ننکانہ کی جگجیت کور عرف عائشہ کو مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت


لاہور ہائی کورٹ

لاہور ہائی کورٹ نے تبدیلیِ مذہب سے متعلق مقدمے کے فیصلے میں جگجیت کور عرف عائشہ نامی خاتون کی شیلٹر ہوم سے رہائی کا حکم اور اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی ہے۔

جگجیت کور جن کی عمر صرف 19 برس ہے ان کے والدین نے عدالت کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ محمد حسن نامی شخص نے ان کی بیٹی سے شادی کر کے اس کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد جگجیت کور کا نام تبدیل کر کے عائشہ رکھا دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے محمد حسن سے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور اپنا مذہب بھی اپنی مرضی اور منشا سے تبدیل کیا ہے۔ عائشہ نے عدالت کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔

عدالت کا فیصلہ عائشہ کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر کیا گیا جس میں انہوں نے اپنے سکھ والدین کی طرف سے شکایت کے بعد انہیں ‘شیلٹر ہوم’ میں زبردستی رکھنے کے حکم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عائشہ کو دوبارہ شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا جہاں عدالت کا تحریری حکم موصول ہونے تک ان کو رہنا پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیے

گرودوارہ ننکانہ صاحب کے باہر نعرے بازی کرنے والا گرفتار

مبینہ طور پر اغوا ہونے والی سکھ لڑکی کے معاملے میں ’صلح‘

’مذہب کے نام پر ہماری بیٹیوں کا ریپ نہ کریں‘

’رویتا کا زبردستی مذہب تبدیل کرنے کے بعد نکاح کیا گیا‘

مبینہ طور پر اغوا ہونے والی سکھ لڑکی کے معاملے میں ’صلح‘

لڑکی کے گھر والوں نے عدالت کے سامنے لڑکی کے سکول کا جاری کردہ ایک سرٹیفیکٹ پیش کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ سرٹیفیکیٹ کے مطابق لڑکی کی عمر پندرہ برس ہے اور وہ اپنی مرضی سے شادی کی عمر کو نہیں پہنچی۔ اس کے جواب میں صفائی کے وکلاء نے نیشل ڈیٹا بیس آتھارٹی (نادرا) کا ریکارڈ پیش کیا جس سے ثابت ہوا کہ عائشہ کی عمر 19 سال سے ذرا زیادہ ہے۔ اس کے بعد عدالت کی طرف سے عائشہ کا طبی معائنہ کرنے کا حکم بھی دیا گیا جس سے عائشہ کی عمر 19 برس ہی ثابت ہوئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عائشہ کے بھائی من موہن سنگھ نے کہا کہ ان کے گھر والوں کو عدالت کے احاطے میں لڑکی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ من موہن سنگھ نے دعوی کیا کہ ان کی بہن دباؤ کا شکار ہے اس لیے وہ درست فیصلہ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی برادری والے لاہور ہائی کورٹ کے باہر مظاہرہ کریں گے اور عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی اپیل دائر کریں گے۔

جگجیت عرف عائشہ اور ان کے شوہر محمد حسن دونوں لاہور کے قریب سکھ برادری کے لیے مذہبی طور پر اہم شہر ننکانہ صاحب کے رہائشی ہیں اور ہمسائے بھی تھے۔

گذشتہ برس لڑکی کے والد جو سکھوں کے مذہنی پیشوا بھی ہیں کی مرضی کے بغیر لڑکی کی اس مسلمان لڑکے سے شادی ہو گئی تھی۔

https://twitter.com/capt_amarinder/status/1168564297007546368?s=20

گذشتہ برس اگست میں لڑکی کے گھر والوں نے شکایت کی کہ جگجیت کور کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے محمد حسن اور پانچ دیگر افراد کے خلاف ایف آی آر بھی درج کروائی تھی۔

کہانی کا پس منظر

یہ کہانی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عام ہوئی جس کے بعد علاقے کے مسلمانوں اور سکھ برادری کے درمیان تعلقات جو روایتی طور پر بڑے دوستانہ رہے ہیں کشیدہ ہو گئے۔ سکھ برادری کے کئی لوگوں میں اس واقع کے بعد اشتعال اور غصے کے جذبات پیدا ہو گئے۔ بیرونی دنیا سے بھی سکھوں کی سرکردہ شخصیات اور تنظیموں نے اس معاملے پر احتجاج کیا اور مبینہ طور پر زبردستی تبدیلیِ مذہب کے اس واقع کی مذمت کی۔ انہوں نے وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں بسنے والے سکھوں کو تحفظ فراہم کریں۔

اس معاملے پر انڈیا کی ریاست پنجاب کے وزیر اعلی آمریندر سنگھ نے بھی مذمتی بیان جاری کیا اور جگجیت کور کے خاندان کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں انہوں نے کہا تھا کہ ‘اتنے دن گزر جانے کے بعد عمران خان کی حکومت جگجیت کور کو مدد فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جن کو زبردستی مسلمان کر کے ان سے شادی کر لی گئی‘۔

انہوں نے اسی پیغام میں مزید کہا کہ وہ اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کی بھرپور مدد کرنے اور انڈیا کی ریاست پنجاب میں ان کو آباد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

https://twitter.com/capt_amarinder/status/1168564297007546368?s=20

صورت حال کے بگڑ جانے کے بعد پاکستان کے صوبے پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ معاملے کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے دونوں خاندانوں سے بات کی اور اس کے علاوہ 30 ارکان پر مشتمل سکھ برادری کے ایک وفد سے مذاکرات بھی کیے جس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا گیا ہے۔

گورنر پنجاب نے بھی اس معاملے پر ٹوئٹر پیغام میں دونوں خاندانوں کا گورنر ہاؤس آنے اور ان سے بات کرنے پر شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستانیوں اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری کے لیے اچھی خبر۔ ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والی لڑکی کا معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹا لیا گیا ہے۔‘

جگجیت عرف عائشہ کو لاہور میں ایک شیلٹر ہوم میں منتقل کر دیا گیا جہاں ثہ ایک سال رہیں جس دوران لاہور ہائی کورٹ میں ان کی درخواست زیرِ سماعت تھی۔

یہ معاملہ اسوقت ایک مرتبہ پھر ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب کچھ لوگوں نے ننکانہ صاحب میں گرودوارہ ننکانہ صاحب کا گھیراؤ کر لیا۔ یہ لوگ لڑکی کے شوہر محمد حسن کے گھر پر پولیس کے چھاپے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان مظاہرین میں پیش پیش محمد حسن کے بھائی عمران چشتی تھے جس کے بعد عمران چشتی کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp