اے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا


۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انا للہ وإنا إلیہ راجعون۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

آج سے تقریباً دس سال پہلے کی بات ہے، یہاں لکھنؤ کے گنگا پرساد میموریل ہال میں آل انڈیا مشاعرہ کا انعقاد تھا، یہ شاید میری زندگی پہلا آل انڈیا مشاعرہ تھا، ان کم عمری والے دنوں میں مجھے بس تھوڑی بہت اردو پڑھنی آتی تھی، مگر شعر فہمی کا خیال تو بعید از قیاس تھا، پھر بھی میں اپنے کچھ خاص عزیزوں کی بدولت صف اول میں نشست اختیار کیے ہوئے تھا۔

اس مشاعرہ میں ملک کے نامور شعراء یک بعد دیگرے اپنا اپنا کلام پیش کر رہے تھے، ڈاکٹر انور جلالپوری صاحب بڑے خوبصورت انداز میں اپنے منصب نظامت پر پالتی مارے جلوہ افروز تھے، کہ اسی درمیان وہ اپنا مائک چھوڑ کر درمیان والے مائک پر آ کھڑے ہوتے ہیں، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ اب تک جلالپوری صاحب بیٹھے بیٹھے سب کو مدعو کر رہے تھے، مگر اب کھڑے کیوں ہو گئے، اسی سوال کی کشمکش میں رہا، کہ انہوں نے ایک جامع تعارف کے بعد بڑے احترام سے ڈاکٹر راحت اندروی صاحب کو مدعو کیا۔

مائک پر آتے ہی ڈاکٹر صاحب نے اپنے خاص انداز میں سامعین کے ساتھ ساتھی شعراء کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا، اور پتہ نہیں کیا ایسا کہا، کہ سب ہنسنے لگے، مجھے لگا کہ یہ تو عجیب شاعر ہیں، مگر جب انہوں نے اپنے اشعار پیش کرنے شروع کیے ہیں، تو ہر شعر پر پورا ہال تالیوں اور قہقہوں سے گونج پڑتا تھا، اس وقت میری عمر کچھ بارہ تیرہ سال کی ہی رہی ہوگی، مگر آج بھی ان کا ایک شعر مجھے یاد ہے، جو انہوں نے اس وقت کی اترپردیش حکومت کو مخاطب کرتے بطور طنز پڑھا تھا۔

اکھڑے پڑتے ہیں میری قبر کے پتھر
تم جو چلی آؤ تو مرمت ہو جائے

راحت اندروی نے ہندوستان کی سرزمین میں جنم لیا، تو یہاں کی محبت ان کے خمیر میں ہونا ایک فطری امر ہے، مگر جو چیز انہیں وطن پرستوں میں ممتاز کرتی ہے، وہ ہے وطن کے لئے ان کی بے لوث محبت اور اپنی مٹی کے لئے سرشاری کا جذبہ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں

میں مرجاؤں تو میری اک الگ پہچان لکھ دینا
لہو سے میری پیشانی پہ ہندوستان لکھ‌ دینا

ملک کی محبت میں وہ اتنے سرشار نظر آتے ہیں، کہ جب انہوں نے محسوس کیا، چند لوگ ہندوستان کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے ہیں، اور اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، تو پھر انہوں نے کہا۔

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

راحت صاحب کو ان کی بے باکی نے الگ پہچان دلائی، ان کے تیور ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ سخت رہے، انہوں نے اہل حکومت کو اپنے طنزیہ لہجہ میں بڑی جرات مندی کے ساتھ چیلنج کیا، اور بہت واضح انداز میں کہا کہ۔

جو آج صاحب مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے

وہ کبھی بھی ملک کے نام نہاد ٹھیکے داروں کو خاطر میں نہیں لائے، اگر سچ بات کہنے پر ناراضگی بھی ہوئی، تو پھر ناراض ہی رہنے دیا، ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔ کہ

اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

جب ان کے قلندرانہ جذبے اور بے باک حوصلہ نے کبھی موت کی پرواہ نہیں کی، تو پھر ان کے سامنے یہ اہل دنیا کیا تھے، کہ

میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے

اپنی طرح وہ سب کو بھی غیرت مند اور باحوصلہ دیکھنا چاہتے تھے، وہ نئی نسل کو بھی جواں مردی کا حوصلہ دیتے ہیں، بزدلی چھوڑنے کی نصیحت کرتے ہیں کہ

لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے پیار و محبت کا پیغام دیا، آپسی روا داری اور بھائی چارگی پر بڑا زور دیا، اور خود کو بھی محبت کے نام پہ وقف کر دیا کہ جاتے جاتے کہہ گئے۔

میرے جنازے پے لکھ دینا یارو
محبت کرنے والا جا رہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).