 برس

فاروق احمد کی کہانی غربت سے خوشحالی کی ایک عام کہانی ہے۔

کم عمری ہی سے انھوں نے اپنے خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ وہ سری نگر کے بس اڈے پر ڈرائیوروں کی مدد کر کے روزی کماتے تھے۔

سنہ 2003 میں اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر اور کچھ اپنی بچت کے پیسے نکال کر انھوں نے اپنی بس خرید لی۔

آج اپنے ایک کارروباری شریک کے ساتھ ان کی سات بسیں ہیں جو اب کھڑی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا شعبہ گذشتہ ایک سال سے جاری حالات میں سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں انھوں نے اپنی بسوں کی انشورنش کی تجدید کرائی ہے جس کے لیے انھیں چار لاکھ روپے ادا کرنے پڑے ہیں اور اس دوران آمدنی صفر ہو گئی ہے۔

’میرے ساتھ ورکر پر فاقوں کی نوبت آ گئی ہے لیکن میں ان کے گھر والوں کا خیال کیسے کر سکتا ہوں جب مجھے اپنا گھر چلانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

’میرے جیسے لوگ اپنی قیمتی اشیا بیچ کر کاروبار کرتے ہیں اگر ہماری آمدن نہیں ہو گی تو ہم اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے۔‘

فاروق احمد اب مزدوری کرکے اپنے اخراجات اور اپنے قرضے ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اقرا احمد، عمر 28 برس

اقرا احمد نے فیش ڈیزائننگ کا کام اس لیے شروع کیا تھا کیونکہ وہ چاہتی تھیں کہ ان پر کوئی حکم نہ چلائے۔

انھوں نے کہا کہ وہ کشمیر کی ثقافت کو اپنے کام کے ذریعے فروغ دینا چاہتی ہیں اور اپنے ملبوسات آئن لائن پر فروخت کرتی ہیں۔

انٹر نیٹ پر پابندی لگنے سے ان کا کام ٹھپ ہو گیا ہے اور ٹو جی سے کام نہیں چلتا۔ ان کے گاہک امریکہ، دبئی اور آسٹریلیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ان کے زیادہ تر گاہک کشمیری ہیں لیکن اب وہ ان کے ملبوسات نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ٹو جی پر تصاویر نہیں کھلتیں۔

’مجھے ہر ماہ سو سے ڈیڑھ سو آڈر مل جاتے تھے اب مجھ پورے مہینے میں صرف چھ یا سات ہی آرڈر مل پاتے ہیں۔‘

بین الاقوامی گاہکوں کو آڈر ملنے پر بہت تشویش ہوتی ہے۔ ایک گاہگ نے حال ہی میں انھیں فون کر کے چھ ماہ بعد آڈر بھیجنے پر مبارک باد دی۔ ایک اور گاہک نے انھیں کہا کہ ’دفع ہو جاو‘ کیوں وہ ان کا پیغام کا انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے وقت پر جواب نہیں دے سکیں تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان حالات میں وہ اپنا کاروبار جاری نہیں رکھ پائیں گی کیونکہ ان کے ماہانہ دو لاکھ روپے کے اخراجات ہیں۔ آمدن نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سات ورکروں کواجرتیں ادا نہیں کر پائیں گی۔

بدرد دجا، عمر 24 برس

’قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے میں آئین، جمہوریت کی روح، بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی عملداری کا مطالعہ کرتا ہوں۔ یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ جو قعلے انھوں نے تعمیر کیے ہیں وہ مسمار ہو رہے ہیں۔ ہماری شخصی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں۔ تمام طالب علموں اور اساتذہ کے لیے قانون کی تعلیم ایک مذاق بن گئی ہے۔‘

بدرد دجا اپنے پیشے سے مایوس ہو گئے ہیں۔

‘بات کرنا ہی ایک راستہ رہے گیا تھا کہ آپ دل کی بھڑاس نکال سکیں لیکن اب اس میں بھی خطرہ ہے کہ آپ گرفتار نہ کر لیے جائیں۔

’انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے ساتھ ایک زیر تربیت کارکن ہونے کی وجہ سے میں نے دیکھ کہ ایک شخص کو محض اس لیے پولیس نے گرفتار کر لیا کہ اس نے میڈیا کے کسی نمائندے سے بات کی تھی۔ ‘ہماری روح کو کچلا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شدید مایوسی ہے۔ ہم نے قانون اس لیے نہیں پڑھا تھا کہ جو لوگ اس کی عملداری اور پاسداری کے ذمہ دار ہیں وہ ہی اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔‘ وہ اب کسی دوسرے پیشے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔

منظور بھٹ، عمر 29 برس

منظور بھٹ انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے شعبہ نشر و اشاعات کے سربراہ ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے پر ان کے رشتہ داروں اور ان کے دوستوں نے ان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ اس کی وجہ سے دوزخ میں نہیں جائیں گے۔ اس کے برعکس ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔

‘میرا مقصد پیسہ بنانا نہیں ہے بلکہ دوسروں کی زندگی بہتر کرنا ہے۔ ہمارے نوجوان بندوقیں اٹھا لیتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کشمیر میں جو لوگ مر رہے ہیں میرے بھی بھائی ہیں لیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘

جاوید احمد عمر 35 سال

جاوید احمد سری نگر کی دلکش دل جھیل میں کشتی بان ہیں اور 25 برس سے سیاحوں کو جھیل کی سیر کراتے ہیں۔ اس سے انھیں اچھی آمدن ہوتی تھی اور وہ اوسطً 500 روپے روزانہ کما لیتے تھے۔

اب وہ سبزیاں فروخت کرنے پر مجبور ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں گاہک کہاں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کے سکول کی فیسیں ادا کرنے میں بھی دشواری پیش آ رہی ہے۔

’ہمارا مستقل تباہ ہو گیا ہے۔ سیاح خوف کی وجہ سے نہیں آ رہے۔ یہ کشمیر میں ہر کسی کے لیے بہت مشکل وقت ہے۔ لیکن سیاحت کا شعبہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ حکومت نے ہر کشتی والے کو ایک ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس سے سے بجلی کا بل بھی پورا نہیں ہو گا۔ میں نے سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘

فلاح شاہ، عمر 12 برس

انڈیا کے دوسرے علاقوں میں تعلیم کی بہتریں سہولیات دستیاب ہیں۔ مجھے اس صورت حال کا سامنا ہے کہ میں بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہوں۔ اگر اس مرحلے پر تعلیم سے محروم رہیں گے تو آگے چل کر کس طرح مقابلہ کر سکیں گے۔

’مجھے سائنس اور ریاضی کے سبق سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ انٹر نیٹ بند ہونے کی وجہ سے سوالات کا حل بھی تلاش نہیں کر پا رہا۔ انٹر نیٹ بحال کر دیا گیا ہے لیکن اس کی رفتار انتہائی سست ہے۔

’اگر میں کوئی کتاب کھولتا ہوں اور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ مجھے تو اس کی سمجھ ہی نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ہم جماعت سہیلیوں اور اساتذہ کو یاد کرتی ہیں۔

’میں ایک سال سے گھر سے باہر نہیں نکلی۔ میں ایک جگہ قید ہو کر رہ گئی ہوں۔ اگر کسی اور ریاست میں ایک سال سے لاک ڈاؤن ہوتا تو طلبہ سڑکوں پر نکل آتے۔ لیکن ہم احتجاج کرتے ہیں تو ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔‘

ساجد فاروق، عمر 43 برس

ساجد فاروق ایک ہوٹل چلاتے ہیں اور تین نسلوں سے کارروباری ہیں۔ ان کہا کہنا ہے کہ انہیں بھی کشمیر میں کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔

وہ سنہ 1990 سے جاری ہلاکتوں اور خون ریزی کی بات کرتے ہیں جب کشمیر میں انڈیا کے خلاف مسلح شورش شروع ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ کارروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

‘بجلی میں استعمال کروں یا نہ کروں مجھے ہر ماہ دو لاکھ روپے ادا کرنا ہوتے ہیں۔ دوسرے بل بھی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ حالات بہتر ہوں گے۔ جب کشمیر میں ماتم ہوتا ہے ملک کے دوسرے حصوں میں جشن ہوتا ہے۔ ہر چیز میں سیاست گھس گئی ہے۔ ہر چیز میں جھگڑا ہے ایسے ماحول میں آپ کارروبار کیسے کر سکتے ہیں۔

بلال احمد، عمر 35 برس

بلال احمد کشمیر میں پھل اگاتے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں یہ پھلوں کی باغبانی ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔

انہوں نے کہا کہ ناموافق موسم اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ انہیں اپنی زمین بیچنا پڑ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا اس سال جلد برفباری کی وجہ سے ان کی سیبوں پر خوبانی کی فصل خراب ہو گئی اور اس کے بعد مزدور نہ ملنے کی وجہ سے وہ اپنے باغ پر سپرے بھی نہیں کر سکے جس سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔

’ہم ایک سال سے بےکار بیٹھے ہیں۔ سیبوں کی کاشت سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ مل جاتے تھے لیکن اس سال صرف 30 ہزار روپے ہیں مل سکیں ہیں۔ میرے بھائی نے خوبانی کے بارہ سو بکس کاشت کیے تھے لیکن خریدار نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر پھینکے پڑے۔ اگر صورت حال یہ رہی تو ہمیں زمین بیچنا پڑے گی۔ ہم کیا کریں گے۔ میں نے تو تعلیم بھی حاصل نہیں کی۔‘

محمد صادق، عمر 49 برس

صادق برتن بنانے کا کام کرتے ہیں لیکن ان کے کاروبار کا پہیہ بھی گیا ہے۔

ریاستی حکومت نے حال ہی میں ریت اور بجری نکالنے کا ٹھیکہ کچھ غیر مقامی ٹھیکداروں کو دے دیا ہے جس سے صادق جیسے ہزاروں مقامی لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔

’حکومت نے مٹی کھودنے پر پابندی لگا دی ہے۔ وہ کہتے ہیں ایسا عدالت کے حکم پر کیا گیا ہے لیکن عدالت اس سے پہلےکہاں تھی۔ کیا ججوں کو ہمارے جیسے غریبوں کا خیال نہیں آیا۔ کیا وہ ہمیں بھوکا مارنا چاہتے ہیں۔

’لاک ڈاؤن کو وجہ سے کوئی چیز فروخت نہیں ہو رہی۔ میں نے نئی چیزیں بنانا بند کر دی ہیں اور مزدوری کرنا شروع کر دی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp