مرد کی آنر کلنگ آخر کیوں نہیں؟


رب کائنات!

کیا مجھے دیکھ رہا ہے تو؟

کیا میری اذیت بھری سسکیاں پہنچ رہی ہیں تم تک؟

ماں تو ہے نہیں جسے میں اپنا ریزہ ریزہ جسم دکھاؤں۔ باپ بھی کچھ برس پہلے داغ مفارقت دے چکا کہ جس سے لپٹ کے میں اپنے دل کا حال کہوں۔

تین معصوم بھائی جو زمانے کی کھٹنائیوں سے انجان اپنی آپا کو ہر دکھ کی دوا سمجھتے ہیں، کیا سمجھیں گے بھلا؟

سنا ہے کہ تو شہ رگ سے بھی قریب ہے اور ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے۔ تو پھر سن میرا حال، میں تجھے وہ سب بتانا چاہتی ہوں جس نے مجھے دنیا کے بازار میں کرچی کرچی کر دیا۔ جانتی ہوں کہ اب کچھ بھی نہیں جڑ سکتا چاہے اشکوں کا سمندر بہا دوں۔

 کیا تو نے وہ سب کچھ دیکھا جو تیری زمین پہ، تیرے نام پہ لئے ملک کے ایک شہر راولپنڈی کے ایک علاقے سید پور میں ایک سڑک پہ، تیرے خلق کیے ہوئے آدم زادوں نے میرے ساتھ کیا؟ انہوں نے نہ صرف میرے لباس بلکہ میرے تن اور میری روح کو بھی تار تار کر دیا۔ کیا اس شام تو آسمانوں سے پرے کہیں موجود تھا جب تیرے نام لیواؤں نے میرے عریاں جسم کو روندنے کے ساتھ ساتھ اس وحشت بھرےکھیل کی فلم بھی بنا ڈالی؟

میں جب بھی کسی تعفن کے ڈھیر کے پاس سے گزرا کرتی تھی، بہت سے آوارہ کتے اس انبار میں کسی جانور کی مردہ لاش کو بھنبھوڑ رہے ہوتے۔ کچھ ان میں سے بچی کچھی ہڈیوں کو چچوڑ رہے ہوتے۔ میں ان کے نوکیلے دانت دیکھ کے خوفزدہ ہو کے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیتی۔ مجھے ان کتوں کی وحشت ہراساں کرتی اور میں سوچتی یہ کیسی بھوک ہے جو کسی کی آنکھ بند ہوتے ہی عود کر آتی ہے اور اپنے ہم جنس ہی بدن کے رگ وریشے ادھیڑ ڈالتے ہیں۔

لیکن میں، میں تو مردہ لاش نہیں تھی، پھر میرے نصیب میں وہ تعفن کا ڈھیر کیوں لکھا گیا؟ جہاں ان سگ نما عامر قریشی، ارسلان اکرم اور محسن اکرم نے میرے جسم کو بھنبھوڑنے اور چچوڑنے میں ان کتوں کو بھی مات دے دی!

میں تو قسمت کے اس پھیر کا شکار تھی جہاں ماں باپ کے خیر باد کہہ جانے کے بعد تین ننھے منے بھائیوں کے پیٹ کا جہنم سرد کرنے کی فکر میرے ساتھ دن رات چلتی تھی۔ سمجھ سے باہر تھا کہ زندگی کو سہل کیسے کروں؟ سترہ برس کے سن میں، میں ستر برس کی بڑھیا بنی کچھ یتیموں کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہلکان ہوئی جاتی تھی۔ خبر نہیں تھی کہ کسی دن کچھ سگ نما انسانوں کی بھوک کا نشانہ بنوں گی۔ سرعام، تعفن کے اس ڈھیر کے قریب، جہاں کتے اپنے مردہ شکار کو بھنبھوڑنا اور چچوڑنا بھول کے حیران بھری نظروں سے تکتے تھے اور نوحہ کناں ہوتے تھے کہ انسانیت کس قعر مذلت میں آ گری تھی۔

میں زخم زخم ہوں! میرے جسم پہ ہر طرف نشان ہیں، نوکیلے دانتوں کے نشان! میں اذیت کی ایک ایسی منزل پہ ہوں جہاں میرا ہر سانس مجھ پہ بھاری ہے۔ درد بھری ٹیسیں مجھے کچھ سمجھنے نہیں دیتیں اور مجھے سمجھ بھی نہیں آتی کہ مجھے کس جرم کی سزا ملی ہے۔ شاید تمہیں پتہ ہو کہ کیا جرم تھا میرا؟

کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ کیا تو جانتا ہے کہ جب میں اس نچی ہوئی حالت میں بنی پولیس سٹیشن میں قانون کے محافظوں کے پاس پہنچی تھی تو وہ بھی اس وقت وردی پہنے ہوئے ویسے ہی مرد تھے جن کی نظر میں، میری مظلومیت اس قابل نہیں تھی کہ میری داد رسی ہو سکتی۔ مجھے بغیر کسی شنوائی کے وہاں سے لوٹا دیا گیا تھا۔ میں اس شہر نما جنگل میں جہالت کے بورے میں حنوط مردوں کے بیچ ماری ماری پھر رہی تھی اور میرے سر پہ ہاتھ رکھنے کو کوئی تیار نہیں تھا۔

کچھ روز گزرنے کے بعد قانون کے نیم مردہ جسم نے اس وقت انگڑائی لی جب سوشل میڈیا پہ میرا فریاد کرتا جسم دیکھ کے لاکھوں گدھ نما مردوں نے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر لیں۔ ان تین وحشیوں کے بناۓ ہوئے وڈیو کلپ میں وہ تاریک شب میری دہائی، بے بسی اور میرے عریاں جسم کی گواہ بن گئی۔

میرا بے کسی کا فسانہ سن کے کچھ اہل دل تڑپ اٹھے اور تب بنی پولیس سٹیشن میں بیٹھے نام نہاد قانون کے اہلکاروں کو اپنا فرض یاد آ گیا۔ انہیں کچھ دن پہلے سٹیشن آنے والی وہ سترہ برس کی زخمی لڑکی یاد آ گئی جو ان گھاگ مردوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی کہانی سناتی تھی اور وہ کان نہ دھرتے تھے۔ عورت کی عزت اور عورت کا جسم کہاں اہم ہوا کرتا ہے؟

اس کے بعد وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ عامر قریشی کی گرفتاری ہوئی، لیکن کچھ گھنٹوں کے لئے۔ انصاف نامی فرسودہ نظام میں بھی کچھ نابینا موجود تھے جن کے پاس میری آہوں، میری سسکیوں، میری التجاؤں اور میرے مضروب جسم سے اٹھتی درد کی ٹیسوں کا جواب، عامر کی ضمانت کی منظوری پچاس ہزار مچلکے کے عوض تھی۔ ارسلان اکرم اور محسن اکرم کی ضمانت قبل گرفتاری منظور کر لی گئی۔

میں اب صرف ایک بات سوچتی ہوں۔ وہ جانور جنہوں نے مجھے نوچا اور کھسوٹا، وہ قانون کے محافظ جنہوں نے میری فریاد کو درج کرنے سے انکار کیا، وہ تمام تماشبین جنہوں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے فون میں میری بے بسی کی داستان دیکھی، وہ باپ بھائی جنہوں نے مجرموں کی ضمانت کا بندوبست کیا، وہ انصاف بانٹنے والے نام نہاد منصف جنہوں نے ضمانت کو قبول کیا، کیا ان سب کے گھروں میں کوئی سترہ برس، یا کوئی پندرہ برس یا کسی بھی عمر کی بہن یا بیٹی پائی جاتی ہو گی کیا؟

 کیا مجھے دیکھ کے کسی کو اپنی عذرا، اپنی شگفتہ، اپنی زارا یا اپنی مریم یاد نہیں آئی ہو گی؟ کیا اس دن گھر پہنچ کے عدالت کے منصف نے اپنی کم عمر بیٹی کو لپٹاتے وقت میرے متعلق سوچا ہو گا؟ کیا میرے روندے جانے اور فلم بنا کے عام کرنے کی کہانی اتنی ارزاں تھی کہ منصف صاحب انصاف کے تقاضے پورے نہ کر سکے اور ان درندوں کو سلاخوں میں محصور کرنے کی بجاۓ پھر کسی اور کو شکار کرنے کے لئے چھوڑ دیا؟ کیا ان کے ذہن میں یہ سوچ در آئی ہو گی کہ سترہ برس کی عمر میں وقت کے اس پھیر میں، میں ہی کیوں انگار ہوئی ؟ ان کے گھروں میں پائی جانے والی بہن یا بیٹی کیوں نہیں ؟ کیا وہ رہا کیے جانے والے بھیڑیے ان کے محل تک نہیں پہنچ سکتے؟

میرا ایک سوال اور بھی ہے۔ کیا اس دنیا کے ضابطوں میں صرف عورت کو عزت کے نام پہ قتل کیا جاتا ہے؟ وہ سب مرد جو میرے جسم سے کھیلے، اور پھر بھی سر بلند کیے معاشرے میں دندناتے پھر رہے ہیں ان کی آنر کلنگ کیوں نہیں؟ ان کے باپ بھائی کی بے داغ پگڑی پہ کیا کوئی نشان نہیں لگا جسے وہ ان کے لہو سے دھونا چاہیں؟ پچاس ہزار کے مچلکے بھرتے ہوئے باپ بھائی کی بزدلانہ خاموشی مجرموں کے جرم سے کسی طور کم ہے کیا؟

کیا ان کی ماؤں بہنوں کو علم ہوا ہو گا کہ ان کے سپوت اور بھائی کیا گل کھلا کے آئے ہیں؟ کیا میرے جسم کی وائرل ہوتی وڈیو ان تک پہنچی ہو گی؟ کیا ان عورتوں کی تمام حسیات بھی مردہ ہو چکیں؟ کیا وہ سمجھ چکیں کہ عزت کو داغ صرف عورت کے ہاتھوں لگا کرتا ہے اور آنر کلنگ میں لہو بھی صرف عورت کا بہا کرتا ہے۔ عورت کو سزا سنانے میں تو پنچایت ایک لمحے کو توقف نہیں کیا کرتی۔

کیا ان مردوں کے گرد بسنے والے سماعت و بصارت سے بے بہرہ لوگ ہیں کہ کہیں سے احتجاج کا ایک فقرہ بلند نہیں ہوتا۔ کسی گھرانے کا حقہ پانی بند نہیں ہوا کہ ان کے سپوت نے ایک بے بس لڑکی سے بربریت کا کھیل کھیلا۔ کیا محلے کی مسجد کے ملا نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی؟ کیا منبر سے ازواج مطہرات کی شان کے قصے بیان کرنے والے کو سترہ برس کی لڑکی پہ ہونے والا ظلم نظر نہیں آیا؟

مجھے علم ہے کہ کہیں کچھ نہیں ہو گا۔ یہ بھی جانتی ہوں میرے سوالوں کا جواب نہ تو دے گا اور نہ ہی یہ مردہ عدالتیں۔ نہ کسی کو سزا ہو گی، نہ معاشرے کا چلن بدلے گا۔ عورت کے وجود کی حقیقت وہی رہے گی، ارزاں، ہر طرح سے برت کے دھتکاری جانے والی۔

ہر طرف سے سنگ بار ہو کے میری ایک آرزو ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ اس معاشرے کے سب سرکردہ، سب نیک نام، سب طاقتور، سب مذہبی پرچاریے، اور وہ سب بھی جو احتجاج کرنے کی بجائے منہ پھیر لیتے ہیں، وہ میرے جسم پہ فلمائی ہوئی، میری بے بسی کی کہانی ایک دفعہ اپنی بہن، بیٹی، ماں اور بیوی کے ہمراہ بیٹھ کے دیکھ لیں۔

 شاید سوئے ہوئے بے حس معاشرے میں میری تذلیل دیکھ کے شرم کی کوئی رمق دوڑ جائے۔ شاید اپنے پروں میں چھپائی عورت کے پہلو میں بیٹھ کے یہ گھناؤنی فلم دیکھتے ہوئے احساس ہو جائے کہ عورت چاہے اپنی ہو یا پرائی، اس کی عصمت اور عزت کا پیمانہ ایک جیسا ہی ہوا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).