کیا آپ روایت سے بغاوت کی قیمت جانتے ہیں؟


(عادل سیماب اور راشد مغل کے زیر انتظام منعقدہ PROFESSOR، S ASSOCIATION FOR STUDENT SERVICES کے بین الاقوامی سیمینار میں 10 اگست 2020ء کو پڑھی گئی اس تحریر کا عنوان  CREATIVE MINORITY۔ ۔ ۔ TRADITIONAL MAJORITY تھا۔)

٭٭٭      ٭٭٭

آج میں تین حوالوں سے بات کروں گا۔ ذاتی حوالہ، تاریخی حوالہ اور نفسیاتی حوالہ۔
عارفؔ عبدالمتین کا شعر ہے
میری عظمت کا نشاں ، میری تباہی کی دلیل
میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو

بیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنے شاعر چچا جان عارفؔ عبدالمتین سے ایک طویل گفتگو کے دوران کہا کہ پچھلے چند برسوں کے تجربے، مشاہدے، مطالعے اور تجزیے کے بعد میں نے روایتی مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہہ دیا ہے تو مجھے روایت کی طرف واپس لانے کی بجائے وہ کہنے لگے، سہیل بیٹا! ہر قوم اور ہر عہد میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اکثریت میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو روایت کی شاہراہ پر چلتے ہیں اور اقلیت میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے ہیں۔ آپ کا تعلق اس اقلیت سے ہے۔ آپ اتنا خیال رکھیں کہ پشاور کے روایتی ماحول میں اپنی بغاوت کا اعلان نہ کریں۔ خاموشی سے ایم بی بی ایس کریں اور کسی مغربی ملک میں جا بسیں اور اپنی مرضی کی زندگی گزاریں۔ اگر آپ نے اس روایتی اور مذہبی ماحول میں بغاوت کا اعلان کیا تو اپنے سچ کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی،

چنانچہ میں نے اپنے دانا چچا کے مشورے پر عمل کیا۔ اورایم بی بی ایس کرنے کے بعد کینیڈا چلا آیا اور ایک ماہر نفسیات بن کر زندگی گزارنے لگا۔

ماہر نفسیات بننے کے بعد میں نے ان ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کیا جو تخلیقی اقلیت کا حصہ تھے اور ساری عمراپنے من کی پگڈنڈی پر چلتے رہے۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ بھاری قیمت کیا ہے جس کا میرے چچا جان نے ذکر کیا تھا۔

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے تخلیقی اقلیت کے نمائندے روایتی اکثریت کے غیر منصفانہ اور غیر انسانی رویوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے اور روایتی اکثریت کے مذہبی ، سیاسی اور سماجی نمائندے انہیں سزائیں دیتے رہے۔

سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ اس پر اعتراض تھا کہ وہ یونان کے خداؤں کو نہیں مانتا ، نوجوانوں کو سوال کرنا سکھاتا ہے اور گمراہ کرتا ہے۔

بقراط کو بیس سال جیل کی سزا دی گئی۔
گیلیلیو کو اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔
منصور حلاج کو سولی پر چڑھا دیا گیا

برٹرنڈ رسل کو امریکہ کی یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے سے منع کر دیا گیا۔ اس پر بھی وہی اعتراض تھا جو سقراط پر تھا کہ وہ نوجوانوں کو گمراہ کرتا ہے۔

نیسلن منڈیلا اور باچا خان کو اپنے نظریات اور آدرشوں کے لیے اپنی زندگی کی ربع صدی جیل میں گزارنی پڑی۔

روایتی اکثریت کے پاس جس قدر مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی طاقت ہوتی ہے، تخلیقی اقلیت کو اپنے سچ کی اتنی ہی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔

تخلیقی اقلیت کو سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ زندگی کی آزمائشیں اتنی دشوار اور پریشان کن ہو جاتی ہیں کہ ادیب اور شاعر، فنکار اور دانشور نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بعض تو خود کشی بھی کر لیتے ہیں۔

ورجینیا وولف نے اپنے کوٹ کی جیبوں میں پتھر ڈالے اور سمندر میں چہل قدمی کرنے چلی گئیں اور کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے پستول کی گولی سے خود کشی کر لی۔ ونسنٹ وین گو نے پاگل پن کے دورے میں اپنا کان کاٹ لیا

میرتقی میر جوانی میں دیوانگی کا شکار ہونے کے بعد بقول علی سردار جعفری کئی ماہ تک گھر میں، زندانی و زنجیری، ہو گئے۔ انہیں اپنے کمرے میں ہی زنجیر سے باندھ دیا گیا کیونکہ وہ گلی میں جاتے تو بچے پتھر مارتے۔

تخلیقی اقلیت کے نمائندے اپنے سچ کی خاطر بہت سی قربانیاں دیتے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک نسل کے ولن اگلی نسل کے ہیرو بن جاتے ہیں ایک نسل کی اقلیت کی پگڈنڈی اگلی نسل کی اکثریت کی شاہراہ بن جاتی ہے۔

تخلیقی اقلیت کے نمائندے چاہے وہ سائنسدان ہو یا سکالر، شاعر ہوں یا دانشور، ارتقا کے سفر میں انسانیت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ ایک منصفانہ اور عادلانہ معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں اور پھر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ انسان دوست ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان اور اپنی قوم سے بالاتر ہو کر پوری انسانیت کے بارے میں فکرمند ہوتے ہیں۔

اگر ہم اس تخلیقی اقلیت کی سوانح عمریاں پڑھیں تو ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر۔۔۔ روایت سے بغاوت اور بغاوت سے دانائی کا سفر ہوتا ہے۔ وہی ادیب شاعر اور دانشور جو جوانی مین باغیانہ تحریریں لکھتے ہیں بڑھاپے میں دانائی کی کہانیاں رقم کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں دھیما پن اور ٹھہراؤ آتا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔

یہ علیحدہ بات کہ بہت سے ادیب شاعر اور دانشور سعادت حسن منٹو ، آسکر وائلڈ، اور فریڈرک نیٹشے کی طرح جوانی میں ہی اس دینا سے کوچ کر جاتے ہیں۔ مصطفیٰ زیدی کا شعرہے

پھر جی حدود سودو زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail