کشمیر کے نوجوان سیاستدان شاہ فیصل نے ڈیڑھ سالہ سیاسی سفر کے بعد سیاست سے کنارہ کیوں کر لیا؟


کشمیر

انڈین میڈیا کے مطابق شاہ فیصل کو دلی ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا

گذشتہ برس فروری میں کشمیر کے سیاسی منظر نامے پر اُبھرنے والا نیا چہرہ 37 سالہ شاہ فیصل کا تھا۔

2010 میں انڈیا کی قومی سِول سروس کے امتحان میں اولین پوزیشن لے کر فیصل پہلے ہی کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے انڈیا میں نام کما چکے تھے۔

کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے بعد انھوں نے سرکاری نوکری سے مستعفی ہو کر ‘جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ’ نامی تنظیم قائم کی جس میں اُن کے ساتھ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں زیرتعلیم سٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید بھی شامل تھیں۔

گذشتہ برس پانچ اگست کو جب کشمیر کو انڈین آئین کے تحت حاصل نیم خودمختاری کا خاتمہ کیا گیا تو عوامی ردعمل کو دبانے کی خاطر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔

دیگر ہند نواز لیڈروں کے ساتھ ساتھ شاہ فیصل بھی گرفتار ہوئے تاہم چند ماہ بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔

رہائی کے بعد وہ نئی دلی پہنچے تو انھیں ائیرپورٹ سے گرفتار کر کے واپس سرینگر میں ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کر دیا گیا۔

اس دوران شہلا رشید پارٹی چھوڑ چکی تھیں۔

فیصل کو حالیہ دِنوں نظربندی سے رہا کیا گیا تو انھوں نے سب سے پہلے اپنی ہی پارٹی سے استعفیٰ دے کر یہ اعلان کر دیا کہ وہ سیاست ترک کر رہے ہیں۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران فیصل نے کہا کہ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ گذشتہ برس پانچ اگست کو اُن کے سیاسی وِژن کی شکست ہوئی ہے۔

‘میں نے جمہوری عمل کو مضبوط کرنے کی بات کی تھی، لیکن پچھلے سال جو کچھ ہوا اُس سے یہاں اجتماعی بیانیے پر جذبات کا اس قدر غلبہ ہوگیا ہے کہ اگر کوئی سیاستدان یہ کہے کہ نئے حقائق کو تسلیم کیا جائے تو وہ ‘گستاخی’ ہوگی۔’

شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ کشمیر میں زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں اور ‘میں اب اپنی بات کو لاگ لپٹ کے بغیر نہیں کہہ پاؤں گا۔ میں نہایت ندامت کے ساتھ سیاست کو خیرباد کہہ رہا ہوں کیوں کہ میں لوگوں سے ایسے وعدے نہیں کرسکتا کہ میں یہ کروں گا اور وہ کروں گا۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے پاس ایسا کچھ کرنے کا اب کوئی اختیار نہیں۔’

شاہ فیصل سے متعلق پڑھیے

کشمیر کے ‘باغی’ افسر شاہ فیصل کون ہیں؟

کشمیری رہنما شاہ فیصل کو حراست میں لے لیا گیا

کشمیر

شاہ فیصل نئے حالات سے بددل ہوکر سیاست چھوڑ رہے ہیں کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت کے ادارہ جاتی سسٹم میں تعاون سے بھی احتراز کریں گے؟

اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ‘میں سیاست چھوڑ چکا ہوں، سِسٹم نہیں۔ میں ایک ذیلی نظام سے دوسرے ذیلی نظام میں منتقل ہوا ہوں۔ میری مہارت عوامی انتظامیہ ہے اور میں حکومت کے ساتھ کام کرنے میں نہیں ہچکچاؤں گا۔ لیکن یہ کب اور کیسے ہوگا میں اس وقت اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا۔’

شاہ فیصل کا الزام ہے کہ کشمیر کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ کشمیری سماج کسی پر اعتماد نہیں کرتا اور چھوٹے چھوٹے مسائل پر بھی عوامی اتفاق بمشکل ہوتا ہے۔

‘جب میں نے سیاست شروع کی تو مجھے کٹھ پتلی کہا گیا اور جب میں سیاست چھوڑ رہا ہوں تو مجھے پھر کٹھ پتلی کہا جا رہا ہے۔ مُجھے ہنسی آتی ہے اور مجھے اب فرق نہیں پڑتا۔’

قابل ذکر ہے کہ شاہ فیصل نے اعلیٰ سرکاری عہدہ چھوڑ کر سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنانے کا فیصلہ پچھلے سال ایسے وقت کیا تھا جب نئی دلی کی مودی حکومت یہاں کی روایتی سیاست کو مسلسل خاندانی راج قرار دے رہی تھی۔

نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کو عبداللہ اور مفتی خانوادوں کی جاگیر جبکہ کانگریس کو گاندھی خاندان کی ملکیت قرار دے کر یہاں ایک خالص سیاسی متبادل کا بیانیہ زور و شور سے متعارف کیا گیا تھا۔

شاہ فیصل نے سرینگر کہ ایک پارک میں جب 500 حمایتیوں کے ہمراہ ‘پیپلز موومنٹ’ کی بنیاد رکھی تو انھوں نے یہ نعرہ دیا: ‘ہوا بدلے گی۔’

چند ماہ بعد نئی دلی میں ایک بار پھر نریندر مودی کی حکومت بھاری اکثریت سے اقتدار میں واپس لوٹی اور کشمیر میں ایسی ہوا بدلی کہ اگست کے پہلے ہی ہفتے میں 70 سالہ تاریخ پلٹ دی گئی۔

مبصرین شاہ فیصل کے بارے میں مختلف زاویوں سے تجزیہ کرتے ہیں۔ اکثر کا خیال ہے کہ شاہ فیصل نئی دلی کے ’ناکام سیاسی تجربے کی بھینٹ چڑھ گئے‘، جبکہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ ’اب کشمیر میں مقامی سیاست کے سبھی امکانات کو ختم کیا جا رہا ہے‘۔

کشمیر

انڈیا کے معروف صحافی اور تجزیہ نگار بھرت بھوشن نے اپنی تازہ تحریر میں لکھا ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے حکومتِ ہند کشمیر میں سیاسی متبادل کی پشت پناہی کرنا چاہتی ہے لیکن یہ سبھی تجربے ناکام ہوگئے۔

بائیں بازو کے نظریات کی حامل ویب سائٹ ‘کوئینٹ’ میں شائع شدہ بھرت بھوشن کے مضمون کی سُرخی ہے: ‘شاہ فیصل کی گھر واپسی: جموں کشمیر میں سپانسسرڈ سیاست کیوں ناکام ہوئی۔’

اس طویل مضمون میں بھرت بھوشن نے ذرائع کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ اب نئی دلی کا مسئلہ یہ ہے کہ شاہ فیصل کی زندگی کو واپس پٹری پر لانے کے لیے اُن کی جگہ کہاں بنائی جائے۔

ان کے مطابق: ‘یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ فیصل کو گورنر کا مشیر تعینات کیا جائے گا۔ سیاسی میدان میں ناکامی کے بعد یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس عہدے پر کوئی کمال کریں گے یا نہیں۔’

گذشتہ برس سرکاری عہدے سے مستعفی ہونے کے فوراً بعد بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران جب فیصل سے پوچھا گیا کہ کیا وہ علیحدگی پسندوں کی حریت کانفرنس میں شامل ہورہے ہیں، تو انھوں نے جواب میں کہا تھا: ‘میرے پاس کردار کی وہ قوت نہیں ہے جو علیحدگی پسندوں نے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے ظاہر کی ہے۔’

سرینگر سے نئی دلی تک مسلسل ڈیڑھ سال سے شاہ فیصل سرُخیوں میں رہے اور کئی حلقے اُن کے سیاست میں داخلے کو کشمیر میں نئی تبدیلی کا ضامن بھی سمجھتے رہے، لیکن سیاست سے کنارہ کر کے دوبارہ اپنی ہی تنخواہ پر کام کرنے کے خواہش مند شاہ فیصل کیا اب بھی نوجوانوں کے لیے ایک ’رول ماڈل‘ ہی رہیں گے۔

کشمیر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی سکالر انشا آفرین کہتی ہیں: ‘پہلے انھوں نے پوری قوم کو یہ دلاسا دیا کہ سول سروس کرو، افسر بنو میں رہنمائی کروں گا۔ پھر سیاست کا سٹیج سجایا اور کہا میرے ساتھ جُڑ جاؤ، ہوا بدلے گی۔ میرے خیال میں شاہ فیصل سے متعلق جو کچھ بھی پچھلے چند برسوں میں سامنے ایا وہ خود شاہ فیصل اور اُن کی ذاتی خواہشات سے متعلق تھا، اس کا کشمیر کے مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp