تقسیم ہند کا منصوبہ: بل کا مسودہ خفیہ کیوں رکھا گیا؟


دی وائسرائے ہاؤس،
نیو دہلی،
29 جون 1947 ء
محترم جناح

”مجھے امید ہے کہ جلد ہی لندن سے“ ہندوستانی آزادی بل ”کے مسودے کی کاپیاں ملیں گی، جو آئندہ ماہ (برطانوی) پارلیمنٹ میں پیش ہونے جا رہا ہے۔ شہنشاہ برطانیہ نے اتفاق کیا ہے کہ میں اس مسودے کی کاپیاں آپ کو دکھاوں۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے، انھوں نے نشاندہی کی ہے، اشاعت سے قبل، بلوں کے مسودے دکھانا پارلیمانی قواعد کے بالکل خلاف ہے۔

لہذا، حکومت برطانیہ نے اصرار کیا ہے کہ میں اس مسودے کی کاپیاں آپ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے نہیں دوں گا، مجھے یقین ہے کہ آپ اس کی وجوہات کو سراہیں گے۔

میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ اس مسودے کا مطالعہ کرنے کے لیے یکم جولائی، بہ روز منگل، صبح دس بجے، وائسرائے ہاؤس تشریف لائیں۔ میری رائے ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے دو گھنٹے کے لیے الگ الگ کمروں میں بیٹھ کر مسودے کو پڑھنا چاہیے۔

مسلم لیگ کے نمائندے ہر ایکسی لینسی (اہلیہ ماونٹ بیٹن) کے کمرے میں اور کانگریس کے نمائندے میرے اسٹڈی روم میں بیٹھیں گے۔ آپ مسودے کا مطالعہ کرنے کے بعد، اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔ میں پنڈت نہرو، سردار پٹیل، لیاقت علی خان کو بھی مدعو کر رہا ہوں۔

میرا مشورہ ہے کہ مسودے کے مطالعہ کے دوران مسٹر جسٹس رحمان ( جج پنجاب ہائی کورٹ، ممبر بنگال باؤنڈری کمیشن) آپ کو کسی بھی قسم کی مدد فراہم کرنے کے لئے یہاں موجود رہیں، مسٹر محمد علی ( مشیر فنانس، حکومت ہند) کسی بھی معاملے میں بہ طور سیکریٹری موجود ہوں گے۔

میں اسی طرح کانگریس کے نمائندوں کو مشورہ دے رہا ہوں کہ سر بی این۔ راؤ ( مشیر قانون ساز اسمبلی انڈیا ) اور مسٹر پٹیل ( کیبنٹ سیکرٹری، حکومت ہند) کو ان کے لئے دستیاب ہونا چاہیے، میرے اصلاحات کمشنر بھی شریک ہوں گے، جنھیں کسی بھی فریق کی طرف سے کسی نکتے کو واضح کرنے کے لئے طلب کیا جائے گا۔

میں (ماونٹ بیٹن) ، کسی بھی نکتے پر وضاحت کے لیے صبح تک موجود رہوں گا، جس کے بارے میں فریقین یہ چاہتے ہوں کہ اس نکتے کو ہز میجسٹی کے ساتھ مجھے شیئر کرنا چاہیے۔“ ( لارڈ ماونٹ بیٹن، وائسرائے برٹش انڈیا)

تقسیم ہند کے اس مجوزہ مسودے کو خفیہ رکھنے کے لیے مسلم لیگ اور کانگریس پر دباؤ تھا اور جناح صاحب کو اس مسودے کے مندرجات پارٹی کے ساتھ شیئر کرنے سے روکا گیا تھا۔ یہ مسودہ ہندستان کی سیاسی اکائیوں سے خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی اور بالآخر اٹھارہ جولائی کو تقسیم ہند کا قانون برٹش پارلیمنٹ سے منظور ہو گیا، جس میں ہندستان میں دو ریاستوں کے وجود کو ڈومینین سٹیٹس دیا گیا گیا۔

اسی ڈومینین سٹیٹس کے باعث پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور صوبوں میں گورنرز کی تقرریاں بھی برٹش حکومت کی منظوری سے مشروط تھی چنانچہ 30 جون کو ماونٹ بیٹن نے جناح کے نام ایک اور خط میں کہا کہ تقسیم ہند کا قانونی مسودہ برٹش پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے پہلے پاکستان کے صوبوں میں گورنرز کی تقرریوں کے لیے ناموں کو فائنل کرنا ہے اس لیے جناح صاحب یہ نام وائسرائے کو ارسال کردیں تاکہ گورنرز کے ناموں کی منظوری حاصل کی جاسکے۔ جب 4 جولائی کو ہندوستانی آزادی بل پیش ہوا تو اسی روز ماونٹ بیٹن نے جناح کے نام چار خطوط لکھے۔ ایک خط میں گورنرز کی تنخواہوں سے متعلق آگاہ کیا۔ گورنر پنجاب کی تنخواہ ایک لاکھ روپے، گورنر سندھ اور سرحد کی تنخواہ 66 ہزار روپے اور ایسٹ بنگال کے گورنر کی تنخواہ 72 ہزار روپے مقرر کی گئی۔

ماونٹ بیٹن نے 7 جولائی کو جناح کے نام خط میں چار صوبوں میں گورنرز کے نام ارسال کیے، پنجاب کے لئے سر فرانسیس موڈی، سرحد کے لئے سر جارج کننگھم، بلوچستان کے لئے لیفٹیننٹ کرنل ایچ۔ ایم پولٹن، ایسٹ بنگال کے لئے تین نام بھیجے گئے جس میں پہلی چوائس لارڈ کیلیرین، دوسری چوائس سر آرتھر لوتھین اور تیسری چوائس پر جنرل سر ولیم سلم کا نام تھا۔

کانگریس اور مسلم لیگ کو دکھایا گیا مسودہ 4 جولائی سن 47 میں برطانوی پارلیمنٹ میں پیش ہوا، مختصر سی بحث کے بعد دوبارہ 10 جولائی کو تقسیم ہند کے مسودے پر پارلیمنٹ میں بحث شروع ہوئی۔ وزیر اعظم برطانیہ ایٹلی کا تقسیم ہند پر خطاب بھی قابل مطالعہ ہے، اس تقریر سے قبل ہی ماونٹ بیٹن نے تقریر کے بعض منتخب حصے جناح صاحب کو مطالعہ کے لیے فراہم کر دیے تھے۔

برطانوی وزیر اعظم ایٹلی نے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران بتایا کہ تقسیم ہند کے تحت دو ڈومینین وجود میں آئیں گی اور یہ دونوں ڈومینین برٹش کامن ویلتھ کی ممبرز ہوں گی، ایٹلی نے پارلیمان میں بتایا کہ زیر بحث بل کی منظوری کے لیے بہت قلیل وقت ہے، ایٹلی نے اعتراف کیا کہ اس بل پر ہم نے کانگریس اور مسلم لیگ کی رائے نہیں لی۔ اس تقریر کا مکمل متن آج بھی برٹش پارلیمنٹ کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔

ماونٹ بیٹن اور جناح صاحب کے درمیان پاکستان کی حکومت کے خد و خال اسی ڈومینین حیثیت کی وجہ سے طے کیے جا رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ حکومتی عہدیداروں کے ناموں کی منظوری برطانیہ سے حاصل کی گئی۔ برطانوی پارلیمنٹ میں کنزرویٹو پارٹی کے سربراہ سر ونسٹن چرچل نے 21 جولائی کو وزیر اعظم ایٹلی کے نام ایک خط لکھا:

”مجھے اب ہندوستان میں ممکنہ آباد کاری کی شرائط پر اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کا موقع ملا ہے جو آپ اور وائسرائے نے کل رات ہمارے سامنے پیش کیا۔ اس کے نتیجے میں میں آپ کو یہ یقین دلانے کی پوزیشن میں ہوں کہ اگر ان شرائط کو بہتر بنایا گیا ہے، تاکہ ایک منقسم ہندوستان کے متعدد حصوں کے لئے تسلط کی حیثیت (Dominion Status) کو موثر طور پر قبول کیا جاسکے، تو ہندستان میں اپنے تسلط کو قائم کرنے کے لیے ہونے والی ضروری قانون سازی میں کنزرویٹو پارٹی حکومت کی معاونت کرے گی“ ۔ بحوالہ برٹش آرکائیوز

تقسیم ہند کے برطانوی منصوبے پر سوویت یونین ( روس ) کی جانب سے 31 جولائی 1947 ء میں دیے جانے والا رد عمل ملاحظہ کیجئے :

”برطانوی منصوبے پر عمل درآمد ہندوستان کی سیاسی اور معاشی کمزوری کا باعث ہوگا، اس منصوبے سے مصنوعی طور پر صنعت کو زرعی علاقوں سے الگ کر کے، برطانیہ ہندستان کی معاشی زندگی کو درہم برہم کرے گا، اور اس خطے کو زرعی معیشت پر جامد کرنے اور خام مال کے پیش نظر یہ منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر ملک کو توڑنا، انفرادی قوموں، قومیتوں کے مفادات کے لیے سوچے سمجھے بغیر، اس منصوبے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین اختلافات کو گہرا کرنے اور تازہ تنازعات کا خطرہ پیدا کرے گا۔

یہ تقسیم، ہندستان کے شہزادوں کی جاگیردارانہ طاقت کو متاثر نہیں کرے گی، جنھوں نے ہمیشہ برطانوی تسلط کی حمایت کی ہے۔ ہندستان کی سیاسی تعمیر نو کا یہ منصوبہ تقسیم کی شکل میں، ہندستانیوں کی وسیع پیمانے پر عوامی امنگوں کی تاریخی اعتبار سے عکاسی نہیں کرتا، اور ان کے اہم مطالبات کو بھی پورا نہیں کرتا۔ بلکہ تقسیم کا یہ منصوبہ صرف ایک ہی مقصد کے حصول میں ہے یعنی برطانوی سامراج کے مفادات کا دفاع کرنا“۔ بحوالہ برٹش آرکائیوز

برطانیہ نے تقسیم ہند کے منصوبے کا پہلا اعلان تین جون کو کیا تھا تاہم امریکا میں 28 فروری 1947 ء میں ہی تقسیم ہند کے برطانوی منصوبے پر یوں رد عمل ہوا:

”ہندستان میں کسی نئے آئین پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے یا نہیں، ایٹلی کا یہ اعلان انتہائی اہم ہے کہ برطانیہ ہندستان سے دستبرداری کے لیے پر عزم ہے، یہ اعلان انقلاب زدہ یورپ اور پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ باعث حیرت ہے۔ ایک نئی قوم، جس کی صلاحیتوں کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے، جو ایک ایشیاء میں ابھر رہی ہے، جو یقینی طور پر دنیا کے مستقبل کے لیے ایک ڈھال کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ ایٹلی متحدہ ہندوستان کا قائل نہیں ہے، جیسا کہ حقیقت میں غور کیا گیا تھا۔

واضح طور پر ہندستان کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایک ہندوؤں کے ماتحت ہندستان، مسلمانوں کے زیر انتظام الگ ریاست اور بکھری ہوئی شاہی ریاستیں، جب تک اس کے متعدد دھڑے مرکزی حکومت کے ساتھ ایک ہندستانی کنفیڈریشن کے آئین پر کوئی معاہدہ نہیں کرلیتے، ہندستان کا آئندہ یہی حکومتی نقشہ ہوگا“۔ بحوالہ برٹش آرکائیوز

برطانوی ایمپائر نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر، ڈومینین سٹیٹس کے تناظر میں دونوں ریاستوں کو کامن ویلتھ نیشنز میں شامل کیا، کامن ویلتھ نیشنز کے تحت پاکستان کو ابتداء میں کنٹرول کیا گیا۔ برٹش ایمپائر کی گرفت کو مضبوط رکھنے کے لیے بالفور ڈیکلیریشن کے ذریعے 1926 ء میں ڈومینین ریاست کا تصور پیش ہوا جسے بعد میں 1931 ء میں کامن ویلتھ نیشنز کے قیام سے عملی جامہ پہنایا گیا۔ کامل آزادی کا قائل نہ ہونے کی بناء پر برطانیہ ڈومینین سٹیٹس کا حامی تھا، یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے قانون میں دونوں ریاستوں کو ڈومینین سٹیٹس دیا گیا۔ اگر برطانوی حکام مسودہ ہندستانی عوام کے سامنے پیش کر دیتے یا کانگریس اور مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کو یہ مسودہ شیئر کرنے کی اجازت دیتے تو مزاحمت کے غالب امکانات تھے۔
مذکورہ تحریر اکمل سومرو کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).