پاکستان کی بعض خواتین صحافیوں کی جانب سے مشترکہ بیان میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراساں کیے جانے کی شکایات


پاکستان کی کچھ معروف خواتین صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراساں کیے جانے کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا اور کہا ہے کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوگیا ہے۔

صحافی بینظیر شاہ نے اپنے ٹویٹ میں یہ مشترکہ بیان جاری کیا جس پر ایک بڑی تعداد میں خواتین صحافیوں نے دستخط کیے ہیں۔ اس بیان میں خواتین صحافیوں کو ہراساں کرنے کے بارے میں کہا گیا کہ ‘یہ ایک منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور اس میں برسرِ اقتدار سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت اس جماعت سے وابستہ متحرک اکاؤنٹس شامل ہیں۔’

اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ ‘پاکستان میں خواتین صحافیوں اور تبصرہ نگاروں پرسوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے حملوں کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ ان حملوں کا ہدف مختلف نقطہ نظر رکھنے والی خواتین ہیں اور وہ جن کی رپورٹس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔’

https://twitter.com/Benazir_Shah/status/1293450054309744646?s=20

اس مشترکہ بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ خواتین صحافیوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے حکومتی اہلکار ہیں جن کی شہہ پر یہ سب کچھ شروع ہوتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے صحافی خواتین کی جانب سے حکومتی جماعت پر عائد کردہ الزامات کی تردید کی ہے۔

خواتین صحافیوں کے بیان کے مطابق ‘آن لائن حملے حکومتی عہدیداروں کی جانب سے شروع کرائے جاتے ہیں اور پھر ایک بڑی تعداد میں ایسے ٹوئٹر اکاؤنٹس جو حکمران جماعت سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں، ان حملوں کو ہوا دیتے ہیں۔’

اس بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور خواتین صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے اور اُن کی ذاتی نوعیت کی معلومات عام کی جاتی ہیں۔ اس بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا کہ صحافیوں پر ‘جعلی خبریں’ پھیلانے اور ‘عوام دشمن’ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور ‘لفافہ’ کہہ کر بلایا جاتا ہے۔

صحافی اور انسانی حقوق کی علمبردار اور علامت سمجھی جانے والی عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزہ جہانگیر نے اس بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے اس سے برا وقت بھی دیکھا ہے۔ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مارشل لاء دیکھا ہے، اُن کو جیل جاتے دیکھا ہے اور جس طرح کی خوفناک قسم کی تنقید اُن کے خلاف ہوتی شاید وہ اب نہیں ہوتی۔ مگر یہ جو نیا ٹرینڈ ہے اس میں خواتین صحافیوں کو گندی گالیاں اور اُن کے جسم کے بارے میں طرح طرح کے کمنٹس دیے جاتے ہیں جو امتیازی ہوتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے ’اگر ہم کھل کر متوازن رپورٹنگ کریں اور حکومت پر تنقید کریں تو ہمیں لفافہ صحافی کہتے ہیں اور اس قسم کی ٹرولنگ ہوتی ہے۔ جب ایسے ٹرولز کے پروفائلز پر جائیں تو نظر آتا ہے کہ یا تو اُن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے یا فوج سے ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم لاشعوری طور پر حکومت پر تنقید یا کھل کر تنقید اور متوازن رپورٹنگ نہیں کر پاتے۔ جسے کہتے ہیں کہ بغیر خوف کے کام ۔۔۔ وہ نہیں ہوپاتا۔ اور ہماری صحافت پر برا اثر پڑتا ہے۔‘

صحافی بینظیر شاہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ مسئلہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا اور ایک لمبے عرصے سے ایسا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا ٹرولنگ پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے سے پہلے بھی ہو رہی تھی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے حمایتی بھی ایسا کرتے تھے۔ لیکن جب سے کورونا وائرس کی وبا سامنے آئی ہے اس میں شدت آئی ہے اور اُن لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اس بارے میں رپورٹنگ کر رہے ہیں، میں نے ذاتی طور پر اس کا سامنا کیا ہے۔’

بنظیر شاہ اس طرح کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے جب ایک سٹوری شیئر کی تو اُس پر انہیں پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا سمیت ایسے متعدد ٹرولز نے نشانہ بنایا جو ان کے مطابق بظاہر پی ٹی آئی کے حمایتی تھے۔

وہ بتاتی ہیں ’گو کہ وہ سٹوری میری نہیں تھی اور میں صرف اسے شیئر کر رہی تھی مگر پھر بھی مجھ پر تنقید کی گئی۔ لوگوں کو کسی معاملے میں اختلاف ہوسکتا ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کسی سٹوری میں پیش کیے گئے حقائق غلط ہیں۔ مگر مجھ پر ذاتی نوعیت کے اعتراضات کیے گئے اور پھر مجھے مسلسل تقریباً ایک ہفتے تک پنجاب حکومت کے اہلکاروں اور وزراء نے نشانہ بنایا اور پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے ایسے ایک پیغام کو ری ٹویٹ کیا گیا اور متعدد بے نامی اکاؤنٹس سے نشانہ بنایا گیا۔’

اُن کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ ‘اس میں بہت شدت آ چکی ہے اور یہ صرف چند گھنٹے یہ کچھ دیر کے لیے نہیں بلکہ کئی دن تک جاری رہتا ہے۔’

خواتین صحافیوں کی طرف سے مشترکہ بیان میں ایک اور انتہائی سنگین مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ‘ہماری سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر صنف پر مبنی بد سلوکی، جنسی اور جسمانی تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔’

منیزہ جہانگیر خواتین صحافیوں کے بارے میں مہم چلانے کے بارے میں کہتی ہیں کہ ‘ایک صحافی کے پاس اپنی ساکھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایک باقاعدہ کوشش دیکھی جا رہی ہے کہ کسی صحافی پر لیبل لگا دیں کہ یہ تو ن لیگ کی ہے یا پیپلز پارٹی کی ہے۔ اور اگر آپ اُس کے ساتھ یہ کردیں گے تو اُس کی ساکھ ختم ہو جائے گی اور کوئی اُن کی نہیں سنے گا۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ کوشش صرف ٹرولز کی نہیں ہے بلکہ لیڈرشپ کی سطح پر ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ یہ مرکزی سطح پر ہے مگر صوبائی سطح پر ضرور ایسا ہے۔ یہ لیڈرشپ کی ایک سوچ ہے۔’

منیزہ جہانگیر اس سوچ کے بارے میں مزید یہ بھی کہتی ہیں کہ ‘یہ کہہ دینا کہ میڈیا تو ہے ہی خراب، میڈیا والے تو ہیں ہی جھوٹے اور میڈیا ہماری حکومت کے خلاف ہے، یہ سوچ ٹاپ لیڈرشپ سے ہی آرہی ہے’۔

بنظیر شاہ کہتی ہیں کہ ‘کیا حکومت کے اہلکار جو وزیر اعظم کا یا حکومت کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلاتے ہیں کیا اُنہیں رپورٹرز کے بارے میں ذاتی نوعیت کے حملے کرنے چاہییں؟ ہمیں بتایا گیا ہے کہ حکومتی اکاؤنٹس سرکاری کاموں کے بارے میں معلومات دینے کے لیے ہیں۔ ہمیں حکومتی اہلکار لفافہ صحافی کہتے ہیں اور ہم پر جعلی خبریں چلانے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمارے کام سے اختلاف کریں مگر یوں خواتین صحافیوں پر الزام لگانے سے ان کے ساتھ نفرت کا ایک ایسا ماحول بن جاتا ہے جو ہمیں خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ایسا ہم نے امریکہ میں ہوتے دیکھا جہاں صدر ٹرمپ بار بار صحافیوں کو فیک نیوز کہتے رہے اور پھر ایسے صحافیوں کو تکلیف اُٹھانا پڑی۔’

پاکستان تحریک انصاف کا موقف

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اور ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید خان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے صحافی خواتین کی جانب سے حکومتی جماعت پر عائد کردہ الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ‘تحریک انصاف کا سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے انتہائی سخت کوڈ آف کنڈکٹ ہے جس کی پاسداری کرنا پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کی ذمہ داری ہے۔ پارٹی چیئرمین عمران خان بارہا پارٹی میٹنگز میں ان ضوابط پر عمل درآمد کی بات کرتے رہتے ہیں۔’

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ ضرور ممکن ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیمز فیک اکاؤنٹس کے ذریعے اپنے آپ کو پی ٹی آئی کا سپورٹر ظاہر کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر یہ کام کرتی ہوں تاکہ حکمراں جماعت کو بدنام کیا جا سکے۔’

سینیٹر فیصل جاوید خان کا تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ضوابط کے بارے میں کہنا تھا کہ ‘دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس سوشل میڈیا پر آ کر کسی کی ذاتی زندگی پر حملہ کرنا یا نامناسب بات کرنا کبھی بھی پی ٹی آئی کی پالیسی نہیں رہا ہے اور پارٹی کے اندر ایسی چیزوں کی روک تھام کا باقاعدہ میکینزم موجود ہے۔’

خواتین صحافیوں کی جانب سے الزامات کا دفاع کرتے ہوئے سینیٹر فیصل جاوید کا کہنا تھا کہ ‘اگر چند صحافی خواتین کی کچھ شکایات ہیں اور وہ پارلیمان کے پلیٹ فارم سے اس کی تفتیش یا تحقیق چاہتی ہیں تو اس کا باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت یا تو کمیٹی میں پیٹیشن کی جا سکتی ہے یا ہاؤس کے ذریعے معاملہ متعلقہ کمیٹی کو ریفر کیا جا سکتا ہے۔’

انھوں نے کہا کہ اگر معاملہ اُن کی کمیٹی تک پہنچا تو وہ جائز شکایات کی تلافی کے لیے ضرور کچھ اقدامات تجویز کریں گے۔

خواتین صحافیوں کے حکومت سے مطالبات

خواتین صحافیوں کے مشترکہ بین میں اپنے آئینی حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے انسانی حقوق شیرں مزاری کو مخاطب کیا گیا اور کہا گیا کہ ‘صحافیوں کے خلاف دھمکیوں کا نوٹس لینے اور بدسلوکی، دھونس، خوف اور سنسر شپ کی آب و ہوا سے نمٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ محترمہ مزاری، ہم انتظار کر رہے ہیں۔’

اس بیان کے آخر پر حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے گئے:

1) میڈیا میں خواتین کو بار بار نشانہ بنانے سے اپنے ممبران کو فوری طور پر روکیں

2) پارٹی کے تمام ممبران، حامیوں اور پیروکاروں کو واضح پیغام بھیجیں کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ ان حملوں کو شروع کرنے سے باز رہیں۔

3) حکومت کے اندر ایسے تمام افراد کو جوابدہی کے لیے طلب کریں اور ان کے خلاف کارروائی کریں۔

یہ بیان پارلیمنٹ کے ایوان بالا اور ایوان زیریں کی انسانی حقوق سے متعلق قائمہ کمیٹیوں سے مطالبہ پر ختم ہوا جس میں اس ’خطرناک ماحول‘ کو ختم کرنے کے لیے اقدامات لینے کی اپیل کی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp