اپوزیشن کا رویہ اور اس کے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر اثرات


سابق صدر آصف علی زرداری پر احتساب عدالت نے پارک لین ریفرنس میں فرد جرم عائد کر دی ہے۔ احتساب عدالت اسلام آباد میں ہو نے والی سماعت میں آصف زرداری بلاول ہاؤس کراچی سے ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے جب کہ دیگر ملزمان کی بھی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگائی گئی۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ میرے وکیل آج سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، آج مجھ پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ جج نے کہا کہ دو سادہ سے سوالات ہیں انگلش میں، آپ وہ سن کر جواب دے دیں، جس پر آصف زرداری نے کہا کہ آپ اپنے آرڈر میں یہ ضرور لکھیں کہ وکیل کی غیر موجودگی میں مجھ پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ یہ سب سیاسی بدنامی کے لیے ڈرامہ رچایا جا رہا ہے، میں نے پاکستان کو اٹھارہویں ترمیم دی اس لیے یہ مقدمات بنائے جا رہے ہیں، مجھ پر دبا ڈالنے کے لیے یہ کیس بنائے جا رہے ہیں۔ جج احتساب عدالت نے جواب دیا کہ اسی لیے ہم نے یکم ستمبر کو گواہوں کو بلایا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ پارک لین ریفرنس کی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے 61 گواہوں کی لسٹ احتساب عدالت میں پیش کی گئی۔ گواہ احسن اسلم کمپنی رجسٹریشن آفس کے جوائنٹ رجسٹرار ہیں، گواہ نبیل ظہور نیشنل بینک کے کارپوریٹ بینکنگ گروپ کے سربراہ ہیں جب کہ گواہ عبدالکبیر کا تعلق سمٹ بینک کی کریڈٹ ڈویژن سے ہے۔

احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے آصف زرداری کو پارک لین ریفرنس میں الزامات کی فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ آصف زرداری پر عائد فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ آپ نے بطور صدر پاکستان اثر انداز ہو کر قرض کی رقوم فرنٹ کمپنیوں کو جاری کروائیں، آپ نے بدنیتی سے اپنی فرنٹ کمپنی پارتھینون کو ڈیڑھ ارب روپے کا قرضہ دلوایا۔ فرد جرم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ پارک لین کمپنی کے ڈائریکٹر تھے اور جعل سازی کا منصوبہ بنایا، آپ نے فراڈ سے حاصل ہونے والی رقم اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کی، یہ رقم جعلی بینک اکاؤنٹس میں بھجوائی گئی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے پارک لین ریفرنس میں عائد صحت جرم سے انکار کیا۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قیادتوں کو اب یہ بات ضرور یاد آتی ہو گی کہ ملک میں دھاندلی زدہ الیکشن کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے اسمبلی کا حلف اٹھا کر انہوں نے فاش سیاسی غلطی کی تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ غیر شفاف الیکشن میں بدترین دھاندلی کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی کا حلف نہ اٹھایا جائے۔ لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کئی باہمی اجلاسوں کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اسمبلی کا حلف اٹھانے کے اعلان کیے کہ ”ملک کا سسٹم“ چلتا رہے۔

ملک کی دونوں بڑی اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو حکومت کے ہاتھوں احتساب کے نام پر بدترین سیاسی انتقامی طور پر تادیبی کارروائیوں کے شکنجے میں کس دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کی داعیت کی دعویدار ان دونوں سیاسی جماعتوں کی طرف سے واضح طور پر نظر آیا کہ انہوں نے ملک کے موجودہ نظام اور طریقہ کار کو تسلیم کرتے ہوئے مفاہمت کی راہ اپنائی ہے۔ لیکن یہ مفاہمت کی راہ وزیر اعظم عمران خان حکومت کے حوالے سے نہیں بلکہ ملکی مقتدر قوت کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے ملک پہ مسلط موجودہ طریقہ کا رکو بھی قبول کیا ہے۔ دونوں اپوزیشن جماعتوں کی قیادتوں کو یہ ضرور یاد آیا ہو گا کہ اسی سسٹم کے چلتے رہنے کے لئے انہوں نے الیکشن نتائج کو تسلیم کرنے اور اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان حکومت بڑی چابک دستی سے دونوں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو احتساب کے نام پر اتنا دبا چکی ہے کہ اپوزیشن قیادتیں مقتدر قوت کی بالادستی کے سامنے ”کورنش“ بجا لاتے محسوس ہوتی ہیں۔ حکومت کبھی ایک اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کو تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہے۔ ایک اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کو سزایاب کرتے ہوئے حکومت دوسری اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کو اوسان بحال کرنے کا وقت دیتی ہے اور اس کے بعد دوسری اپوزیشن جماعت کے رہنماؤں کو مشق ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو تادیبی کارروائیوں سے مجبور اور کمزور کرنے کے حکومتی رجحان میں اس وقت بھی شدت آتی ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان حکومت کو یہ نظر آتا ہے کہ دونوں اپوزیشن جماعتوں کی قیادتوں کا مقتدر قوت کے ساتھ رابطے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور مرکزی رہنماؤں کے خلاف احتساب کے نام پر تادیبی کارروائیوں میں سختی آئی تو میاں محمد نواز شریف جیل میں ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کی بالادستی اور ووٹ کی عزت کے بیانئے پر ڈٹے رہے، مریم نواز کی جیل میں قید کے باوجود مسلم لیگ (ن) پر نواز شریف کا بیانہ عوامی حمایت کے اظہار کے ساتھ نمایاں رہا۔ پھر ہوا یہ کہ نواز شریف صاحب علاج کے لئے لندن چلے گئے۔ میاں نواز شریف کی طرف سے سیاسی بیانات کا سلسلہ ختم ہو گیا اور مریم نواز نے گوشہ نشیں ہوتے ہوئے سیاسی بیانات سے مکمل گریز شروع کر دیا۔

