جنریشن گیپ اور چین کے نوجوان


جنریشن گیپ ہر دور میں اور ہر جگہ موجود رہا ہے۔ بزرگ نوجوانو ں سے شاکی رہتے ہیں اور نوجوان بغاوت پر آمادہ رہتے ہیں۔ اب ہر کوئی سارتر تو نہیں ہوتا جو بڑھاپے میں بھی فرانس کے نوجوانوں میں مقبول تھا۔ ذرا علی گڑھ کے نوجوانوں بلکہ جون ایلیا کے بقول ”علی گڑھ کے لونڈوں“ کے بارے میں سوچئے جو ہاسٹلوں میں رہتے تھے اور والدین سے ”بلاٹنگ پیپر“ خریدنے کے بہانے پیسے منگواتے رہتے تھے۔ اب موجودہ اور اس سے پہلے کی نسل کو تو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ بلاٹنگ پیپر ترجمہ جس کا ’سیاہی چوس‘ ہوتا ہے، کس بلا کا نام ہے۔ خود ہم نے بھی صرف بچپن میں اسے استعمال ہوتے دیکھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نئی نئی ایجادات بھی بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان جنریشن گیپ پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ڈیجیٹل انقلاب نے تو سب کچھ ہی تبدیل کر دیا ہے۔

حالیہ تاریخ میں چین تو کئی انقلابات سے گزرا ہے۔ ’فی جوڑا۔ ایک بچہ‘ کی پالیسی کو حکومت نے 2016 ء میں خیر باد کہا۔ اس دور میں پیدا ہونے والے بچوں کوآج جو کچھ حاصل ہے، ان کے بزرگ خواب میں بھی اس کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تھے۔ ان نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کی طرح جدوجہد نہیں کرنا پڑی، تلخی ایام کا زہر نہیں پینا پڑا۔ 1986ء میں ہم نے چینی نوجوانوں کو یہ شکایت کرتے پایا تھا کہ ”اب ہم بڑے ہو گئے ہیں لیکن ہمارے والدین اور اساتذہ ابھی بھی ہمیں بچہ سمجھتے ہیں۔ وہ ہم سے برابری کا سلوک نہیں کرتے۔ اس لئے ہم ایک دوسرے کو سمجھ نہیں پاتے“ ۔ تب اکثر طلبا احساس تنہائی کا شکار تھے۔ چینی طلبا ایسے اساتذہ کو پسند کرتے تھے جو ان کے ساتھ دوستوں کا سا سلوک کریں لیکن اکثر اساتذہ برتری کا رویہ اختیار کرتے تھے اور جسمانی سزائیں بھی دیتے تھے۔ بیجنگ میں مڈل اسکول کے اساتذہ کی اوسط عمر چھیالیس سال تھی۔ وہ 1950۔ 60 کے عشروں کے معیارات کے مطابق طلبا کو جانچتے تھے اور خود مختار انداز میں سوچنے والے طلبا کو نا پسند کرتے تھے اور یہی حال بیشتر والدین کا تھا۔

تقریباً سارے چینی طلبا کو نصابی کتب، تدریسی طریقے اور امتحانوں کے نظام کے بارے میں شکایت تھی۔ چین میں طلبا کی کثیر تعداد کے پیش نظر یونیورسٹیوں میں داخلہ ملنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ اس لئے ہر اسکول کے لئے یہ آن کا مسئلہ بن جاتا تھا کہ اس کے کتنے طلبا کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔ اسکول اور استاد کے معیار کو اسی کسوٹی پر پرکھا جاتا تھا۔ چنانچہ اسکولوں میں بار بار امتحانات لئے جاتے تھے اور بہت زیادہ ہوم ورک دیا جاتا تھا حالانکہ سو طلبا میں سے صرف تین کو یونیورسٹی میں داخلہ ملتا تھا۔

اب 2020 ء میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم چھبیس سالہ چانگ جن کا کہنا ہے کہ ”یہ صرف جنریشن گیپ نہیں ہے، یہ اقدار، دولت، تعلیم، تعلقات اور انفارمیشن کا گیپ ہے“ ۔ ایک نوجوان صحافی خاتون، تیس سالہ لن ملین کا کہنا ہے ”مجھ میں اور میری ماں میں کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ ہم کسی چیز کے بارے میں بات نہیں کر سکتے۔ انہیں میری پسند اور نا پسند کی سمجھ نہیں آتی“ ۔ اس نسل کے والدین نے اپنی جوانی کھیتوں میں مشقت کرتے ہوئے گزاری اور آج ان کے بچے مالز میں شاپنگ کرتے ہیں، ان کے پاس آئی پیڈز ہیں اور وہ ڈیٹس پر بھی جاتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت چین میں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے افراد مجموعی آبادی کا اٹھارہ اعشاریہ ایک فی صد ہیں۔ ان کی ضروریات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ آج کی بات نہیں۔ ہمارے وہاں قیام کے دوران بھی بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کرنا اور ان کے آخری ایام کو خوشگوار بنانا پورے چینی معاشرے کے لئے ایک چیلنج بنا ہوا تھا۔ 1986 ء میں بیجنگ میں بوڑھے افراد کی تعداد آٹھ لاکھ تھی۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے بیجنگ کے چورانوے ڈو یژنوں میں اس مقصد کے لئے کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔

اس کے علاوہ بوڑھے اور نوجوانوں کی کمیٹیاں بھی بوڑھوں خاص طور پر بیواؤں اور رنڈوؤں کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتی تھیں۔ چونکہ علم کی پیاس کسی عمر میں نہیں بجھتی، اس لئے بیجنگ میں بوڑھوں کے لئے کالج بھی کھولے گئے تھے۔ ہائیتیان یونیورسٹی بیجنگ میں بوڑھوں کی پہلی یو نیورسٹی تھی۔ جس کے پہلے سیمسٹر میں تین سو افراد نے داخلہ لیا تھا۔ وہ خطاطی، تصویر کشی اور باغبانی سیکھتے تھے۔ اکثر کمیٹیاں ریٹائرڈ افراد کو نئی ملازمت ڈھونڈنے میں مدد دیتی تھیں۔ مختلف محلہ کمیٹیوں اور مقامی تنظیموں نے بوڑھے افراد کی سرگرمیوں کے مراکز قائم کیے تھے۔ اسی سال سے زائد عمر کے افراد کا باقاعدگی سے ان کے گھروں پر طبی معائنہ کیا جاتا تھا۔

بیجنگ میں چین کی روایتی ورزش تیا چی چھوان کے کوئی دو سو مراکز تھے جہاں لگ بھگ دس ہزار افراد ورزش کرتے تھے۔ صبح سویرے بیجنگ کے پارک ”بوڑھوں کی دنیا“ کا منظر پیش کرتے تھے۔ بیجنگ میونسپل کمیٹی ”مثالی صحتمند بوڑھوں“ کو ایوارڈ بھی دیا کرتی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ چینی عوام بوڑھوں کا بہت احترام کرتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے۔ ریڈیو سے ”بوڑھوں کے دوست“ نامی پروگرام بھی نشر ہوتا تھا۔ نئے چین کے قیام کے بعد سوشل سیکورٹی نظام تشکیل دیا گیا تھا۔

اس سسٹم نے ایک مثبت کردار ادا کیا تھا۔ اس کے تحت چین کی بیشتر آبادی کو تحفظ فراہم ہو جاتا تھا۔ اقتصادی اصلاحات کے بعد اس سسٹم کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت پیش آئی۔ اور یہ کہا جانے لگا کہ بوڑھوں کے خاندان کو ان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور سوشل انشورنس کی حفاظتی چھتری کے نیچے آنکھیں موند کربیٹھے رہنے کی بجائے کچھ رسک بھی لینا چاہیے۔ بدلتے حالات کے ساتھ مسابقت کی حوصلہ افزائی کی جا رہی تھی۔

2020 ء میں چین کا سوشل سیکورٹی سسٹم پانچ لازمی انشورنس اسکیموں پر مشتمل ہے یعنی پینشن فنڈ، میڈیکل انشورنس، صنعتی حادثوں کی انشورنس، بے روزگاری کی انشورنس اور میٹرنٹی انشورنس بمع رہائشی فنڈ کے جو غیر ملکی ملازمین کو نہیں ملتا، صرف چینیوں کو ملتا ہے۔ انشورنس کا پریمیم آجر اور ملازمین مل کر ادا کرتے ہیں۔

اقتصادی اصلاحات کے حوالے سے 1986 ء میں یہ کہا جاتا تھا کہ دیہات میں ان کے نفاذ کے بعد نوجوان نسل پرانے انقلابی نظریات پر تنقید کرنے لگی ہے اور زندگی، محبت اور مستقبل کے بارے میں اس کا رویہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس زمانے میں بننے والی فلم ”یوئی یوئی“ کا یہی موضوع تھا۔ یہ فلم بیجنگ فلم اسٹوڈیو نے بنائی تھی۔ اس کی ہدایت کار ایک خاتون گاوا تھیں۔ پلاٹ سیدھا سادا تھا۔ 1979 ء کے اوائل میں دیہاتوں میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز ہوا۔ یوئی یوئی (چاند) ایک نو عمر جذباتی لڑکی ہے جو فرسودہ اور کہنہ روایات سے بیزار ہے۔ بچپن میں اسے سائی سائی نامی لڑکے کے پلے باندھ دیا جاتا ہے جو ایک مہربان مگر ناخواندہ شخص ہے اور ذہنی طور پراپنے عہد کے حقائق سے پیچھے ہے۔ یوئی یوئی اسے بدلنے کی بہت کوشش کرتی ہے لیکن ناکام رہتی ہے۔ جب کہ سائی سائی کی محبت حاکمانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ وہ یوئی یوئی کو اپنی نجی ملکیت سمجھتا ہے۔ ایک اور نوجوان مینگ مینگ بھی یوئی یوئی سے محبت کرتا ہے لیکن وہ اس کے جذبات سے لا علم ہے۔

مینگ مینگ ایک ہوشیار، فیاض، بہادر اور سمجھدار نوجوان ہے۔ اقتصادی مہم کی اصلاح میں وہ پیش پیش رہتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور مشینری کے استعمال کی بدولت وہ خوشحال ہو جاتا ہے۔ یوئی یوئی کو اپنی جانب راغب کرنے کی اس کی کوشش کو بڑے بوڑھے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب یوئی یوئی کو سائی سائی کے پلے باندھا گیا تو وہ محض ایک بچی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی ہے۔ فلم میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ تبدیلی اقتصادی اصلاحات کی بدولت آتی ہے۔ اس کی شخصیت میں سنجیدگی اور وقار آ جاتا ہے اور وہ اپنے شوہر سے قطع تعلق نہیں کرتی۔ فلم کا پیغام یہ تھا کہ نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے پر مجبور کرنا غلط ہے۔

بہر حال اب تو برانڈز اور ڈیجٹل میڈیا کے ساتھ ساتھ نوجوان یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان پاس کرنے کی فکر میں رہتے ہیں مگر کرونا کی وبا نے سب کے ذہنی دباؤ میں اضافہ کیا ہے اور چینی نوجوان ڈاکٹروں کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان چینی نوجوانوں کو اس سے پہلے حکومت کے ساتھ کوئی خاص مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ لیکن اس وائرس کی بدولت اب وہ حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں۔ کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے یہ تنقید بہت سے ممالک کی حکومتوں پر ہو رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ چین کو وبا سے نمٹنے کے حوالے سے ایک ماڈل ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ رہا جنریشن گیپ تو وہ دنیا میں ہمیشہ سے ہے اور رہے گا اور چین کو سمجھنے کے لئے اس کی سیاست اور معیشت کو سمجھنا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم جنریشن گیپ کو سمجھنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).