نیب سرکاری ادارہ ہے یا سیاسی پارٹی؟


عجیب اور حیران کن خبر ہے: ’مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور حامیوں نے مریم نواز کی نیب لاہور میں پیشی کے موقع پر استقبالیہ کیمپ لگایا لیکن رکاوٹیں ہٹانے کے معاملہ پر پولیس سے تصادم ہوگیا۔ پولیس نے آنسو گیس و لاٹھی چارج کے علاوہ جوابی پتھراؤ سے جواب دیا۔ نیب نے اس واقعہ کو کار سرکار میں مداخلت قرار دیتے ہوئے لیگی لیڈروں اور کارکنوں کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے‘۔ اس بارے میں نیب کی پریس ریلیز پڑھنے کے بعد پوچھا جاسکتا ہے کہ نیب سرکاری ادارہ ہے یا ایک سیاسی پارٹی ہے کہ اب وہ قانونی کارروائی کے علاوہ زبانی مذمت بھی ضروری سمجھتا ہے۔

لاہور میں قومی احتساب بیورو کے دفتر کے باہر ہونے والے تصادم کے بارے میں ہر شخص اپنی سیاسی وابستگی اور پسند و ناپسند کے مطابق رائے قائم کرے گا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی طرح بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو نیب دفتر کے باہر اس تصادم کو 1997 میں مسلم لیگی کارکنوں کے سپریم کورٹ پر حملہ کے مماثل قرار دے کر مسلم لیگ (ن) کی مجرمانہ ذہنیت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ مریم نواز نے اس تصادم کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے ’ نیب نے جان بوجھ کر انہیں ایک غیر واضح حکم نامہ کے ذریعے پوچھ گچھ کے لئے بلایا تھا لیکن اس کا اصل مقصد انہیں نقصان پہنچانا تھا‘۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی گاڑی پر پتھراؤ کا ذکر کیا اور کہا کہ ایک پتھر سے بلٹ پروف گاڑی اسکرین ٹوٹ گئی۔ اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو انہیں نقصان پہنچ سکتا تھا۔

یہ دو متضاد مؤقف ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے جس طرح اپنے مخالف سیاسی لیڈروں کے خلاف قومی احتساب بیورو کو استعمال کرنے کی روایت کو راسخ کیاہے اور جس طرح کرپشن کے الزامات کو سیاسی ایجنڈے کے طور پر برتا جاتا ہے، اس کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ حکومت اور اس کے زیر نگیں ادارے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرواکے کبھی اصل حقائق منظر عام پر نہیں لاسکیں گے۔ یوں بھی اس ملک میں کسی بھی وقوعہ کی ہر ممکن تحقیقات ہونے کے باوجود کبھی یہ پتہ نہیں چل سکا کہ درحقیقت کس کا قصور تھا اور ایک معمول کا واقعہ کیوں کر تصادم کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔

مریم نواز کی پریس کانفرنس میں عائد الزامات کے بعد پنجاب کے وزیر قانون بشارت راجہ نے صوبائی وزیر اطلاعات کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس منعقد کی۔ راجہ بشارت نے اس پریس کانفرنس میں جو الفاظ استعمال کئے اور جو دلائل دیے وہ ہوبہو وہی تھے جو اس سے قبل اس واقعہ پر نیب کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز میں عائد کئے گئے تھے۔ راجہ بشارت کے بیان اور نیب کی پریس ریلیز کے علاوہ لاہور کے چوہنگ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر کی درخواست میں لگائے گئے الزامات میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔ نیب اور راجہ بشارت کا مؤقف ہی یکساں نہیں ہے بلکہ حیرت انگیز طور سے الفاظ کا چناؤ اور فقروں کی ساخت بھی ایک جیسی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پنجاب کے وزیر قانون کا بیان ہو، نیب کی پریس ریلیز یا ایف آئی آر کے لئے درخواست، اس کے مندرجات نہ راجہ بشارت کے دفتر میں تیار ہوئے اور نہ ہی یہ کارنامہ نیب لاہور کے بابوؤں نے سرانجام دیا ہے۔ بلکہ ان دونوں کو ہدایات کہیں اور سے جاری ہورہی تھیں۔ اس پس منظر میں اس سوال کا جواب سامنے آنا چاہئے کہ اس ملک میں وہ کون ہے جو حکومت پنجاب کے ترجمان اور نیب کو بیک وقت ہدایات جاری کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ کیا یہ واقعہ اچانک رونما ہوگیا یا اس کے لئے باقاعدہ ہوم ورک کیا گیا تھا۔

پنجاب حکومت نے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے ذریعے اور نیب لاہور نے اپنے ڈپٹی ڈائیریکٹر انٹیلی جنس و سیکورٹی کی درخواست برائے ایف آئی آر میں یہ واضح کردیا ہے کہ اس تصادم کی ’سازش‘ جاتی عمرہ میں تیار کی گئی تھی جس میں مریم نواز کے علاوہ ان کے شوہر کیپٹن صفدر بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے کارکنوں کو اس ہنگامہ آرائی پر تیار کیا اور پتھر بھی جاتی عمرہ سے نیب لاہور کے دفتر پہنچائے گئے تھے۔ ان الزامات کے مطابق یہ پتھر نیب اور پولیس پر حملہ کرنے کے لئے لائے گئے تھے تاکہ ایک قانونی سرکاری کارروائی میں مداخلت کی جاسکے۔ نیب کی درخواست میں ہنگامہ کرنے پر دیگر مسلم لیگی لیڈروں اور کارکنوں کے علاوہ مریم نواز کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت اور نیب لاہور کی اس ’فکری مماثلت‘ کو محض اتفاق سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس سلسلہ میں نیب سے یہ ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ قانون کے مطابق کام کرنے کے دعوے کے بعد کیا وہ یہ واضح کرے گا کہ لوگوں کی مالی بدعنوانی کے علاوہ کیا نجی گھروں میں ہونے والی ملاقاتوں ، باتوں یا سازشوں کا سراغ لگانے کی ذمہ داری بھی اب نیب کو تفویض ہوچکی ہے؟ نیب لاہور کا ایک ذمہ دار افسر کس بنیاد پر جاتی عمرہ کے مکینوں پر نیب کے دفتر پر حملہ کی سازش کرنے کا الزام عائد کررہا ہے؟

احتساب کرنے یا نیب کو سیاسی انجینئرنگ کا ذریعہ بنانے کی بحث میں یہ پہلو نظر انداز نہیں ہوسکتا کہ نیب ایسے معاملہ میں فریق بناہے جو اس کے دائرہ کار کا حصہ نہیں ہے۔ جہاں تک مالی جرائم کے بارے میں مجرموں کا سراغ لگانے کی ذمہ داری کا معاملہ ہے تو اس بارے میں حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے اور ججوں کی آبزرویشنز سے سمجھا جاسکتا ہے کہ نیب کے افسر اور کارکن کس حد تک نالائقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ متعدد سیاسی لیڈروں کو کئی کئی ماہ گرفتار رکھنے کے بعد ضمانتوں پر رہائی سے بھی نیب کی ناقص کارکردگی کا پول کھلتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ادارے کی اصلیت اور اہلیت اس حقیقت سے بھی آشکار ہوتی ہے کہ وہ سال ہا سال پرانے معاملات پر نہ تفتیش مکمل کرسکا ہے اور نہ ہی ان میں نامزد کئے گئے ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت فراہم کرسکا ہے۔ البتہ سیاسی لیڈروں کے خلاف الزامات کی میڈیا کے ذریعے تشہیر کرکے معاشرے میں ہیجان پیدا کرنے کا سبب ضرور بن رہا ہے۔

تاہم اس سارے معاملہ میں نیب لاہور کی طرف سے آج کے واقعات کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز شاہکار تخلیق تسلیم کی جانی چاہئے۔ یہ پریس ریلیز کسی سرکاری ادارے کے بیان کی بجائے کسی سیاسی پارٹی کا مؤقف لگتی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسے اردو میں جاری کیا گیا ہے جو اس بات کا سب سے ٹھوس ثبوت ہے کہ نیب کا مقصد ایک افسوسناک صورت حال پر سچ بتانے کی بجائے اسے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے ایک خاص پارٹی اور اس کے لیڈروں کو ٹارگٹ کرنا تھا۔ دیگر سرکاری معاملات کی طرح نیب کے سارے امور انگریزی میں طے پاتے ہیں لیکن نیب لاہور کے دفتر کے باہر ہونے والے ہنگامے پر اردو میں بیان جاری کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ یہ طریقہ کوئی بھی سرکاری ادارہ یا دفتر صرف اسی صورت میں اختیارکرتا ہے جب وہ حقیقت حال بتانے کی بجائے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے عوام تک ایک خاص مؤقف پہنچانا ضروری سمجھتا ہے۔ یہ طریقہ عام طور سے سیاسی رویہ کہا جاتا ہے اور کسی بھی قومی یا آئینی ادارے کو انتظامی و قانونی معاملات پر سیاست کرنے کا حق نہیں دیاجاسکتا۔

یوں اس معاملہ میں نیب لاہور کی پریس ریلیز خاصے کی چیز ہے ۔ اس لئے اس کا مطالعہ قارئین کو متن اور بین السطور بہت کچھ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے۔ مریم نواز کی آمد پر نیب لاہور کی جاری کردہ پریس ریلیز کا مکمل متن درج ذیل ہے:

’قومی احتساب بیورو لاہور میں آج مریم نواز کو ذاتی حیثیت میں مؤقف دینے کے لئے بلایا گیا تھا۔ تاہم ان کی جانب سے نیب لاہور میں پیش ہوکر جواب دینے کی بجائے مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کے ذریعے منظم انداز میں غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پتھراؤ اور بدنظمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ نیب کی 20 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آئینی ادارے کے ساتھ اس نوعیت کا برتاؤ روا رکھا گیا۔ جس میں نیب کی عمارت پر پتھراؤ کرتے ہوئے کھڑکیوں کے شیشے توڑنے کے علاوہ نیب کے عملہ کو زخمی کیا گیا۔ ان حالات میں نیب کی جانب سے مریم نواز کی پیشی کو فوری طور پر منسوخ کرتے ہوئے پرزور مذمت کی جاتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں اور دیگر شرپسند عناصر کی جانب سے منظم انداز میں قانونی کارروائی میں مداخلت کی گئی۔ چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی منظوری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں و کارکنان کے غیر قانونی اقدام اور کار سرکار میں مداخلت کی ایف آئی آر درج کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے آگاہ کیا جاتا ہے نیب ایک قومی ادارہ ہے جس کی تمام تر وابستگیاں ملک و قوم کے ساتھ ہیں۔ نیب کا کسی سیاسی جماعت یا گروہ سے کوئی تعلق نہیں۔ جبکہ نیب تمام تر اقدامات آئین و قانون کی روشنی میں سرانجام دیتا ہے‘۔

جب ایک قومی و آئینی ادارے کو یہ واضح کرنا پڑے کہ وہ ’غیر سیاسی‘ ہے اور قومی مفاد کا نگہبان ہے تو وہ دراصل اپنی سیاسی حیثیت سامنے لانے کا سبب بنتا ہے۔ جب کوئی ادارہ سیاسی لیڈروں کی مذمت کرنے اور کسی واقعہ میں فریق بن کر کسی ایک پارٹی کے کارکنوں کو ’غنڈے ‘ قرار دے گا تو اس کی غیر جانبداری پر سنگین سوال سامنے آئیں گے۔ نیب کا یہ چلن اور اسے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ یوں ہی جاری رہا تو تحریک انصاف کی حکومت کو شاید اپوزیشن سے تو کوئی خطرہ نہ ہو لیکن نیب اس کی سیاست اور اقتدار کےلئے خطرناک ثابت ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali