ظالم سماج مر گیا


ایک مرتبہ میں اور میرا ایک دوست فلمی معلومات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ بات ایک فلمی گانے پر جا کر اٹکی۔ میں نے پوچھا کہ یہ گانا کس فلم کا ہے؟

لے جائیں گے لے جائیں گے دل والے دلہنیا لے جائیں گے
رہ جائیں گے رہ جائیں گے پیسے والے دیکھتے رہ جائیں گے

دوست نے تھوڑا سوچ کر کہا کہ ”یہ گانا یقیناً ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کا تو نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ اتنا آسان سوال تم کرو گے نہیں اور یاد کچھ ایسا آ رہا ہے کہ گانا کشورؔ کی آواز میں ہے۔“ پھر وہ اپنی یاداشت پر زور دیتا رہا پھر بولاکہ کوئی ستر کی دہائی کی فلم ہے شاید اور غالباً اس گانے میں ششی کپور اور ممتاز ہیں۔ میں نے جواب کو درست مان لیا اور بتایا کہ یہ گانا 1974 کی فلم ”چور مچائے شور“ کا ہے۔

یہ گانا، فلمی معلومات کے کھیل میں میرا خاص ہتھیار رہا ہے۔ جس فلم کا یہ گانا ہے وہ فلم لوگ بھول چکے ہیں۔ پھر ”چور مچائے شور“ نام کی ایک 2002 کی فلم بھی ہے۔ میں جس کسی سے یہ سوال پوچھتا وہ عموماً شاہرخ خان کی فلم ”دل والے دلہنیا لے جائیں گے“ کا نام لیتا اور یوں میں جیت جاتا۔ مگر آج مجھے یہ فلم ایک خاص وجہ سے یاد آ رہی ہے اور وہ وجہ ہے ’ظالم سماج‘ ۔ مگر میں اپنی وضاحت کرنے سے پہلے آپ کو اس فلم کی کہانی کا خلاصہ سنانا چاہتاہوں ؛

وجے ؔ (ششی ؔکپور) ایک انجینئر ہے۔ اسے ریکھاؔ (ممتاز) نامی ایک امیر لڑکی سے پیار ہے۔ ریکھا ؔکے والد کو یہ رشتہ منظور نہیں کیونکہ وجے ؔدولت مند نہیں۔ اس نے اپنی بیٹی کا رشتہ ایک شیطان صفت سیاستدان کے بیٹے سے کر رکھا ہے۔ اس فلم میں شیطان سیاستدان کا کردار امریش ؔپوری کے بڑے برادر مدنؔ پوری نے ادا کیا۔ ریکھا ؔکے والد اور سیاستدان نے وجے ؔپر ایک ناکردہ جرم کا الزام لگوایا اور جیل بھیجوا دیا۔ اب وہ جیل میں ہے۔

یہاں اس کی دوستی تین دیگر قیدیوں سے ہوتی ہے۔ چاروں جیل سے فرار ہو جاتے ہیں۔ وجے ؔ، ریکھاؔ کو لے کر بھاگ نکلتا ہے اور وہ سب ایک گاؤں میں چھپ جاتے ہیں۔ وہ لوگ اس گاؤں کو بدکردار سیاستدانوں اور ڈاکوؤں سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ نتیجتاً شیطان صفت سیاستدان گرفتار ہوجاتا ہے۔ ریکھاؔ کے والد کو اپنے کیے پر پچھتاواہوتا ہے اور وہ وجے ؔ کو قبول کر لیتے ہیں۔ وجے ؔاور اس کے تین قیدی دوست واپس جیل چلے جاتے ہیں۔ یہ فلم ایک خوشگوار موڑ پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان قیدیوں کو ان کے اچھے کاموں کا بدلہ ملے گا۔ یعنی ان کی قید کی سزایں مختصر کردی جائیں گی۔

اس کہانی میں اس دور کی فلموں کے سارے مسالے موجود ہیں۔ سارے تناؤ اور تضاد کی وجہ ہیں ہیروئن کے والد جو کہ فلم میں ’ظالم سماج‘ کا بنیادی کردار ہیں۔ ظالم سیاستدان بھی ’ظالم سماج‘ کا ہی حصہ ہیں۔ ہیرو ایک قسم کا انقلابی ہے جو کہ مجسم مکا بن کر ’ظالم سماج‘ پر برس رہا ہے۔ لہک لہک کر گا رہا ہے کہ وہ دل والا ہے اور دلہنیا وہی لے جائے گا اور ’پیسے والے‘ دیکھتے وہ جائیں گے۔ یہ ہیرو، ہیروئن اور ظالم سماج کی تثلیث بھارتی فلموں میں نوئے کی دہائی تک بڑی شدت سے موجود رہی۔

ہیروئن نعرہ مستانہ بلند کرتی ”وعدہ رہا صنم، ہوں گے جدا نہ ہم چاہے نہ چاہے ’زمانہ‘ ۔ ۔ ۔“ مگر پھر ”زمانہ“ مرنے لگا، ’ظالم سماج‘ کا انتقال ہوگیا۔ فلموں میں محبت کرنے والوں کے درمیان اب انسان اگر تھے تو صرف تنقید کرنے والے، ناک بھاؤں چڑھانے والے یا منہ بسورنے والے۔ کہاں ’ظالم سماج‘ کو لڑکی کا رشتہ دینے والے کا غریب ہونا بھی بالکل برداشت نہ تھا اور کہاں یہ حال ہوا کہ گھر والے تھوڑی دیر منہ بنانے کے بعد دوسرے مذہب بلکہ ہم جنس پرستوں کی شادی (یا وقت گزاری جو کہئے) پر راضی ہوگئے۔ ایک ہی گانے کو بار بار سنانے والی چینی گڑیا کی طرح اب ’ظالم سماج‘ (المعروف بہ ’زمانہ‘ ) کی زبان پر ایک ہی ڈائیلاگ تھا،

”جا سمرن ؔجا، جی لے اپنی زندگی! جا سمرن ؔجا، جی لے اپنی زندگی! جا سمرن ؔجا، جی لے اپنی زندگی! ۔ ۔“ کون جانتا تھا کہ مدنؔ پوری سے امریش ؔپوری تک یہ ہو جائے گا۔

اب محبت کرنے والوں کے درمیان سے سماج ہٹا تو تناؤ اور ٹکراؤ بھی ختم ہونے لگا۔ رسی ٹوٹ کے جھول چکی اب اس پر کیسے چلا جائے؟ اب فلمی کہانی کاروں نے ایک نئی رسی تانی۔ فلم ’تم بن‘ کی ہیروئن کو کوئی بیرونی رکاوٹ نہیں کہ وہ ہیرو سے بیاہ فرما لیں۔ رکاوٹ اندرونی ہے۔ ان کو اپنے مرحوم محبوب و منگیتر کے کاروبار کو آسمان کی بلندیوں تک لے کر جانا ہے۔ ہیرو بھی ہیروئن سے اظہار محبت نہیں فرما رہے اس لئے کہ منگیتر صاحب ان کی ہی گاڑی سے حادثے میں مرحوم ہوئے تھے۔ اب رکاوٹیں اندرونی ہیں۔ اب دونوں کو اپنی محبتوں کو پہچاننا ہے۔ اس کی شدت کو جاننا ہے۔ اس پھوڑے کے پکنے کا انتظار کرنا ہے۔

اسی عہد کی فلموں میں یوں بھی ہوا کہ کسی کو جب پتہ چلا کہ اس کی ’ارینجڈ‘ بیوی کسی اور سے محبت کرتی تھیں تو وہ پنی بیوی کو تھال میں سجا کر رقیب روسیاہ کے حضور لے گئے۔ مگر ”ظالم سماج“ کے یوں موم ثابت ہونے پر ہیروئن خود ہی پکے ہوئے پھل کی طرح واپس ’پتی‘ کی جھولی میں آگریں۔ پھر رفتہ رفتہ فلموں میں ہر قسم کی بیرونی رکاوٹ، ظالم و غیر ظالم سماج غیر متعلق ہوگئے۔

پھر ’تماشا‘ فلم آئی۔ اب ہیرو اور ہیروئن کروسیکا کے جزیرے میں ملتے ہیں۔ وہاں ہیرو خود کو ’ڈان‘ کہتے ہیں ہیروئن خود کو ’مونا ڈارلنگ‘ ۔ ایک دوسرے کو نام نہیں بتائے جاتے، پتے نہیں بتائے جاتے۔ بس فلمی مکالمے اور تفریح ہوتی ہے۔ کرداروں نے بقول فلم ساز، ماسک اتارے ہوئے ہیں وہ ہندوستان میں جو بھی کچھ ہیں کروسیکا میں اس میں سے کچھ نہیں۔ پھر وہ جدا ہوتے ہیں ہندوستان میں محترمہ (جن کا نام تارا ہے ) ڈھونڈتی ہوئی لڑکے تک پہنچ جاتی ہیں۔

اب ان کے سامنے ’ڈان‘ نہیں ’وید‘ ہے۔ ’وید‘ ایک اوسط زندگی گزارنے والا اوسط سا پروڈکٹ مینیجر ہے۔ وہ تارا سے اظہار محبت کرتا ہے تووہ اسے بتاتی ہے کہ وہ تو وہ ہے ہی نہیں جو وہ ڈھونڈ رہی تھی۔ وہ ’ڈان‘ ڈھونڈ رہی تھی اسے ایک عام سا، سادہ سا ’پروڈکٹ مینیجر‘ مل گیا۔ اب ’وید‘ پاگل ہونے لگتاہے اور اس جھٹکے سے بالآخر ’وید‘ کا چھلکا ٹوٹتا ہے اور اندر سے ’ڈان‘ نکل آتا ہے۔ اس کہانی میں ’لوگ‘ کہیں موجود نہیں۔ سماج (ظالم و غیر ظالم) کہیں موجود نہیں۔ زمانہ کہیں موجود نہیں۔ ہاں ایک جگہ ’وید‘ کا خاندان بھی کچھ ظالم سا نظر آتا ہے مگر ان کا مسئلہ بھی معاشی ہے، ’پیسے کماؤ پھر کروسیکا گھومو یا کچھ بھی کرو ہمیں کیا؟‘ تثلیث میں اب تین نام ہیں ڈان، وید اور تارا۔ ’وید‘ بکرے کی طرح قربانی دے گا۔

معلوم نہیں یہ ان فلموں کا اثر ہے یا یہ فلمیں دراصل خود ہی سماج کے بدلتے رویوں کی عکاس ہیں، مگر یہ ظاہر ہے کہ اب رفتہ رفتہ سماج اور انسان کے تعلق کی نوعیت بڑی حد تک بدل گئی ہے۔ سماج کی تنی رسی ٹوٹ چکی۔ اب جو رسی بچی ہے وہ نفسیاتی ہے۔ پتہ نہیں یہ ’وید‘ (یا ’ڈان‘ جو بھی ہے ) اگر فاقہ مرنے لگے تب بھی ’تارا‘ کو اتنا ہی عزیز رہے گا؟ معلوم نہیں اگر یہ ’ڈان‘ (یا ’وید‘ ) ایک روز دو لڑکیاں گھر لے آئے اور کچھ ’نیا‘ تجربہ کرنے کی ٹھانے تو ’تارا‘ کو کیسا لگے گا؟

سماج یا ظالم سماج کی لاش پر ”لنگی ڈانس“ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی تہذیب پیدا ہی ’روک‘ یا ’رکاوٹ‘ سے ہوئی تھی۔ جذبات و خیالات کی تہذیب و تربیت ہی رکاوٹ سے ہوتی ہے۔ فرائیڈ نے کہا تھا کہ انسانی تہذیب کی ابتدا اس دن ہوئی جب انسان نے پتھر مارنے کے بجائے گالی بکی۔ یقیناً پتھر مارنے سے رکنے کا ایک محرک سماج یا ’ظالم سماج‘ ہی تھا۔ مگر ظالم سماج مر گیا۔ اس کی لاش ایک چینی گڑیا کی طرح بار بار کہہ رہی ہے، ”جا سمرن ؔجا، جی لے اپنی زندگی! جا سمرنؔ جا، جی لے اپنی زندگی! جا سمرن ؔ جا، جی لے اپنی زندگی! ۔ ۔“ اب دیکھئے کہ تہذیب کا کھنڈر کب زمیں بوس ہوتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments