عروج اقبال کا قتل: ’اپنے کام کی وجہ سے پاکستان میں قتل ہونے والی پہلی خاتون صحافی’ کا مقدمہ اختتام پذیر


’میں، فریقِ اوّل، حلفاً بیان کرتا ہوں کہ دلاور علی میرا اور میرے گھر والوں کا مجرم تھا۔ اور اس نے میری ہمشیرہ عروج اقبال کو قتل کیا یا کروایا تھا۔ اب پنچایت میں فریق اوّل اور اس کے گھر والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سب دلاور علی کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے معاف کرتے ہیں۔‘

اور یوں 27 سالہ صحافی عروج اقبال کے قتل کا مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا۔

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحافت کو درپیش مشکلات کی طویل تاریخ موجود ہے۔ فون کالز پر دھمکیوں سے شروع ہونے والا سفر بعض اوقات موت کے دروازے پر ختم ہوتا ہے۔ لیکن ’قاتل کون ہے‘ اور ’قتل کیوں ہوا‘ جیسے سوال کبھی طویل عدالتی کاروائیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دباؤ یا نااہلی کی نذر ہو جاتے ہیں اور کبھی صلح ناموں میں دب جاتے ہیں۔

عروج اقبال کے قتل کے مقدمے کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بدھ کو ان کے قتل کی تحقیقات سے متعلق تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے اور اس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جو عروج اقبال کے قاتل کو سزا دلوانے میں رکاوٹ بنے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق وہ پاکستان میں اپنے پیشے کی وجہ سے قتل ہونے والی پہلی خاتون صحافی ہیں اور ان کی والدہ اور بھائی کا کہنا ہے کہ مبینہ قاتل کی جانب سے مسلسل دھمکیاں موصول ہونے کی وجہ سے وہ صلاح کرنے پر مجبور ہیں۔

عروج اقبال کو 24 نومبر 2019 کو مبینہ طور پر ان کے سابق شوہر نے، جو ایک اخبار کے مالک بھی ہیں، صحافت نہ چھوڑنے اور ان کے مد مقابل ایک نیا اخبار لانچ کرنے کی بنیاد پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

عروج اقبال کی والدہ طاہرہ بیگم کہتی ہیں کہ انھیں کوئی شک نہیں کہ عروج کو ان کی ’صحافت‘ کی وجہ سے مار دیا گیا۔

’میری جب آخری بار اپنی بیٹی سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اگلے روز اس کا نیا دفتر کھلنے کے تمام انتظامات ہو گئے ہیں۔ بدقسمتی ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے ہی اس کی قتل کر دیا گیا۔‘

ان کے قتل کے بعد ان کے بھائی یاسر اقبال نے ایف آئی درج کرائی اور عروج اقبال کے شوہر دلاور علی پر اپنی بہن کے قتل کا الزام لگایا تاہم دلاور علی ضمانت لینے میں کامیاب ہو گئے۔

دلاور علی خود بھی ایک مقامی اخبار اینٹی کرائم کے مالک تھے اور عروج اقبال نے شادی سے قبل تقریباً ایک سال تک اس اخبار کے ساتھ بطور کرائم رپورٹر کام کیا تھا۔ تاہم شادی کے چند ماہ بعد جب ان کے اپنے شوہر سے تعلقات خراب ہوئے تو عروج اقبال نے اپنا اخبار جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔

آر ایس ایف کے مطابق ’یہی وجہ ان کے قتل کا باعث بنی۔‘

آر ایس ایف نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ دلاور علی کے پولیس اور مقامی سیاست دانوں کے ساتھ گہرے روابط تھے جس سے انہیں تحفظ حاصل ہوا، جبکہ ’دلاور علی نے اپنے تعلقات کے بل بوتے پر عروج اقبال کے اہلخانہ کو دھمکیاں دیں اور مقدمہ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔‘

عروج کے بھائی یاسر اقبال نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ان کی بہن کی دلاور علی سے 6 اپریل 2019 کو شادی ہوئی تھی لیکن وہ زیادہ دیر نہ چل سکی اور 30 ستمبر 2019 کو ان کی بہن کی طلاق ہوگئی۔ ’دلاور چاہتے تھے کہ عروج اپنا اخبار نہ نکالیں۔ انہوں نے دلاور کے خلاف شکایت بھی درج کروائی تھی کیونکہ وہ انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے اور صحافت چھوڑنے کا دباؤ ڈال رہے تھے۔‘

عروج اقبال کے بھائی یاسر نے قلعہ گوجر خان پولیس سٹیشن میں 25 نومبر 2019 کو ایف آئی آر درج کروائی تھی جس میں انہوں نے دلاور پر بہن کے قتل کا الزام عائد کیا۔

آر ایس ایف کی رپورٹ کے مطابق عروج اقبال کا مقدمہ پاکستان میں عدلیہ اور پولیس کے لیے ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی اس تنظیم نے عروج اقبال کے اہلخانہ، ساتھیوں اور پولیس اہلکاروں سے معلومات حاصل کیں تاکہ ملک میں صحافت کی وجہ سے قتل ہونے والی پہلی خاتون صحافی کا یہ مقدمہ سامنے لا سکیں جس میں مجرم ’مکمل طور پر سزا سے بچ گئے ہیں۔‘

آر ایس ایف کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک نے کہا ہے کہ یہ کیس پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ کیسے پاکستان میں غریب شخص کو انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ‘میں اسے پورے معاشرے کی ناکامی سمجھتا ہوں جو متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی یقینی نہ بنا سکا۔’

آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفیک کے سربراہ ڈینیل باسٹرڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عروج اقبال کا بیہمانہ قتل پاکستان میں خاتون صحافیوں کے لیے سیکیورٹی کی عدم موجودگی کی جانب اشارہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ اس امر کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ کیسے ملک میں خواتین صحافیوں کو دھمکیوں، تشدد اور مرد سربراہان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔’ انہوں نے پاکستان میں اعلی عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ اس کیس کو حل کیا جائے۔

رپورٹ کے مطابق عروج اقبال کے قتل کے بعد صحافتی تنظیموں نے بھی آواز بلند نہیں کی۔ رپورٹ میں خاتون صحافیوں کے لیے سیفٹی ٹریننگ نہ ہونے کو بھی ایک سنگین مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔

آر ایس ایف کے پاس موجود اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 19000 افراد صحافت سے منسلک ہیں تاہم ان میں صرف 750 خواتین ہیں جو کہ کل تعداد کا محض چار فیصد ہیں۔

صحافیوں کے لیے محفوظ ممالک کی رینکنگ میں پاکستان کا 180 میں سے 145 واں نمبر ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک سینئر پولیس اہلکار نے تنظیم کو بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ’عروج اقبال کے پاس ایسے راز ہوں جو منظر عام پر آنے سے قاتل کو بڑا نقصان ہو سکتا ہو۔‘ تاہم مبینہ ملزم دلاور علی کو کسی بھی موقع پر گرفتار نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خواتین کے تحفظ کے لیے قائم وومن پروٹیکشن بیورو کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل آصف الرحمان سے جب اس قتل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس واقعے سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔

عروج اقبال کے اہلخانہ اور ان کے سابق شوہر کے درمیان طے پانے والا یہ صلح نامہ عروج کے قتل کے محض چھے ہفتوں بعد تیار ہوا اور پچیس جنوری 2020 کو ان کے بھائی یاسر اقبال اور اہلخانہ نے مبینہ قاتل کو معاف کر دیا۔ دیت کی مد میں یہ مقدمہ ختم کرنے کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر ہوئی۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp