آدھی نوجوان آبادی کو جاب چاہیے، باقی تو لڑکیاں ہیں


لڑکیاں، لڑکے اور ٹرانس جینڈر پاکستانی نوجوان، کیا ہے ان کے پاس۔ کیا دیا ہے انہیں ہم نے۔ نوجوانوں کے سوچنے سمجھنے اور سوال اٹھانے کی اہلیت ہم نے چھین لی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے فساد روک لیا ہے لیکن اصل میں ہم نے مکالمہ، ترقی اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے مواقع روکے ہوئے ہیں۔ اب ہم انسان کے بچوں کو گائے کے بچھڑوں کی طرح پالتے ہیں اور بچھڑوں کو گھاس یا مشین کی طرح، اپنے استعمال کے لیے۔

اکثر دنیا میں نوجوانوں کا اپنا ایک یوتھ کلچر ہوتا ہے۔ یوتھ کلچر بڑوں کے کلچر سے مختلف ہوتا ہے۔ اس میں نوجوان اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے ہم جولیوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ایک آزادی کی فضا ہوتی ہے۔ اور اس آزادی سے ان کی انرجی کو ایک مثبت سمت ملتی ہے۔ یہ انسان کی زندگی کا ایک ایسا دور ہوتا ہے جس میں ذمہ داریاں کم ہوتی ہیں اس لیے زندگی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے پاکستانی نوجوانوں کو یوتھ کلچر میسر نہیں ہے۔

ہمارے ہاں یوتھ کی کوئی آمدنی نہیں ہوتی۔ ساری دنیا میں نوجوان لوگ چند گھنٹے ہفتے میں ضرور کام کرتے ہیں۔ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں برتن دھونے یا ٹیبل صاف کرنے کے کام اور چھوٹے بڑے سٹوروں میں شیلف ری فل کرنے اور صفائی کے کام اچھے بھلے کھاتے پیتے گھروں کے نوجوان کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ممکن اس لیے ہے کیونکہ وہاں کوئی کام “چھوٹا اور گھٹیا” نہیں سمجھا جاتا۔ وہاں ویٹر یا صفائی کا کام کرنا کسی کی عزت کو کم نہیں کر دیتا۔ جب کہ یہاں “چھوٹے کام” “چھوٹے” اور غریب لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ یہ “عزت دار” لوگوں کے شایان شان نہیں ہے۔ جب کہ ہم اصل میں “چھوٹے کام” کو چھوٹا نہیں سمجھتے۔ مثلا رشوت لینا یا دینا بے عزتی کا باعث نہیں ہے۔ یعنی باپ رشوت لے کر نوجوان بچوں کے اخراجات پورے کرتا ہے تو عزت خراب نہیں ہوتی لیکن بچے ریستوران میں ٹیبل صاف کر کے اپنے اخراجات خود پورے کریں تو عزت خراب ہو جاتی ہے۔

نوجوانوں کا بے بس ہونا اور یوتھ کلچر کے نہ ہونے کی ایک وجہ آمدنی کا نہ ہونا بھی ہے۔ پرابلم اس سے بڑہ کر بھی ہے۔ آدھی یوتھ آبادی کو تو آمدنی حاصل کرنے کی اجازت ہی نہیں۔ وہ تو لڑکیاں ہیں۔

ہماری یوتھ کے پاس ہے کیا؟ ہماری یوتھ کے پاس ذمہ داریاں ہیں۔ ولیمے، جہیز اور مرنے کی تقریبات کے اخراجات ہیں۔ اپنے والدین کے بچوں کو پالنے کی ذمہ داری ہے۔ ہماری امی اور ابا نے بھی تو والدین کے بچے پالے تھے۔

سوچ سمجھ کی جگہ ہمارے نوجوان کے پاس سازشی تھیوریاں ہیں۔ جن کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کو بغیر پڑھے، بغیر سیکھے سب کچھ پتا ہے۔ ابھی کی بات کریں تو کورونا کیا ہے، کس نے بھیجا ہے، کیوں بھیجا ہے، ہمیں سب پتا ہے۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ ویکسین کے اندر چپ ڈال کر کیسے ہمیں بانجھ اور بے غیرت بنانے کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالر بھی کمائے جائیں گے۔

تعلیم اور تربیت کے لیے ہمارے نوجوان کے پاس جھوٹ بھرا نصاب ہے۔ متکبر استاد ہے۔ تنقیدی سوچ پیدا کرنے والی مشق کی بجائے رٹا اچھے گریڈ لاتا ہے۔ ہماری تعلیم و تربیت انسانوں کے درمیان برابری کی بجائے انسانوں میں تفریق سکھاتی ہے۔ انہیں متکبر بناتی ہے جو کہ تعلیم کی بجائے جہالت کا مظہر ہے۔ ہماری تعلیم عملی زندگی سے کوسوں دور ہے۔

ہماری تعلیم بے روزگار پیدا کرتی ہے۔ ایک نوجوان ایف اے یا بی اے پاس کر لیتا ہے تو وہ ہاتھ سے کام کرتا نہیں جبکہ اس کے علاوہ اسے کوئی کام کرنا آتا نہیں۔ اگر کسی کاشت کار فیملی کے دو بچے ہوں اور ایک کالج چلا جائے تو وہ کالج مکمل کرنے کے بعد بے روزگار ہو گا کیونکہ وہ کھیتی باڑی تو کرے گا نہیں اور وائیٹ کالر جاب اسے ملے گی نہیں۔ جب کہ جو کالج نہیں گیا وہ باروزگار ہو گا کیونکہ وہ فیملی کے ساتھ کھیتی باڑی کر رہا ہو گا۔

ہمارے نوجوانوں کے پیکج میں شامل ہے شادی۔ بچپن کی شادی، زبردستی کی شادی اور بغیر تولیدی صحت کی تعلیم کے بچے۔ دھڑا دھڑ بچے۔ بہن بھائیوں اور بچوں کی عمروں میں اتنا کم فرق کہ مکس ہی ہو جاتے ہیں۔

یاد دلاتا چلوں کہ نوجوان آبادی صرف وہ نہیں جنہیں کالج یا یونیورسٹی جانے کا موقع ملا ہے۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے سکول اندر سے نہیں دیکھا۔ اس وقت بھی پاکستان میں پانچ سے سولہ برس کی عمر کے دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچیاں اور بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پندرہ سے تیس سال کی عمر کے کروڑوں نوجوانوں کو بھی سکول نصیب نہیں ہوا تھا۔

نوجوانوں کی آدھی تعداد لڑکیاں ہیں جن کی زندگیوں کا مقصد ہی گھر والوں کے لیے تازہ گول روٹی، گھر کی صفائی اور کرائے کے مکان کے کئی وارث پیدا کرنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آج نوجوانوں کا عالمی دن ہے اور ہم نے سوچنا ہے کہ ہماری نوجوان آبادی کو آج کے دن کا تو علم نہیں لیکن دو دن بعد یوم آزادی مناتے ہوئے موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کے علاوہ کیا کیا کر سکتی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik