منموہن سنگھ: موجودہ اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم کی تین تجاویز


منموہن سنگھ

منموہن سنگھ کو انڈیا کی اقتصادی اصلاحات کا معمار سمجھا جاتا ہے

انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کے مطابق انڈیا کو کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہونے والی تباہی سے نکلنے کے لیے فوری طور پر تین اقدامات اٹھانے چاہییں۔

ڈاکٹر منموہن سنگھ کو انڈیا کی اقتصادی اصلاحات کا معمار سمجھا جاتا ہے اور اب وہ حزبِ اختلاف کی کانگریس کی جماعت کے سینیئر رہنما ہیں۔ انھوں نے یہ تجاویز بی بی سی کو ای میل کے ذریعے بتائیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت کو بحران کو روکنا ہے اور آنے والے برسوں میں معاشی باقاعدگی کو بحال کرنا ہے۔

’سب سے پہلے حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوام کا روزگار محفوظ رہے اور ان کے پاس براہ راست کیش کی مدد کے ذریعے خرچنے کی صلاحیت رہے۔ دوسرا، حکومت اپنے حمایت یافتہ کریڈٹ گارنٹی پروگراموں کے ذریعے وہ کاروباروں کو مناسب سرمایہ مہیا کرتی رہے۔ تیسرا، حکومت کو چاہیے کہ وہ اقتصادی شعبے کو ادارہ جاتی خود مختاری اور عوامل کے ذریعے ٹھیک کرے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا لاک ڈاؤن سے انڈیا میں غذا کی قلت ہو جائے گی؟

’کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا‘

’غریبوں کی مدد کے لیے انڈیا کو بہت زیادہ فراخدلی دکھانے کی ضرورت ہے‘

وبا شروع ہونے سے پہلے ہی انڈیا کی معیشت سست روی کا شکار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کی مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی) 20-2019 میں 4.2 فیصد کی رفتار سے بڑھی تھی جو کہ تقریباً 10 برسوں میں سب سے سست رفتار تھی۔

ایک لمبے اور اذیت دینے والے لاک ڈاؤن کے بعد اب انڈیا آہستہ آہستہ اپنی معیشت کھول رہا ہے، لیکن انفیکشنز میں اضافے کی وجہ سے مستقبل غیر یقینی لگتا ہے۔ جمعرات کو انڈیا وہ تیسرا ملک بن گیا جہاں کووڈ 19 کے متاثرین 20 لاکھ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔

ماہرینِ اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ 21-2020 کے معاشی سال کے لیے انڈیا کا جی ڈی پی ممکنہ طور پر مزید سکڑ جائے گا اور اس طرح یہ 1970 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تکنیکی معاشی گراوٹ ہو گی۔

انڈیا کا ایک خاندان

لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں افراد کا روزگار چھن گیا ہے

ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ’میں ڈپریشن کا لفظ بے دھڑک ہی استعمال کرنا نہیں چاہتا، لیکن ایک گہری اور لمبی اقتصادی سست روی ناگزیر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اقتصادی سست روی انسانی بحران کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہ اہمہے کہ اسے ہمارے معاشرے میں اقتصادی نمبروں اور طریقوں کے بجائے احساسات کے آئینے میں دیکھا جائے۔

انڈیا نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مارچ کے آخر میں لاک ڈاؤن لگا دیا تھا۔ اکثر کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن جلدی میں لگایا گیا اور شہروں سے نکلنے والے لاکھوں پناہ گزین ورکرز کے متعلق سوچا بھی نہیں گیا۔

ڈاکٹر سنگھ کا کہنا ہے کہ انڈیا نے وہی کیا جو دوسرے ممالک نے کیا تھا اور ’شاید اس مرحلے پر لاک ڈاؤن ایک ناگزیر انتخاب تھا۔ لیکن حکومت کی اس حکمتِ عملی کی وجہ سے لوگوں کو بہت تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔’

انھوں نے کہا کہ اچانک اعلان اور لاک ڈاؤن کی سختی میں لا پرواہی اور بے حسی پنہاں تھی۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح کی ’پبلک ہیلتھ ایمرجنسیز سے مقامی طور پر مقامی انتظامیہ اور پبلک ہیلتھ کے حکام کے ذریعے درست طریقے سے نمٹا جا سکتا ہے، مرکز کو بس وسیع ہدایات دینا ہوتی ہیں۔ شاید ہمیں کووڈ 19 کی جنگ کو جلدی ہی ریاست اور مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دینا چاہیے تھا۔‘

انڈیا کا فیکٹری ورکر

نجی شعبے کی سرمایہ کاری بہت نچلی سطح تک پہنچ گئی ہے

ڈاکٹر سنگھ تقریباً 20 سال پہلے مالیات کے وزیر تھے اور انڈیا کے ادائیگیوں کے بحران کے بعد انھوں نے سنہ 1991 میں بہت بڑے پیمانے پر اقتصادی اصلاحات متعارف کروائی تھیں۔ انڈیا اس وقت تقریباً دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ سنہ 1991 کا بحران مقامی تھا جس کے متحرک عالمی عوامل تھے لیکن آج کا اقتصادی بحران اپنی ہر جگہ موجود ہونے کی صلاحیت، پیمانے اور گہرائی کی وجہ سے بے مثال ہے۔

’دوسری جنگِ عظیم کے دوران بھی پوری دنیا اس طرح بیک وقت ایک ساتھ سے بند نہیں ہوئی تھی۔‘

اپریل میں بی جے پی حکومت نے 226 ارب ڈالر کا پیکج دیا تھا، جس میں معیشت کی بحالی کے لیے اثاثوں کو بیچنے جیسے عوامل سے لے کر اصلاحات بھی شامل تھیں۔ انڈیا کے سٹیٹ بینک نے شرح سود میں کمی اور قرضوں کی ادائیگیوں میں مہلت کا اعلان بھی کیا تھا۔

ٹیکسوں میں کمی کی وجہ سے ماہرینِ اقتصادیات کہتے ہیں کہ کس طرح ایک ایسی حکومت جس کے پاس پہلے ہی کم کیش ہے وہ براہ راست ٹرانسفرز کے لیے پیسے لا سکتی ہے اور کمزور ہوتے ہوئے بینکوں اور کاروباروں کو مزید کریڈٹ اور سرمایہ دے سکتی ہے۔

ڈاکٹر سنگھ کے مطابق اس کا حل مزید قرض لینے میں ہے۔

’زیادہ قرض ناگزیر ہو چکا ہے۔ اگر ہمیں فوج، صحت، اور اقتصادی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے جی ڈی پی میں سے اضافی 10 فیصد خرچ کرنا پڑے تو ہمیں کر لینا چاہیے۔‘

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے انڈیا کے جی ڈی پی کی مناسبت سے اندرونی قرض کی شرح بڑھ جائے گی، لیکن اگر قرض سے زندگیاں، سرحدیں بچ سکتی ہیں اور روزگار بحال ہو سکتے اور اقتصادی ترقی ہو سکتی ہے، تو پھر یہ اس قابل ہے کہ ایسا کیا جائے۔

’ہمیں قرض لینے سے نہیں شرمانا چاہیے لیکن ہمیں اتنا محتاط ہونا چاہیے کہ اس قرض کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔‘

انڈیا میں ساڑھیاں بن رہی ہیں

انڈیا کو اپنی مقامی منڈی کے لیے زیادہ پیداوار کی ضرورت ہے

ماضی میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے کثیرالجہتی اداروں سے قرض لینے کو انڈیا کی اقتصادی کمزوری کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ڈاکٹر سنگھ کے مطابق اب انڈیا ’دوسرے ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ایک مضبوط حیثیت سے قرض لے سکتا ہے۔‘

’کثیر الجہتی اداروں سے قرض لینے کا انڈیا کا ریکارڈ بہت صاف ہے، ان اداروں سے قرض لینا کمزوری کی طرف اشارہ نہیں ہے۔‘

کئی ممالک نے جاری اقتصادی بحران کے دوران حکومت کے اخراجات کو فنڈ کرنے کے لیے مزید نوٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے، اور کئی مشہور ماہرِ اقتصادیات نے بھی انڈیا کے لیے یہی مشورہ دیا ہے۔

تاہم کئی ایک نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پیسے کی اضافی سپلائی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر سنگھ کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ اضافی پیسے کی سپلائی کی وجہ سے زیادہ افراط زر کا روایتی ڈر اب ترقی یافتہ ممالک پر لاگو نہیں ہوتا لیکن انڈیا جیسے ممالک کے لیے سینٹرل بینک کی اداراتی خود مختاری کے متاثر ہونے کے علاوہ، بے ٹوک نوٹوں کی چھپائی، کرنسی، تجارت اور درآمد شدہ افراط زر کے لازم و ملزوم اثرات ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ وہ خسارہ پورا کرنے کے لیے مزید نوٹ چھاپنے کو رد نہیں کر رہے لیکن ’صرف بتا رہے ہیں کہ اس کی حد زیادہ اونچی کر دیں اور اسے آخری سہارے کے طور پر استعمال کریں جب دوسرے تمام چارے استعمال کیے جا چکے ہوں۔

انڈیا

انڈیا کی بڑھتی ہوئی مڈل کلاس کے پاس کافی قابلِ ترک آمدنی ہے

ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر انڈیا آج 1990 کی دہائی سے کافی زیادہ مضبوط حالت میں ہے۔ میں نے ڈاکٹر سنگھ سے پوچھا کہ کیا یہ طاقت وبا کے خاتمے کے بعد انڈیا کی تیزی سے بحالی میں مدد کر سکے گی؟

تو ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ’انڈیا کا جی ڈی پی 1990 کی نسبت 10 گنا زیادہ مضبوط ہے، اور انڈیا نے اس وقت سے لے کر اب تک 30 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکالا ہے۔ اس لیے ہاں! انڈیا کی معیشت اندرونی طور پر اب بہت زیادہ مضبوط ہے۔‘

لیکن ترقی کی ایک بڑی وجہ انڈیا کی باقی دنیا سے تجارت ہے۔ اس دوران انڈیا کے جی ڈی پی میں عالمی تجارت کا حصہ تقریباً پانچ گنا زیادہ بڑھ گیا ہے۔

ڈاکٹر سنگھ کہتے ہیں کہ انڈیا اب باقی دنیا سے زیادہ ضم ہو چکا ہے۔ ’اس لیے اب جو کچھ عالمی معیشت میں ہوتا ہے اس کا کافی زیادہ اثر انڈیا کی معیشت پر بھی ہوتا ہے۔ اس وبا کے دوران عالمی معیشت بری طری متاثر ہوئی ہے اور یہ انڈیا کے لیے پریشانی کی ایک بڑی وجہ ہو گی۔‘

اب تک کسی کو پتا نہیں ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کا مکمل معاشی اثر کیا ہوا ہے، اور نہ ہی یہ کہ ملکوں کو اس سے بحال ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ لیکن ایک چیز واضح ہے کہ اس نے ڈاکٹر سنگھ جیسے منجھے ہوئے ماہرِ اقتصادیات کو بھی پریشان کر دیا ہے۔

’پہلے بحران مائیکرو اکنامک بحران ہوا کرتے تھے، جن کے لیے آزمائے ہوئے اقتصادی طریقے تھے۔ اب ہمیں ایک ایسے اقتصادی بحران کا سامنا ہے جو وبا کی وجہ سے آیا ہے اور جس نے معاشرے میں خوف اور غیر یقینی کی صورتِ حال پیدا کی ہے، اور اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے مانیٹری پالیسی اتنی کارآمد ثابت نہیں ہو رہی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp