فطرت کا تحفظ اور کاربن ٹیکس


تحریر: ڈاکٹر محمد زمان
(ترجمہ: سعدیہ اسلم)

پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، آج ہر تیسرے فرد کے پاس اپنی ذاتی گاڑی یا موٹرسائیکل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہو چکا ہے جبکہ 2030 تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجوہات متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جس کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل با آسانی مل جاتی ہے۔

ایسائز دفتر کے مطابق اسلام آباد میں ہر روز 50 سے 60 موٹرسائیکل، 90 سے 100 گاڑیاں، 4 سے 5 کمرشل گاڑیاں جبکہ 10 سے 15 سرکاری گاڑیاں رجسٹر ہوتی ہیں جو ٹریفک میں مزید اضافہ کر رہی ہیں۔ جبکہ تقریباً ہر مہینے 6000 گاڑیاں ہر مہینے رجسٹر ہوتی ہیں اس کے علاوہ ٹیکس آفس میں 200 گاڑیاں کچھ وجوہات کی بنا پر موجود رہتی ہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کل 183، 52500 گاڑیاں موجود ہیں، جن میں دو سے تین پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد 135، 38200 ہے جبکہ چار پہیوں والی گاڑیوں کی تعداد 2835400 ہے۔ اگر ان بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد کو کم نا کیا گیا تو خطرہ ہے کے پاکستان میں حادثات کی شرح میں اور تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول، ڈیزل و گیس جل کر کیمائی مادوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جلے ہوئے انجن سے خارج ہونے والی گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ جو بلاواسطہ طور پر انسانی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ جس سے انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے کہ دمہ، دل کی بیماریاں اور سانس و پھیپھڑوں کے مسائل سر فہرست ہیں۔ پچھلے دو تین سال سے پاکستان کے بڑے شہروں میں گاڑیوں کے دھوئیں کی وجہ سے اسموگ کا تناسب بڑھ چکا ہے جس سے سانس لینے میں دقت درپیش ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب کے دیگر شہروں میں اسموگ کی وجہ سے معاشی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنا پڑتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود بھی پاکستان میں کسی نے بھی ماحولیاتی آلودگی کو اہم سمجھنے کی کوشش نہیں کی ہے۔

Dr. Muhammad Zaman

اس کے علاوہ ماحول کو آلودہ کرنے والے عوامل میں صنعتوں و کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں ماحولیاتی آلودگی کی ایک بڑی وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں کچھ مسائل کی وجہ سے کارخانوں میں سرگرمیاں اکثر زوال کا شکار رہتی ہیں۔ ان کارخانوں سے پیدا ہونے والے باقیات و فضلہ کو بہتر جگہ ٹھکانے لگانے کے انتظامات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ فصل پکنے کے بعد بچنے والے باقیات کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے جس سے زرعی پیداواری میں اضافہ ہونے کے امکانات ممکن ہیں لیکن اکثر کسان فصلوں سے بچنے والے باقیات کو جلا دیتے ہیں جس سے بھی ماحول کو متاثر ہوتا ہے۔

جیسے کے جرمنی سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظم منظم اور بہترین ہے جہاں لوگ اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کیا جائے تو اس سے سڑکوں پر بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی۔ اگر چار سے پانچ لوگ ایک ہی جگہ جانے کے لئے الگ الگ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں تو اس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی جبکہ اس ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے آسان حل یہی ہے کے چار سے پانچ افراد ایک ہی گاڑی میں سفر کریں جس سے نہ صرف زہریلے مادوں کے اخراج میں کمی ہو گی بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی میں کمی ہو گی جس سے کم رش کی بدولت منزل پر بآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔

مزید برآں، 1965 کا موٹر وہیکل آرڈیننس بہت پرانا ہو چکا ہے جس میں ترمیم کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے اداروں کو ایسا قانون پاس کروانا ہوگا جہاں تمام صوبوں میں کاربن کے اخراج کے قانون کو لاگو کرنے کا عندیہ دیا جائے تا کہ پاکستان کو آلودگی سے صاف و شفاف ملک بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پرانی گاڑیوں میں جدید انجن کی اپ گریڈیشن پر پالیسی متعارف کروانی ہوگی جس سے عام آدمی پر زیادہ بوجھ نہیں پڑ سکے گا۔

اس کے علاوہ وہ گاڑیاں جو 10 سے 15 سال کے زائد عرصہ کی ہو چکی ہیں ان کے لائسنس کا منسوخ کرنا چاہیے کیونکہ اکثر پرانی گاڑیاں زیادہ زہریلا دھواں پھیلاتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی میں بڑھتے ہوئے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت کو چاہیے کے وہ ماحول کو آلودہ کرنے والی گاڑیوں سمیت دیگر عوامل پر بھاری ٹیکس عائد کرے جس سے پاکستان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے گا، اس کے علاوہ ماحول میں آلودگی کی شدت میں کمی واقع ہو سکے گی۔ کیونکہ یہ لوگ ماحول کو آلودہ بنا رہے ہیں اور اس کا ہرجانہ وصول کرنا وقت کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو بھی ہوتے ہیں۔

زہریلے مادوں کے اخراج کے خاتمے کے لئے ہمیں حکومت کے ساتھ مل کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تا کہ آنے والی نسلیں ماحولیاتی آلودگی سے بچ سکیں، اگر ہم نے بروقت فطرت کا تحفظ نا کیا تو فطری آفات کے شکنجے میں جکڑے جائیں گے اور اس کی موجود مثال ہمارے سامنے ہے۔

لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی آف اسلام آباد کے شعبہ سماجیات کے چیئرمین ہیں، وہ پاکستان میں سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں. وہ سماجی مسائل کی نشاندہی کرنے کے علاوہ ان کے حل کی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).