بیلاروس: انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے والی اپوزیشن رہنما سویتلانا تیخانوفسکایا ’ملک چھوڑنے پر مجبور‘


belarus

سویتلانا تیخانوفسکایا

بیلاروس میں حزبِ اختلاف کی مرکزی رہنما سویتلانا تیخانوفسکایا نے کہا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کی خاطر ملک چھوڑنے کا ‘نہایت مشکل فیصلہ’ کرنا پڑا ہے۔

سویتلانا نے نو اگست کو ملک میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے۔

یوٹیوب پر جاری اپنی ایک ویڈیو میں انھوں نے کہا: ‘مجھے لگتا تھا کہ اس مہم نے مجھے سخت مضبوط کر دیا ہے اور مجھ میں کسی بھی چیز سے نمٹنے کی قوت دی ہے۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ میں اب بھی وہی کمزور عورت ہوں۔’

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یورپی یونین انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افراد پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی جانب سے تشدد کے باعث بیلاروس پر پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

سوئیڈن کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ جمعے کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوگا جس میں بیلاروس پر پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔

یورپی یونین کے مطابق یہ انتخابات ‘نہ ہی آزدانہ اور نہ ہی منصفانہ’ تھے۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کہا کہ بیلاروس کے عوام نے انتخابی مہم میں ‘جمہوری تبدیلی کی اپنی خواہش’ کا برملا اظہار کر دیا ہے۔

انھوں نے بیلاروس کے حکام پر ‘غیر متناسب اور ناقابلِ قبول تشدد’ کے استعمال کا الزام عائد کیا جس سے ‘کم از کم ایک شخص ہلاک اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔’

Belarus

بیلاروس میں کیا ہو رہا ہے؟

اتوار کو ہونے والے انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق موجودہ صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے 80 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

انگریزی کی سابق مدرس تیخانوفسکایا نے ڈیٹا کے مطابق 9.9 ووٹ حاصل کیے۔

انھوں نے دارالحکومت منسک میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ لوکاشینکو کے بجائے خود کو انتخابات کا فاتح تصور کرتی ہیں۔

یاد رہے کہ الیگزینڈر لوکاشینکو 1994 سے اس عہدے پر براجمان ہیں اور انھیں اکثر اوقات ‘یورپ کا آخری ڈکٹیٹر’ بھی کہا جاتا ہے۔

ان کے خلاف انتخابات میں سویتلانا تیخانوفسکایا کے علاوہ ویڈیو بلاگر سرگئی تیخانوفسکی، بینکر وکٹر بابریکو اور سابق سفارت کار ویلیری سیپکالو نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے تھے۔

سیاسی طور پر نیم دلانہ تصور کیے جانے والے اس ملک میں یہ غیر معمولی بات تھے۔

تاہم دیگر تینوں افراد کو نااہل قرار دے دیا گیا جبکہ سرگئی اور وکٹر کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔

اس کے بعد بقایا تینوں انتخابی مہم بھی ان کی حمایت میں آ گئیں۔

30 جولائی کو سویتلانا نے بیلاروس کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کیا جس میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے اندازوں کے مطابق 60 ہزار سے زائد لوگ شریک ہوئے تھے جبکہ پولیس نے بھی 20 ہزار کے قریب لوگوں کی شرکت کا اعتراف کیا تھا۔ =

Belarus

حکام کے مطابق تین ہزار سے زائد مظاہرین کو حراست میں لیا گیا ہے

انتخابات کے بعد مظاہرے

جب انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا تو حزب اختلاف کے حامیوں کی جانب سے مظاہرے شروع کر دیے گئے جو کہ پورے ملک میں پھیل گئے۔

روس کے خبر رساں ادارے آر آئی اے نے بیلاروس کی وزارتِ داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ 3000 سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

بیلاروس میں مظاہرین پر پولیس کے تشدد کی بھی خبریں آئی ہیں اور کینیڈا اور امریکہ نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

منگل کی شام دارالحکومت منسک میں بی بی سی کے تین صحافی جو ایک فلمساز عملے کے رکن ہیں، انھوں نے کہا کہ ان پر بغیر نشانات کی سیاہ وردیوں میں ملبوس قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے حملہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو اہلکاروں نے کیمرا مین کو پیٹا اور کیمرا توڑنے کی کوشش کی۔

تاہم ان رپورٹرز کو حراست میں نہیں لیا گیا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق الیگزینڈر لوکاشینکو نے ان مظاہروں کے حوالے سے کہا کہ حکام عدم استحکام کے باعث ‘اس ملک کو بکھرنے نہیں دیں گے اور اس کا مناسب جواب دیا جائے گا۔’

بیلاروس

صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے منسک کے ایک پولنگ سٹیشن پر اپنا ووٹ ڈالا

سویتلانا تیخانوفسکایا اس وقت کہاں ہیں؟

پیر کو ان کی گمشدگی کے حوالے سے خبریں سامنے آنے کے بعد ان کے بارے میں تشویش موجود تھی، تاہم ان کی انتخابی مہم کے اہلکاروں نے کہا تھا کہ وہ محفوظ ہیں، تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں۔

اس کے بعد 37 سالہ سویتلانا کے بارے میں لتھوانیا کے وزیرِ خارجہ لیناس لینکیویسیئس نے کہا کہ وہ لتھوانیا میں ہیں اور محفوظ ہیں۔

وزیرِ خارجہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘میری سمجھ کے مطابق ملک چھوڑنے کا فیصلہ ہی واحد معقول آپشن تھا۔’

انھوں نے کہا کہ انھیں لتھوانیا میں رہنے کی جگہ اور ایک سال کا ویزا دیا گیا ہے۔

https://twitter.com/LinkeviciusL/status/1293055918586953730

کیا فرار کسی ڈیل کے تحت ہوا؟

تیخانوفسکایا جب پیر کو انتخابی نتائج کی شکایت درج کرونے گئیں تو انھیں سات گھنٹے کے لیے زیر حراست رکھا گیا۔

ان کے ایک ساتھی کے مطابق انھیں حکام کی زیرِ نگرانی ملک سے باہر بھیجا گیا اور یہ ایک ڈیل کا حصہ تھا جس کے بدلے ان کی مہم کی مینیجر ماریہ موروز کی رہائی ممکن ہوئی۔ انھیں جمعےح کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اب سامنے آنے والی ایک اور ویڈیو میں وہ بظاہر اپنی حراست کے دوران وہ سر جھکائے ایک تحریری بیان پڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں جس میں وہ اپنے حامیوں پر ‘قانون کی پاسداری’ کرنے اور مظاہروں سے دور رہنے کے لیے زور دے رہی ہیں۔

ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو حکام نے ان پر دباؤ ڈال کر ریکارڈ کی۔

https://twitter.com/ChristopherJM/status/1293132733733052418

تیخانوفسکایا نے مزید کیا کہا؟

اپنی ویڈیو میں انھوں نے کہا کہ ملک چھوڑنے کا ان کا فیصلہ ‘مکمل طور پر آزادانہ’ تھا اور ان پر کسی شخص نے دباؤ نہیں ڈالا، بھلے ہی لوگ اس کی ‘مذمت’ کریں گے اور اس کے لیے ان سے ‘نفرت’ کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اس وقت جو ہو رہا ہے، یہ کسی کی بھی جان سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ بچے ہماری زندگیوں میں سب سے اہم ہیں۔’

انھوں نے اپنے بچے انتخابات سے پہلے ہی لتھوانیا بھیج دیے تھے۔

مظاہرے کتنے بڑے ہیں؟

منسک اور دیگر شہروں میں اتوار کو پولنگ کے اختتام کے ساتھ ہی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو لگاتار تین راتوں تک وسیع پیمانے پر جاری رہے۔

پولیس نے دارالحکومت میں جمع ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربر کی گولیاں، آنسو گیس اور سٹن گرینیڈ استعمال کیے۔

کریک ڈاؤن کی سختی نے کئی مبصرین کو حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ ان میں سے کئی ہتھیار اس سے قبل بیلاروس میں استعمال نہیں کیے گئے تھے۔

اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے بھی رکاوٹیں تعمیر کرنے کی کوشش کی اور اہلکاروں پر پیٹرول بم پھینکے۔

بیلاروس

نقشہ جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بیلاروس میں نو اور 10 اگست کو مظاہرے کہاں کہاں ہوئے

حکام کا کہنا ہے کہ ہاتھوں میں دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے ایک احتجاجی شخص کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ نیٹ بلاکس نامی تنظیم کے مطابق اتوار کو پولنگ کے اختتام سے اب تک انٹرنیٹ میں ‘خاصی بندشیں’ رہی ہیں۔

لوکاشینکو کی حکومت کو اس مرتبہ کورونا وائرس کے خلاف اپنے ردِ عمل کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔

صدر نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ اس وبا سے نمٹنے کے لیے ووڈکا پیئیں اور سوانا کا استعمال کریں۔

95 لاکھ آبادی والے اس ملک میں اب تک 70 ہزار لوگوں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp