جنرل ضیا الحق، اختر عبد الرحمن اور خاقان عباسی


1988 کا ذکر ہے۔ قریبی عزیزہ نے پوچھا: تالپور صاحب کی برسی میں چلو گے، جنرل ضیا الحق بھی آئیں گے؟ چند لمحے سوچا، دونوں شخصیات سے کوئی انسیت اور نسبت تو تھی نہیں، پھر بھی یہ سوچ کر کہ اکیلی کیسے جائیں گی۔ برسی میں جانے کی ہامی بھر لی۔ برسی والے دن بتایا گیا کہ پہلے میر علی احمد تالپور مرحوم کی بیگم کے گھر جائیں گے اور پھر وہاں سے ان کے ساتھ مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب میں۔ سو برسی والے دن بیگم تالپور کے گھر پہنچے اور تھوڑے انتظار کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔

ہوٹل کے اطراف میں کڑے حفاظتی اقدامات تھے۔ ہم چونکہ بیگم تالپور کی معیت میں پہنچے تھے۔ اس وجہ سے بآسانی ہوٹل کی حدود میں داخل ہو گئے۔ خواتین تو اندر تشریف لے گئیں۔ اور ہم ہوٹل کی لابی اور دکانوں میں گھومتے پھرتے، ہوٹل سے باہر نکل آئے۔ کراچی کے نو منتخب شدہ میئر کا ان دنوں خوب چرچا تھا۔ چونکہ ایم کیو ایم نے پہلی دفعہ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تھا اور عظیم الشان کامیابی سے ہم کنار ہوئی تھی۔ ہوٹل کے باہر ہی تھے، کہ میئر فاروق ستار بھی نئی نویلی کالی گاڑی میں سوٹڈ بوٹڈ وارد ہوئے۔ الطاف حسین کے بعد آمنے سامنے کسی بھی ایم کیو ایم رہنما کو دیکھنے کا پہلا اتفاق تھا۔ میئر کو دیکھنے کے بعد متحیر ہی کھڑے تھے، کہ جنرل ضیا الحق کی آمد ہو گئی۔

جنرل ضیا الحق کا استقبال صوبائی حکومتی ارکان اور میئر صاحب نے کیا۔ تقریب کا آغاز ہوا۔ جنرل ضیا الحق نے تقریر کی۔ تقریر سیاست کے علاوہ تحریک آزادی و قیام پاکستان کے بارے میں تھی اور ایک موقعے پر جب جنرل صاحب نے خاکسار تحریک کا تذکرہ کیا، تو ایک نا معلوم صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہو کر تحریک کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ فوری احساس اور خیال دل میں یہی جاگا کہ نامعلوم صاحب کو لاپتا افراد کی فہرست میں شامل ہونے کی خدا داد صلاحیت حاصل ہے۔ نعرے لگا ہی رہے تھے، کہ نا معلوم افراد ان کو چپ کرا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یوں جنرل ضیا الحق کو زندگی میں پہلی اور آخری بار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔

اوجڑی کیمپ دھماکے کے بعد یاسین چچا مرحوم کا فون آیا ( ڈاکٹر یاسین رضوی میرے والد مرحوم کے خالہ زاد بھائی تھے ) اور انہوں نے حادثے سے ہونے والی تباہی، خاقان عباسی مرحوم کی ہلاکت اور اپنی خیریت سے مطلع کیا۔ 29 مئی کو جونیجو صاحب کی حکومت برخاست کر دی گئی۔ نہ کوئی احتجاج ہوا اور نہ شور و غوغا۔ جونیجو صاحب عدالت عظمی سے رجوع کر کے گھر بیٹھ گئے۔ یاسین چچا نے ’چارج شیٹ‘ نامی کتاب لکھی۔ جس میں اوجڑی کیمپ دھماکے کی تفصیلات اور جونیجو حکومت کی برخاستگی کی وجوہ تحریر کی گئیں ہیں۔ جنرل اختر عبد الرحمن کا نام گرامی بھی اوجڑی کیمپ کے حوالے سے ان دنوں خبروں میں تھا۔ جولائی میں نجی کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا۔ قیام یاسین چچا کے گھر ہی تھا۔ ایک صبح چچا کے ساتھ پنڈی کی طرف روانہ ہوئے۔ چچا کی ملاقات جنرل اختر عبد الرحمن سے تھی۔ لیکن چچا مجھے ان کے دفتر لے کر نہیں گئے۔

یاسین چچا قریباً ہر ماہ کراچی تشریف لاتے، قیام قصر ناز یا اطراف کے پنج ستارہ ہوٹلز میں رہتا، ایک دو دن رک کر عموماً بیرون ملک روانہ ہو جاتے۔ مجھ سے خصوصی شفقت و محبت کرتے تھے۔ اس لئے ہر ماہ ان سے ملاقات کو حاضر ہوتا۔ سترہ اگست کا دن تھا۔ یاسین چچا کو تھائی لینڈ روانہ ہونا تھا۔ مجھ سے تھائی لینڈ کے حوالے سے معلومات لیں، چونکہ میں وہاں جا چکا تھا۔ غیر ملکی نجی بینک سے ڈالر خرید کر ہوٹل واپس پہنچے۔ سیاسی و غیر سیاسی باتیں جاری تھیں۔

نفاذ شریعت کے حوالے سے اپنی نئی آنے والی کتاب کا بھی تذکرہ کیا۔ چونکہ ملکی سطح پر نفاذ شریعت کے حوالے سے صدارتی اعلان و خطاب کی بازگشت تھی۔ ٹی وی آن تھا اور وقتاً فوقتاً چچا غیر ملکی نیوز چینلز بدل بدل کر خبریں بھی دیکھ و سن رہے تھے، کہ سی این این سے بریکنگ نیوز آئی، جنرل ضیا الحق امریکی سفیر اور دیگر اعلی سطح کے فوجی رفقائے کار کے ساتھ طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے۔

چچا مرحوم تو شدید صدمے میں تھے۔ لیکن پھر بھی بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ اور ہم پانچ جولائی کے طویل مارشل لا، ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ زیادتی اور پھانسی اور مستقبل کے ملکی حالات کے متعلق سوچتے ساچتے گھر پہنچ گئے۔ جنرل ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد ایک محفل میں موجود تھے۔ موضوع سخن اوجڑی کیمپ حادثہ، خاقان عباسی، جنرل ضیا الحق و جنرل اختر عبد الرحمن کی ہلاکت تھا۔ محفل میں موجود ایک جہاں دیدہ اور با خبر خاتون بولیں : ”یہ سب اموات ایسے ہی ہونی تھیں۔ جنرل ضیا الحق اور خاقان عباسی نے جو کچھ فلسطینی فدائین کے ساتھ کیا۔ کیا ان کی آہیں رائیگاں جاتیں اور اوجڑی کیمپ حادثے کے متعلق تو آپ سب بہتر جانتے ہی ہوں گے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).