مریم نواز کو کیا کرنا چاہیے؟


پاکستانی عوام، مزاجا وراثتی سیاست کی امین ہیں۔ یہاں کوئی بھی پارٹی الیکشن کروا دے، ووٹ اسی کو ملتے ہیں، جو خود کو سابق پارٹی لیڈر کا وارث ثابت کر دے۔ اہل سادات کی حرمت کا دم بھرنے والی قوم کو یہ سمجھانا کہ وراثتی سیاست میں کوئی حرج نہیں، کیا مشکل ہے!؟ اگر عوام بھٹو کی بیٹی، نواز شریف کی بیٹی کو اپنا لیڈر مانتے ہیں، تو کسی فرد یا محکمے کو اس پر اعتراض ہی کیوں ہو؟ کیا آئین اس سے روکتا ہے؟ کیا یہ قانون کی خلاف ورزی ہے؟ آئین میں ممانعت ہے تو بندوق کے زور پر اقتدار حاصل کرنے کی۔ وراثت ہی کی رہی تو کیا ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت کا اہل اس کا بیٹا ہوا؟ کیا بھٹو کی وراثت زرداری خاندان میں منتقل نہیں ہو گئی؟ کیا عوام کو یہ حق حاصل نہیں، وہ انتخاب کریں کہ کون ان کا حکمران ہو؟ بندوق کی زور پہ ایوانِ اقتدار میں داخل ہونے والا، چاہے خود کو فرشتہ ہی کیوں نہ ثابت کرے، عوام کا نمایندہ نہیں ہو سکتا۔

مریم نواز کا باپ وزیر اعظم تھا تو کیا وزیر اعظم پاکستان بننا ان کا حق ہے؟ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو اقتدار میں آنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ تاریخ میں سکندر اعظم کے نام سے جانے جانے والے نے ایک موقع پر کہا تھا، بادشاہت پر میرا حق ہے، کیوں کہ میرا باپ بادشاہ تھا۔ تس پہ اس کے اتالیق ارسطو نے جواب دیا تھا، “وراثت پر اس کا حق ہوتا ہے جو خود کو اس کا اہل ثابت کرے”۔

مریم نواز کو اپنے والد نواز شریف کی وجہ سے شناخت ملی۔ ایسے ہی جیسے بے نظیر بھٹو کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والوں کا اعتماد۔ دونوں کے والد نے اسٹیبلش منٹ کی گود ہی سے تربیت حاصل کی۔ یہاں حضرت موسی کی داستان نہیں بیان کرتے لیکن یہ نقل کر دینے میں مضائقہ نہیں:
ہر فرعونے را موسی و ہر نمرودے را پشہ

جنرل ضیا الحق کے دور میں، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر، مارشل لا سے بیزاروں کے لیے امید کی کرن بن کر نمودار ہوئیں۔ شاید قدرت کو یہی منظور تھا کہ ایک سی ون تھرٹی گرتا، تو ہی عام انتخابات ہوتے۔ قدرت کے کاموں میں کس کا دخل!؟ بے نظیر بھٹو نے بھی کچھ ایسا ہی تو کہا تھا، “اللہ کا کام۔”اصغر خان نے ان انتخابات میں ہونے والی بے قاعدگیوں پر سوال اٹھا دیے۔ برسوں بعد اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی چیف اسد دُرانی کے عدالتی بیان سے ثابت ہوا کہ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے آئی جے آئی بنائی گئی، سیاست دانوں میں رشوت تقسیم کی گئی گئی۔ اس کے با وجود بے نظیر بھٹو عام انتخابات میں اتنی نشستیں حاصل کر گئیں کہ انھیں حکومت بنانے کی پیش کش کرنا پڑی، لیکن کچھ شرائط کے ساتھ۔

کل بھی اور آج بھی ٹی وی چینل پر بیٹھے سابق برگیڈیئر، سابق جنرل اور حالیہ دفاعی تجزیہ کار نہایت فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم نے کیسے کیسے جمہوری عمل میں مداخلت کی، کیسے انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوئے۔ مجال ہے ان کے اعترافات کے با وجود کبھی کسی عدالت نے سوموٹو ایکشن لیا ہو کہ آئیے صاحب، عدالت کو بتائیے، وہ آئین جس کی پاس داری کا آپ نے حلف اٹھایا تھا، تو کیوں کر غیر آئینی اقدام کے مرتکب ہوتے رہے؟! عدالت سو موٹو ایکشن لے بھی تو کیا ہو!؟ اکتوبر 2012ء میں اصغر خان کیس میں دیا گیا عدالتی فرمان کیا ہوا؟ اسلم بیگ، اسد درانی و دیگر کے خلاف کورٹ مارشل تو کیا ہونا تھا، ان کی پینشن تک نہ بند ہوئی۔ محمد بخش فرماتے ہیں:
لِسے دا کی زور محمد، نس جانا یا رونا

یہاں اس نکتے کو سمجھیے کہ قاضی اور سیاست دان، سپاہی نہیں ہوتا جس کے ہاتھ میں بندوق کی طاقت ہو۔ ایک ایوب خان، ایک یحیی خان، ایک ضیا الحق، ایک مشرف پوری سیاسی نظام کا مکھو ٹھپ دیتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پستول ہوتا ہے۔ وہ پستول بھی انھیں خود نہیں اٹھانا ہوتا۔ ایک میجر رینک کے افسر کو حکم دیا جاتا ہے، جاو اور وزیر اعظم کو بتا دو، وہ اب سائننگ اتھارٹی بھی نہیں رہا۔ اسے معزول کیا جاتا ہے۔ عدالتوں کو بتایا جاتا ہے کہ تمھیں مارشل لا سے وفا داری کا حلف اٹھانا ہو گا، ورنہ گھر کا راستہ ناپو۔ ایسے میں چند غیرت مند استعفا دے کے گھر چلے جاتے ہیں، ملازمت سے چمٹے قاضی، تاریخ کے کوڑے دان میں جا پڑتے ہیں۔ ابھی نہیں، لیکن جس دن تاریخ لکھی گئی، اس دِن وہ کوڑا دان بھی دیکھ لیجیے گا۔

مریم نواز کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے دیکھتے ہیں، بے نظیر بھٹو نے ان حالات میں کیا کیا تھا؟ بے نظیر بھٹو نے پہلی بار الیکشن جیت کر کیا کیا تھا؟ انھوں نے اسٹیبلش منٹ کی یہ شرائط مان لیں تھیں کہ وزارت خزانہ، داخلہ، خارجہ سے کسی منتخب عہدے دار کو غرض نہ ہو گی۔ یا ان وزارتوں پہ وہی ممتکن ہو گا، جس کے منظوری ہم دیں گے۔ سیاست دان کی طاقت عوامی حمایت ہوتی ہے۔ بے نظیر عوام کے حق میں فیصلہ کرتے یہ مفاہمت نہ کرتیں تو آج داستان کچھ اور ہوتی۔

یاد پڑتا ہے ٹرائسکائٹز ایلن وُڈ ہی نے یہ کہا تھا، عوام جن قوتوں کے خلاف جد و جہد کرتے ہیں، عوامی رہ نما ان غاصب قوتوں سے مفاہمت کر کے اقتدار حاصل کر لے، تو بالآخر اسے نا کامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں غاصب قوتوں سے ساز باز کرنے والا لیڈر انھی کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ معلوم نہیں ایلن وُڈ کے دعوے میں کتنی سچائی ہے، لیکن بے نظیر اور نواز شریف نے ایک بار نہیں بار بار اسٹیبلش منٹ کے ساتھ مفاہمت کی۔ ان کا انجام سب پہ عیاں ہے۔

مریم نواز کے پاس ابھی وقت ہے۔ ایسا وقت مقدر والوں کو ملتا ہے۔ وہ اس فارغ وقت میں تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو خوب ہو۔ سارے عالم کی نہیں، یونان کی نہیں، محض پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو بھی کافی ہے۔ بھٹو سے لے کر، اپنے والد، اور بے نظیر کے انجام پر نظر کر لیں۔ جس جس نے جب جب اسٹیبلش منٹ سے مفاہمت کی، اس کا حشر الم ناک ہوا۔ مریم یہ تاریخ پڑھ لیں تو غور و فکر کریں، انھیں کیا کرنا چاہیے۔ عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کرنا ہے تو اپنی جڑیں عوام میں پھیلائیں۔ نواز شریف کی بیٹی ہونے کے ناتے سے وہ مفاہمت کی سیاست کا انجام نزدیک سے دیکھ چکیں۔ ان کے لیے یہ جاننا کیوں مشکل ہے کہ الیکٹ ایبل کی حمایت ان کے لیے ہے، جن کے خلاف عوامی جد و جہد کرنا لازم ٹھیرا۔ مریم نواز الیکٹ ایبل پہ بھروسا کرنے کے بہ جائے، جماعت کی تنظیم سازی کا اہتمام کریں۔ تحصیل، ضلع، صوبے اور ملک بھر میں میں رُکنیت سازی کی مہم چلائیں۔ نچلی سطح پہ عہدے داروں کی تربیت کی جائے۔ عوام پر واضح کیا جائے کہ ہمارا منشور کیا ہے اور اس کے حصول کے لیے ہمیں کیا اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ مریم کی منشا عوامی حقوق کی جد و جہد ہے تو عوام کے اقتدار کے لیے کوشش کرنا ہو گی، چاہے گدی پہ کوئی بھی بیٹھا ہو۔

سوال وہی ہے، مریم نواز کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا انحصار مریم کے ارادے پہ ہے۔ اگر تو مریم نواز کی منزل وزیر اعظم کی کرسی ہے، عوام کا اس میں کیا بھلا؟ عوام کو اس میں کوئی دل چسپی نہیں کہ کوئی ان کا نام لے کر وزیر اعظم بن بیٹھے اور یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہو کہ کس محکمے کا کتنا بجٹ ہو۔ اقتدار مریم کی منزل ہے تو مریم کو چاہیے وہی کریں، جو ان کے والد نے کیا، جو اس سے پہلے والے کرتے آئے۔ انھی قوتوں سے مفاہمت کر لیں، جو در حقیقت اقتدار پر براجمان ہیں۔ ان قوتوں نے بار ہا، موقع بے موقع، اپنی مہم جوئی کے لیے سیاست دانوں کو قربانی کا بکرا بنایا؛ ایک مریم بھی سہی۔

پاکستان کی سیاسی جماعتیں جب تک ان قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا ڈول ڈالتی رہیں گی، ان کے مقدر میں پھانسی چڑھنا، قتل کر دیے جانا، جلا وطن ہونا لکھا ہے۔ مریم نواز کو کیا کرنا چاہیے؟ اس کا فیصلہ مریم نے کرنا ہے۔ اس سے اہم سوال یہ ہے، ”عوام کو کیا کرنا چاہیے؟“ عوام کو ایسے سیاست دانوں کو یک سر مسترد کر دینا چاہیے، جن پر زرا سا بھی شبہہ ہے کہ وہ غاصب قوتوں کی اشیر باد حاصل کر کے حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔ عوام کو وہی لیڈر چننا ہے جو عوام کے ساتھ ساز باز کرے۔ مریم نواز کے مستقبل سے کہیں زیادہ عوام کو اپنے مستقبل کی فکر کرنا چاہیے۔ سیاست دانون نے غاصب قوتوں ہی سے مفاہمت کرنا ہے، تو عوام اس سیاست اور ان سیاست دانوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ جب بیزاری اس انتہا کو پہنچ جائے تو ریاست کی حدود میں انارکی پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran