مسجد میں ناچ


حاجی صاحب غصے میں تھے۔ بڑا کاروبار ہے۔ کھارادر میں بڑا ٹھیہ جما کر بیٹھے ہیں۔

میمن مسجد میں جمعہ پڑھنے آئے تھے۔ نماز کے بعد مسجد کے صدر دروازے پر ملے تو ٹھک سے پوچھ لیا کہ سیٹھ تیرے پاس وہ چھوکری کا واٹس اپ نمبر ہے۔ ہم نے پوچھا کس کا ریحام خان کا۔ انہیں حاجی صاحب نے اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا۔ میمنی میں ایڈی وڈی گالی دے کر کہنے لگے کہ نہیں اڑے اس نچوڑی کا جو مسجد بادشاہ خان میں ناچتی ہے۔ ہم نے درست کیا کہ مسجد وزیر خان۔ فون نمبر نہیں۔ ہو بھی تو یہ عورتین نامحرم مردوں کے فون کا جواب نہیں دیتیں۔ نمبر ہوتا تو بھی ہم نہ دیتے۔ کیا بعید کسی کو سپاری پکڑا دیتے۔ سپاری توآپ جانتے ہیں نا۔ ممبئی کے ٹپوڑیوں اور بھائی لوگ کی بولی میں اجرتی قتل کی رقم۔

اس پر کچھ لکھ۔ انہیں ہمارے ایڈیٹر وجاہت مسعود پہلے برے لگتے تھے۔ جب سے ہم نے ہم سب پر لکھنا شروع کیا، اب کم برے لگتے ہیں۔ ہم نے کہا ضرور۔ سو لکھتے ہیں۔ کہنے لگے خلیل کی بریانی ہے چھریری (کتری ہوئی پیاز، دہی اور چقندر) کے ساتھ چل آفس تیرے کو کھلائوں۔

ہمارا واسطہ ان سے شام کی محافل کا ہے۔ حاجی صاحب کی شام کی نشست بریلوی اور دیوبندی مسلک کے دوستوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ اثنا عشری شیعہ کھوجے بھی آتے ہیں۔ ایک دو اسماعیلی دوست بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے جیسے تکفیری، ملا عمر کے گرویدہ، دیوبندی، سلفی بھی اس طعام المسکین پر پہنچ جاتے ہیں۔ شرکا کا پس منظر میمن گجراتی ہوتا ہے اس لیے دین اور دھندے کے پیچھے لڑائی نہیں ہوتی۔ یہ سب مل جل کر ن لیگ کو چور، پی پی کو شدید متعصب اور پی ٹی آئی کو اس بچے کی طرح سمجھتے ہیں جو ہر مزار پر دعا اور ویاگرا کے کارٹن کے کارٹن کھا جانے کے بعد بعد بھی کم بخت مردہ ہی پیدا ہوا یعنی .Still Born یہ ہی وجہ ہے کہ ان نشستوں میں سیاست پر بات نہیں ہوتی۔

آج ہماری موجودگی کا لابھ لے کر کھارادر کے دفتر میں دو تین پاس پڑوس کے مشترکہ واقف کاروں کو بلالیا اور برنس روڈ سے ربڑی بھی منگا لی۔ محفل سج گئی تو بطور صدر مجلس حاجی صاحب نے کلام کا آغاز کیا۔ ان سب کے سامنے ہمارے میمن مسجد سے اپنے بھانجے عبید کے کالے ڈالے میں صحافی مطیع اللہ جان جیسے اغوا کی تمہید باندھی۔ مجلس کو قرار آیا تو سلسلہ گفتگو دراز ہوا۔

آج یہ وسیع المسلک اجتماع ایک بات پر شدید رنجور تھا کہ مسجد وزیر خان میں یہ سب کیوں ہوا؟

فرمانے لگے مو قع محل بھی کوئی بات ہے۔ کسی اور کو نہ سہی پڑھے لکھے سیلیبریٹی کا اسٹیٹس کے دعوے دار لوگوں میں شعور مقام(Sense of Occasion )  اور شعور ملکیت ( Sense of Propriety)  تو ہونا چاہیے۔ اتنی ہائی سوسائیٹی میں سوتے جاگتے ہیں (اٹھنے بیٹھنے کی جگہ سونے جاگنے پر غور فرمائیں)۔ ناچ گانا کرنا تھا تو کوئی پرانی حویلی، کوئی فارم ہائوس، کوئی سیٹ لگا لیتے۔ وکٹر میچور کی سیمسن اینڈ ڈی لائیلا، انتھونی کوئین کی ہنچ بیک آف نوٹرے ڈیم، مغل اعظم، بین حر، پدماوتی جیسی فلمز بھی تو سیٹ پر شوٹ ہوئی تھیں۔ مسجد کے اجازت نامے کی شق دو میں لکھے لا تھا کہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے مسجد یا دین کی توہین ہوتی ہو۔ اس کے باوجود ان کا کاکروچ سے چھوٹا دماغ نان اشوز کو اشوز بنانے اور انتشار پھیلانے ادھر ہی گھستا ہے۔

حاجی صاحب کے ذہن میں پہلے کبھی کسی حوالے سے مذکور ہمارے دو نکات تھے، سو لاگ لپٹ میں ان کا حوالہ بھی دے دیا۔ جتانے لگے کہ کبھی ویسٹ منسٹر ایبے، ٹین ڈائوننگ اسٹریٹ یا وٹیکن کے اندر کوئی شوٹنگ نہیں ہوئی حالانکہ ڈان برائون کی ڈا وانچی کوڈ پر بنی فلم کا غالب منظر نامہ وٹیکن کے اندر کا ہے۔ سیٹ لگا لیا۔ کام چلا لیا۔

نامور ہدایت کار اسٹیون اسپل برگ جو کٹر یہودی ہے وہ چاہتا تو اپنی فلم Raiders of the Lost Ark کا منظر نامہ تابوت سکینہ کے حوالے سے برالارواح یعنی روحوں کا کنواں (Well of Souls) یہودی عقیدے کی رو سے مسجد الاقصی کے احاطے میں قبتہ ال صخرا The Dome of Rock کے نیچے کا وہ غار نما کمرہ جہاں ان کی ارواح صالح کا مسکن ہے۔ (مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق اس کمرے کے پلیٹ فارم سے براق، آقائے دو جہاں سید الانبیاﷺ کو معراج پر پر لے گیا تھا)۔ اس نے دماغ استعمال کیا۔ یہ سوچ کر کہ بیت االمقدس یا مسجد الاقصی جیسا سیٹ لگانے سے بلا وجہ مخاصمت جنم لے گی۔ بہتر ہے کہ فلم کی باکس آفس کامیابی پر توجہ دی جائے۔ اس نے یہ ساری شوٹنگ مصر کے قدیم شہر تانس میں کی۔

حاجی صاحب نے سورہ التوبہ کی آیت نمبر اٹھارہ کاحوالہ دیا کہ :

’’مسجدیں وہ آباد کرتے ہیں۔ جو اللہ اور قیامت پر ایمان لائے وہ ہی نماز بھی قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں۔ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت سے سرفراز ہوں۔ اسی سورہ میں آیت نمبر ایک سو آٹھ میں بیان کیا گیا ہے کہ مساجد میں وہ عبادت کرتے ہیں جو تقوے اور طہارت کے طلب گار ہیں اور اللہ کو ایسے ہی مطاہر افراد پسند ہیں۔ انہوں نے صحیح مسلم سے سیدالانبیا ﷺکا یہ ارشاد مبارکہ بھی سنایا کہ ’’ مساجد زمین کے وہ خطے ہیں جو اللہ کو بہت عزیز ہیں‘‘۔

حاجی صاحب کا بھانجا عبید جسے برطانوی گلوکارہ دعا لپّا (Dua Lipa) بہت پسند ہے۔ اس کے خلائی مخلوق والے کالے ڈالے میں ہر وقت اس کا گیت Physical بجتا رہتا ہے۔ اس نے کونے میں بیٹھے بیٹھے صدائے فساد بلند کی ’’ماموں میں نے وہ کلپ دیکھا ہے۔ چھوکری نے ایک چھوٹا ساTwirl  (گھومر) ہی تو ڈالا ہے۔ کپڑے بھی پورے پہنے ہیں۔ آپ کو بھی تو فلم پدماوتی میں دیپکا کا گھومر بہت اچھا لگا تھا‘‘۔

ماموں نے بھی لہجے میں مصنوعی غصہ شامل کرکے پلٹ کر جواب دیا کہ گدھیڑی کے(گدھی کے بچے) تیری ممانی دیپکا نے مسجد میں گھومر ڈالا تھا؟ دماغ کا نکھود (برباد کرنا) مت نکال۔ دل پر ہات رکھ کر بول، تیری یہ چالیس برس کی گھیڈی (میمنی گجراتی میں بوڑھی) ایکٹریس اب ایسی لوزر ویڈیو بنا کر، تیری دعا لپا کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ ماموں کو ویسے آریانا گرانڈی، بلی ایلش اور ٹیلر سوفٹ کے نام بھی معلوم تھے مگر انہوں نے انگریزی کے محاورے میں کمرپیٹی کے نیچے وار (Below the Belt) کیا۔ دعا لپا کا نام دیپکا پڈوکون والے اعتراض کے جواب میں لیا۔

میمن بھی یہودیوں اور افغانیوں کی طرح بہت منتقم مزاج (Vindictive) ہوتے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ چوبیس برس کی باجی دعا لپا دنیا کی وہ واحد خاتون گلوکارہ ہے جس کے چار گانے میوزک ایپ سپوٹی فائی پر سو کروڑ کے قریب اسٹریم ہوئے ہیں۔ یہ اب جو بہت سے ٹاک شوز والے آدھی روٹی پر دال لے کر ڈالر کمانے کے لیے یوٹیوب پر پہنچ گئے ہیں، ان کو پتہ ہے کہ سو کروڑ ہٹس کا ڈالر سینٹس میں کیا مطلب بنتا ہے۔

سلیم مکاتی جو وہاں موجود تھا۔ اسے سماعتوں کی کوکھ میں پلا بڑھا لبرل سمجھیں۔ سارا علم سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ مجال ہے زندگی میں کبھی پلے بوائے بھی کبھی کھول کر دیکھا ہو۔ اس کا بشکک (کرغزستان) کے ایک فارم ہائوس ہے۔ دیہاتی خواتین کا جو ارد گرد کے کارخانوں میں کام کرتی ہیں ان کا ایک کھائو کھلائو، پیئو اور سوجائو کے اصول کے تحت جاری و ساری اپنا حرم آباد ہے۔ لونڈی کے ادارے کو جائز مانتا ہے۔ جواز خلافت عثمانیہ سے ڈھونڈتا ہے عثمانی خلیفہ 1920 تک حرم آباد کر کے بیٹھے تھے۔ انارکلی کنیز تھی۔ ہمایوں ملکہ حمیدہ بیگم (جو شہنشاہ اکبر کی والدہ تھی) اسے شادی سے قبل اپنی ایک کنیز میوہ جان پر فریفتہ تھا۔ ویسے تو وہ گرمیوں میں یہاں نہیں ہوتا مگر کووڈ کی وجہ سے پھنس گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ جو مانسہرہ میں قاری شمس الحق نے مدرسے میں چھوٹے بچے کے ساتھ زیادتی کی تھی وہ بہت اچھا کام تھا۔

حاجی صاحب نے آنکھیں سکیڑ کر ہماری طرف دیکھا کہ اب ہم رومن گلیڈیئٹر کی طرح شیروں کے اکھاڑے میں اتریں۔ سلیم انسان بہت اچھا ہے۔ دل کا بڑا اورہمدرد۔

ہم نے سمجھایا کہ وہ ایک فرد کا نجی فعل ہے۔ ہر چند کہ وہ ایک بد ترین گناہ ہے۔ سخت ترین سزا کا مستحق۔ اس طرح کے افعال کرنے والے کا تعلق عام طور پر معاشرے کے ایک ایسے محروم طبقے سے ہوتا ہے جو اچھے اسکولوں سے نہیں پڑھا۔ ممکن ہے دوران تدریس اسے شاید خود بھی اس طرح کے بدترین افعال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ خیرات اور چندے کے طعام نے اس میں شرف انسانیت کو بھی بہت مجروح کیا ہو گا۔

 اس بے چارے کو کیوں سنگل آئوٹ کریں۔ لاہور کے ایک بڑے اسکول اور کئی جامعات میں بھی استاد جنسی زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ آپ کو جامعہ سندھ کی نائلہ رند، نمرتا کماری اور زنا کے الزام میں زیر حراست صدر شعبہ اسلامیات ماسٹر عبداللہ آف گومل یونی ورسٹی تو یاد ہوں گے۔ سب کو چھوڑیں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس گوگوئی بھی اپنی ایک سیکرٹری سے نازیبا حرکات کے مرتکب پائے گئے تھے۔ کلنٹن اور مونیکا لیونسکی بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ آپ فرد کے فعل کو مذہب یا ادارے کی برائی مت بنائو۔

امریکہ کا آئین بہترین ہے۔ سعودی عرب میں قتل اور بچوں سے جنسی زیادتی کے جرائم پر سر عام سر قلم کردیے جاتے ہیں اورایران میں سر عام پھانسی دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود وہاں یہ جرائم سرزد ہوتے ہیں۔ برطانیہ ایم آئی سکس کے اہم جاسوس سر پیٹر ہیمن پرسن 1981, بچوں سے جنسی زیادتی کا الزام لگا تھا۔ حضرت ایسے دھتیلے نکلے کہ کسی مشن پر گئے تھے وہاں بچوں کے ساتھ اپنی تصاویر کا پلندہ ٹرین میں بھول گئے تھے۔ پولیس کے ہات جب یہ خزانہ لگا تو بہت ہنگامہ ہوا۔ مارگریٹ تھیچر نے تحقیقات رکوا دیں تھیں کہ آدھی پارلیمنٹ لپیٹ میں اور شاہی خاندان کے افراد اس اسکینڈل کی زد میں آ رہے تھے۔

ہم نے سلیم کو سمجھایا کہ مذہب اور اس کے پیروکار دو مختلف معاملات ہیں۔ ہم مشرق کے لوگ اکثر یہ غلطی کرتے ہیں کہ آئیڈیا اور شخصیت کو گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہماری تاریخ بھی ہمارا عقیدہ بن جاتی ہے۔ معاملہ اس کے برعکس ہے ہمارا دین کا عقیدہ ہم پر اللہ کی قرآن کی صورت میں نازل ہونے والی عنایت عظیم ہے۔ تاریخ انسانوں کے اعمال ہیں۔ انسان اچھے برے ہوسکتے ہیں تو ان کے اعمال و افعال بھی اچھے برے مانے جائیں گے۔ بدھ مت کے پیروکار بہت نرم دل اور اچھے مانے جانتے ہیں مگر روہینگیا مسلمانوں پر ان کی بربریت اور مظالم اپنی انتہا پر تھے۔

 کسی نے جتایا کہ قبول کی میوزک ویڈیو میں دو آپشنز موجود تھے۔ لوکیشن مختلف رکھی جا سکتی تھی۔ ناچ سے گریز کیا جا سکتا تھا، ایک باشعور جوڑے کی جانب سے اس طرح کا فعل برا ہے۔ ہم اپنی عبادت گاہوں کی عزت نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔

جب آپ بدکار مذہبی لوگوں کی مساجد اور مدارس میں بچوں سے زیادتی کی مثالیں عام کرتے ہو تو یہ بھول جاتے ہو کہ اس وقت کیتھولک چرچ کو سب سے بڑا خطرہ اسلام یا کسی اور مذہب سے نہیں بلکہ اس طوق بدنامی سے ہے جو دنیا کے اسی سے زائد ممالک میں ان کے پادریوں پر چلنے والے بچوں سے زیادتی کے واقعات سے ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو بے تحاشا گھٹن ہے مگر یورپ امریکا، کینیا، نائجریا، نیوزی لینڈ اور دیگر ممالک میں تو معاشرہ آزاد ہے۔ ایسا ہی ہندوستان میں بابوں کا بھی برا حال ہے۔ سدھ گورو کے علاوہ اکثر بابے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اس میں گجرات کا بابو آسا رام تو اٹھارہ ہزار کروڑ روپے کے فنڈز کا مالک بھی ہے۔

رخصت ہونے سے پہلے ہم نے سلیم مکاتی کو ایک جوک سنایا کہ گیان کھوج میں ایک بال برہمچاری ایک پہاڑ پر ڈیرہ جمائے گرو سے گیان لینے پہنچا۔ جاڑا شدید تھا۔ قلیل گفتگو کے لیے مشہور گورو نے پوچھا کہ تلسی کہ اورنج پیکو (لوپ چو اسٹیٹ کی اعلی ترین چائے)۔ حریص تھا۔ جھٹ سے کہہ بیٹھا کہ جاڑا بہت ہے، لوپ چو کی چائے ہی مزہ دے گی۔ گورو نے کٹیا کی طرف دیکھ کر آواز ماری، تلسی مہمان کے لیے چائے لے آئو۔ جواں سال برہمچاری نے حسن کہسار تلسی کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ کیا نقصان ہوا ہے۔

بریانی اور ربڑی آئی تو یہ بھی خبر آئی کہ اسٹاک مارکیٹ نے بادلوں کی طرح جھوم کے انگڑائی لی ہے تو کیسی مسجد بادشاہ خان، کونسی سی دعا لپا اور بغیر بیلنس کی صبا قمر کیا، کہاں کا غصہ۔ امی جان کہتی تھیں، کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan