اور میری آنکھ کھل گئی


یہ میرا خواب تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اتنا مطمئن اور پرسکون خواب میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

میرے خواب بھی نا ہمیشہ سے ہی کچھ اول جلول سے ہوتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرے کچھ خواب ریپیٹ ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں بار بار وہی۔ یعنی کہ حد ہی ہو گئی۔ کبھی پہاڑ سے گر رہی ہوں تو کبھی کھنڈرات میں بھٹک رہی ہوں نہ جانے کس کی تلاش میں، تو کبھی ندی میں بہی جا رہی ہوں، اور کچھ نہیں تو پنکھا گر جاتا ہے مجھ پہ۔ ۔ ۔ لا حول ولا قوة الا باللہ پڑھ کر کروٹ بدلی اور بس یونہی پوری رات کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔ چند راتیں سکون کی پھر وہی خواب۔ بندے نے خواب دیکھنا ہے تو کچھ اچھا دیکھے، مزے مزے کا چٹخارے دار دیکھے۔

آسرا وہ بھی بس ایک خواب کا۔ خواب تو دیکھیے محبت کا (فراق سے معذرت کے ساتھ) ۔
اور سچ پوچھیے تو آج کل زندگی ایک خواب سی ہو گئی ہے یا خواب ایک زندگی ہو گئی ہے اور خواب بھی ایک دیوانے کا۔

آغاز
بسم اللہ الرحمن الرحیم سے۔
اے یارو! اس فقیر کا ٹک ماجرا سنو!
میں ابتدا سے کہتا ہوں تا انتہا سنو!
جس کا علاج کر نہیں سکتا کوئی حکیم
ہے گا ہمارا درد نپت لا دوا سنو!
اب آغاز قصے کا کرتی ہوں، ذرا کان دھر کر سنو اور منصفی کرو۔ ۔ ۔

دنیا میں رعیت آباد، خزانہ معمور، امیر آسودہ، ایسے چین سے گزارا کرتے اور خوشی سے رہتے کہ ان کے گھر میں دن عید، اور رات شب برات تھی۔ غریب غرباء بے سکون، چور بازاری کا بازار گرم تھا، ڈکیت دندناتے تھے دھڑلے سے۔ ۔ ۔

کے اچانک ایک معصوم سا، حد درجہ رنگین، صاف چھپتا بھی نہیں سامنے آتا بھی نہیں۔ لیکن اس زعم سے کہ وہ انگلی پہ دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے عظیم سیانوں کو ”تک دھنا دھن“ نچا لے گا آ گیا۔

کیا کہا جائے تخلیق اس خدائے بزرگ و برتر کی۔ عوام کا واویلا، حکمرانوں کا ہوا دل میلا، اپنی اپنی انگلیاں دانتوں میں دابنے لگے کہ کیا بلا ان پر مسلط ہوئی؟ پر کسو کی عقل کام نہیں کرتی۔

اس درد دل سے موت ہو یا دل کو تاب ہو
قسمت میں جو لکھا ہو الٰہی شتاب ہو

اب عرض کیا کروں کہ پندرہ دن بیس ہوئے، بیس مہینہ بنا، مہینے چار گزر گئے اور سکون سے گھر بیٹھنے کی رحمت ہوئی زحمت۔ ۔ ۔ کوئی بیوہ، کوئی رنڈوا کوئی یتیم ہوا۔ دنیا میں سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ ٹھہرا۔ مثبت منفی ہوا، منفی مثبت ٹھہرا۔ ۔ ۔ دنیا ہوئی اتھل پتھل، رسم حجاب ایسی ہوئی خواتین پر ہی موقوف نہیں مرد بھی بانقاب ہوئے۔ سبحان اللہ۔ اب کریں تو کیا کریں سب کے ہوئے اوسان خطا اور میں بندہ گنہ گار تقصیر وار اب کیا کہوں۔

جاگ رہی ہوں یا خواب ہے، خواب ہے یا عذاب ہے۔ میں بھاگی جا رہی ہوں آگے آگے اور کرونا پیچھے پیچھے۔ جانے کب تک میرا یہ نیا انوکھا خواب ریپیٹ ٹیلی کاسٹ ہوگا۔ تا دم است، غم است ”جب تک دم ہے تب تک غم ہے“ ۔ یا پھر میری آنکھ کھل جائے۔ اب یہاں تک آ گئے، آگے خدا کا نام ہے ساقی۔ ۔ ۔ کہنے کو تو بھئی چھٹیاں ہیں عیش کرو، عشرت سے رہو کل کی کیا فکر، ہر چہ بادا باد۔ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ جو سب کے ساتھ ہوگا وہی ہمارے ساتھ تو پھر گھبرائیں کیا۔ اور بات سچی کہوں تو ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ تو پھر شامل زندگی کرونا ہے اور لذت زندگی مبارک باد۔ ۔ ۔ لیکن جناب خنجر تلے کسو نے ٹک دم لیا کبھی؟

سن رہیں ہیں کہ سیانے سر جوڑے بیٹھے ہیں اور ویکسین کی تیاری زور و شور سے جاری ہے۔ اب کیا کیا جائے بقول شیخ سعدی۔
تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ باشد
جب تک عراق سے تریاق آئے گا، تب تک سانپ کا کاٹا مر جائے گا

قصہ مختصر جانے کب بادل پھٹے کب چاند نکلے۔ دعا ہے کہ کہیں سے کوئی مرہم سلیمانی ملے۔ ۔ ۔ خاطر جمع یہ سال تمام بخیر و عافیت کٹے تو آئندہ کار خیر کے لیے بہتر ہوگا ان شاء اللہ۔
لیکن میرے خواب۔ ۔ ۔ میں اور کرونا کی چھپن چھپائی۔ دعا تھی کہ آنکھ کھل جائے۔ ۔ ۔ اور آنکھ کھل گئی اوہ دراصل ”کرونا“ ایک خواب تھا۔ اففف نہیں یہ آنکھ کا کھلنا ایک خواب تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).