غفور فرشتے کی موت کیسے واقع ہوئی؟


جب سے فرشتہ انسانیت کو امن کا نوبل پرائز ملا وہ زمین سے دو انچ اوپر چلتا، جیسے اڑنے ہی لگا تھا۔ کئی دن تک تو وہ اپنے آپ کو اصلی فرشتوں کی طرح ہی دیکھتا رہا۔ کبھی کبھی وہ تنہائی میں خود کلامی کرتے ہوئے طاہر شاہ کا گانا بھی گنگنانے لگتا۔

” میں ہوں ایک فرشتہ، پیارا فرشتہ، انسان فرشتہ“

آئنہ دیکھتے ہوئے وہ اپنے کاندھوں پر دو سفید پر دیکھتا، لیکن پھر دکھی ہو جاتا کہ یہ پر کسی اور کو دکھائی نہ دیتے۔ ایک لمحہ کو دکھ سے پاگل ہو جاتا اس کی حالت مور کی طرح ہوتی جو گھنٹوں اپنے پیروں کو دیکھ کر اداس رہتا ہے۔ فرشتہ بھی آپنے پروں کو جب صرف اپنی حد تک محدود پاتا تو کئی دن وہ اندر سے آزردہ رہتا۔

فرشتہ کا اصلی نام غفور خان تھا۔ وہ میانوالی کے نزدیکی ایک گاؤں میں پیدا ہوا اس کا باپ فوج میں سپاہی تھا، اس کی خواہش تھی بچہ افسر بن جائے، ہوا بھی کچھ یوں ہی۔ غفور جب ایک بار گاؤں سے نکلا تو کبھی واپس نہ پلٹا۔

غفور نے انیس سو پینسٹھ اور اکہتر دونوں جنگوں میں حصہ لیا، ترقی کرتا آگے بڑھتا گیا۔ اسی دوران اس نے شادی بھی کی تین بچوں کا باپ بھی بنا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی فوج میں ہی بھرتی کروایا، بیٹیوں کو کبھی اپنے نزدیک نہ آنے دیتا، اسے ان سے اور اپنی بیوی سے کوئی دلچسپی نہ تھا۔

بس بیٹا ہی اس کا محور تھا، فوج میں نوکری ہوتے ہی بیٹے کی پوسٹنگ سیاچن میں ہوئی۔ بد قسمتی سے وہ ایک روز سیاچن کے محاذ پر شہید ہو جاتا ہے۔ یہ واقعی ایک دکھ بھرا حادثہ تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹیوں کی بھی حالت دکھ سے خراب کچھ عرصہ وہ سب زندگی میں پہلی بار ایک ساتھ ایک کمرے میں بیٹھے اپنے باپ کے سامنے اپنے بھائی کے دکھ میں روئے۔ پھر لڑکیاں اپنے سسرال اور غفور اپنی نوکری پہ چلا گیا۔ یوں تو وہ اب رٹائرڈ تھا لیکن ایک تعلیمی ادارے کو ہیڈ کر رہا تھا۔

سب ہی حیرت زدہ کہ کیسے کوئی اس قدر پر عزم ہو سکتا ہے؟ اس کے ساتھیوں نے اسے فرشتہ انسانیت کا نام دیا، اور دنیا کے سامنے وہ فرشتہ ہی تھے بس کمی تھی تو دو پروں کی، وہ پر بھی وہ جب آئنہ دیکھتا تو اسے دکھائی دیتے، اس کے پر وقت کے ساتھ بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ ایک روز وہ بازار میں بچوں کے کھلونوں کی دکان کے سامنے سے گزرا تو اسے پری کے پر مل گئے اس نے فوراً خرید کر اپنی الماری میں چھپا دیے۔

غفور اب پہلے سے بھی زیادہ پر جوش تھا۔ وہ تعلیمی اداروں میں ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ اس نے عسکری خیرات سے ایک تعلیمی قصبہ بسایا، وہ اب ایک چھوٹا سا بادشاہ تھا، جہاں غفور کے غلام اور لونڈیاں آباد تھے، وہ ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو آباد کرتا جن کی زندگی میں کوئی بڑی پریشانی ہو، جوان بیوہ یا طلاق یافتہ عورتوں کو فوراً نوکری پہ رکھتا۔ یوں اس نے غلاموں کی ایک بڑی آبادی قائم کر لی۔

اسے اپنے ادارے میں ایک بھی ایسا شخص برداشت نہیں ہوتا جو اس سے سوال کرے، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے، غفور ہر بات کا دھیان رکھتا، کہ وہ کسی طرح بھی دولت مند نہ لگے۔ اپنے تعلیمی قصبہ میں وہ سوزوکی ایف ایکس میں ہی گھومتا، اس کے کپڑے بھی بیس بیس سال چلتے۔ غفور نے قصبہ کے ہر تعلیمی ادارے کا ہیڈ اپنے کسی عسکری ادارے سے ہی رٹائرڈ دوست اور ان کی بیگمات کو بنایا۔

یہاں تک تو معاملہ صاف تھا لیکن غفور کی زندگی کی دو ہی کمزوریاں تھیں، ایک تو بادشاہ بن جانا دوئم عورت۔

وہ جوان عورت کو دکھتا تو اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی۔ اس کی ننگی نگاہیں ایک لمحے میں پورا پوسٹ مارٹم کر دیتیں۔ جو عورت تھوڑا سا گھبرا جائے یا خوفزدہ ہو جائے وہ اسے اور بھی اچھی لگتی گویا سگنل پہنچ گئے۔ اور جلد یا بدیر وہ اس لڑکی کو اپنی کنیز خاص کے طور پر استعمال میں لے آتا۔ یہ ایسے راز تھے جو اس قصبے کے ہر غلام کو معلوم تھے لیکن سب ہی اس کی رعایا تھے۔

سب کچھ اچھا تھا چندے آ رہے تھے تعلیمی ادارے الگ کما رہے تھے، چھوٹی سی دنیا کی بادشاہت سے غفور ہوا میں اڑ رہا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب غفور کو فرشتہ انسانیت کا نوبل پرائز ملا، ایک محفل میں اس کے انٹرویو کے لیے ایک شہری لڑکی آ ئی۔ شہری لڑکی سے اس نے جب بات چیت کی تو اسے محسوس ہوا کہ آزاد اور پر اعتماد لڑکی سے تو وہ آج تک ملا ہی نہیں۔ رعایا تو محض ہاں میں ہاں ہی ملاتی ہے اور مجبوری بیچ کے چلی جاتی ہے۔

اب اپنے سے چالیس سال چھوٹی لڑکی سے بات کے بہانے ڈھونڈتا کیسے کچھ دیر وہ فون پہ بات کر لے بڈھے کی بڑی بڑی باتوں کو وہ چٹکی میں اڑا کر نئی بات شروع کر دیتی، سالوں کے بعد آج غفور نئے کپڑے خرید کے آیا، چونکہ اگلی صبح وہ اس کے قصبہ میں اعتماد پہ لیکچر دینے آ رہی تھی۔ غفور نے اسے سوکی ایف ایکس میں سیر کرائی، پھر ضیافت کا اہتمام تھا، لڑکی نے غفور کو ٹھرکی تو سمجھا لیکن وہ کس طرح کا آوارہ ہے یہ نہیں سمجھ سکی۔

ریسٹ ہاؤس تک غفور اسے چھوڑنے آیا اور اب اس نے اپنی خواہش کا اظہار بھی کر دیا۔ لڑکی اندر سے گھبرائی لیکن کوشش کرتی رہی کہ بڈھے کو احساس نہ ہو۔ کمرے کو اندر سے بند کیا اور اپنے دفتر والوں کو بلا کے رات میں ہی خاموشی سے نکل گئی۔ اور اس واقعے کا ذکر کسی سے بھی نہیں کیا۔

یہ ان دونوں کی بات ہے جب ہیش ٹیگ می ٹو کا عروج تھا۔ ہر دوسری مشہور اور عام عورت اپنے بچپن جوانی یا بڑھاپے کے جنسی ہراسانی کے قصے سنا کے مشہور ہو رہی تھی، غفور نوجوان پر اعتماد لڑکی سے شدید قسم کے خوف کا شکار ہو گیا۔ وہ ایک سے ایک مشہور لوگوں کی بڑھاپے میں ذلت سے پتے کی طرح لرز رہا تھا اسے خوف کھاے جا رہا تھا۔ کہیں وہ لڑکی ہیش ٹیگ نہ کر دے تو میرا کیا ہو گا۔ کئی دن سے اس نے آئنہ نہ دیکھا، نا ہی پروں کے سائز پر توجہ دی۔

غفور نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا وہ کئی دن سے بند تھا رات گئے وہ قصبہ میں چہل قدمی کرتا اس نے قصبہ کے ٹی وی اور موبائل کے کیبل بھی بند کروا دیے لیکن پھر بھی اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی وہ پریشانی کی انتہا پہ تھا۔ ٹھرک میں اس لڑکی کو صرف پیشکش کی تھی اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں، لیکن کہیں دو چار باتیں بڑھا کے ہی نہ لکھ دے۔

اس رات وہ چہل قدمی کے لیے بھی نہ نکلا۔ پوری رات بڈھا لرزتے ہاتھوں سے اپنی الماری سے نہ جانے کیا ڈھونڈتا رہا۔ اس وقت سورج پوری طرح نمودار نہ ہوا تھا کے غفور کے کمرے سے دھماکے کی آواز آئی۔ جب دروازے کو توڑا گیا تو غفور بستر پہ برہنہ حالت میں مرا پڑا تھا اس نے مصنوعی پروں کو لگایا ہوا تھا۔ ساتھ ایک آخری پیغام تھا!

میں فرشتہ تھا فرشتہ ہوں اور یہ پر میرے فرشتہ ہونے کا ثبوت ہیں۔

(نوٹ، تمام کردار فرضی ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).