اب یہ بات حرف عام ہے کہ شہباز شریف مقتدر قوت کے حوالے سے حکومت میں لائے جانے کے امکان کے تناظر میں لندن سے واپس آئے۔ اب مسلم لیگ (ن) پر میاں شہباز شریف کا کنٹرول ہے اور انہی کا مقتدر قوت کے ساتھ تعاون اور مفاہمت سے چلنے کا بیانیہ بھی جماعتی پالیسی کے طور پر نمایاں ہے۔ اپوزیشن جماعتیں سختیاں اٹھانے کے باوجود اپنی موجودہ حکمت عملی سے شاید اپنے لئے آئندہ حکومت میں آنے کے امکانات تلاش کر رہی ہوں لیکن اس طرز سیاست کو عوام کی طرف سے پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ جھک جانے، تسلیم کر لینے، موجودہ سسٹم کو قبول کرتے ہوئے تابعداری کے روئیے کا اظہار دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی عوامی ساکھ پر اثر انداز ہو رہا ہے۔

جنرل ایوب کی بے لگام طاقت کو دس سال انیس دن کی حکومت کے بعد جانا پڑا۔ جنرل ضیا ء الحق کو 11 سال ایک مہینہ اور 12 دن کی حاکمیت کے بعد رخصت ہونا پڑا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کو فوجی بغاوت سے حاصل ہونے والے اقتدار کے 8 سال 10 ماہ اور 6 دن بعد نہ صرف رخصت ہونا پڑا بلکہ ان کے خود ساختہ طرز حاکمیت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ یوں پاکستان میں گزشتہ چند سال سے رائج نظام کی مدت بھی محدود ہے۔ ملک کے پر شعبے میں غیر آئینی حاکمیت کے نظام کی مدت محدود ہونے کی ایک بڑی نشانی یہ بھی ہے کہ ہر شعبہ ہائے زندگی کو جبر اور سرکاری بیانئے کے سامنے سر تسلیم کیے جانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اب تک ملک میں جبر اور ظلم پر مبنی نظام کی مدت کا ریکارڈ جنرل ضیاء حکومت کے 11 سال کا عرصہ ہے۔

پارلیمنٹ اور ملک کی تقدیر پر حاوی اس نظام کے قیام کو ابھی چند ہی سال ہوئے ہیں۔ بقول شاعر ”دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے“ کے مصداق کہ کب تک ملک اور عوام کی قیمت پر یہ نظام مسلط رکھ پاتے ہیں۔ جنرل ایوب کے عہد اقتدار کے نتائج کا خمیازہ مشرقی پاکستان کے سقوط کی صورت نکلا، جنرل ضیاء الحق کے نظام حکومت کے ”ثمرات“ ملک اور عوام اب تک بھگت رہے ہیں اور جنرل مشرف کے نظام حکومت نے ملک کو کئی سنگین خطرات اور نقصانات سے دوچار کرتے ہوئے ملک کے ہر شعبے کو مفتوح کرنے کی حکمت عملی کا تحفہ دیا ہے۔ اب مملکت پاکستان جبر، زور زبر دستی پر مبنی مسلط ملکی سسٹم کے کن کن تباہ کن اور ہولناک نقصانات سے دوچار ہو سکتا ہے، اس کے خدو خال واضح ہوتے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).