پشاور بی آر ٹی منصوبہ: صوبہ خیبرپختونخوا کے پہلے ماس ٹرانزٹ منصوبے میں شہریوں کے لیے کیا ہے؟


پشاور بی آر ٹی

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے پہلے ماس ٹرانزٹ منصوبے پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ یا بی آر ٹی کا افتتاح آج وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف اور خصوصاً خیبر پختونخوا حکومت کے لیے گلے کی ہڈی بننے والے اور کئی مبینہ تنازعات کا شکار ہونے والے اس عوامی منصوبے کو پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ دور حکومت میں شروع کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی حکومت نے پہلے بھی متعدد بار اس منصوبے کے افتتاح کا اعلان کیا تاہم بعد ازاں اس میں تاخیر کی جاتی رہی۔

پشاور بی آر ٹی منصوبہ کیا ہے؟

بی آر ٹی منصوبے کے تحت صوبائی دارالحکومت پشاور میں عوام کے لیے لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے میٹرو بس منصوبوں کی طرز پر آرام دہ سفری سہولت فراہم کی گئی ہے۔

اس منصوبے کے تحت پشاور شہر کے بیچوں بیچ 27 کلومیٹر طویل خصوصی ٹریک تعمیر کیا گیا ہے جو پشاور شہر کے اہم علاقے کارخانو بازار سے شروع ہو کر چمکنی کے علاقے تک جاتا ہے۔

پشاور بی آر ٹی منصوبے کو چلانے اور دیکھ بھال کے لیے صوبائی حکومت نے ٹرانس پشاور نامی ریپڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا قیام کیا ہے۔

ٹرانس پشاور کی دستاویزات کے مطابق اس منصوبے کے تحت شہر میں سات روٹس پر بسیں چلائی جائیں گی، جن میں ایک روٹ ’ایکسپریس کوریڈور‘ ہے جس پر شہر کے سات اہم مقامات پر شہریوں کے لیے سٹاپ اور بس سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پشاور میٹرو بس انتخابی نعرہ یا نقصان؟

بی آر ٹی منصوبے میں مزید نقائص سامنے آ گئے؟

ایف آئی اے کو پشاور بی آر ٹی کی تحقیقات روکنے کا حکم

پشاور بی آر ٹی: پیدل چلنے والے جنگلوں کو پھلانگ کر سڑک پار کیوں کرتے ہیں؟

اس رپیڈ بس سروس کا دوسرا بڑا روٹ ’سٹاپ اوور‘ ہے جو ایکسپریس روٹ ہی کی طرح کارخانو بازار سے چمکنی تک جائے گا لیکن اس پر بس 30 چھوٹے بڑے سٹیشنز پر رکے گی۔

تیسرا روٹ 18 کلومیٹر طویل ہے جو پشاور کے علاقے شاہ عالم پل سے کوہاٹ اڈہ تک جائے گا، چوتھا روٹ چمکنی سے پشتخرہ چوک تک، پانچواں روٹ مال آف حیات آباد سے فیز سکس تک، چھٹا روٹ مال آف حیات آباد سے حیات آباد فیز سات تک جبکہ آخری اور ساتواں روٹ کارخانو بازار سے حیات آباد فیز سات تک جائے گا۔

پشاور بی آر ٹی کے ان سات روٹس پر کل 220 بسیں چلائی جائیں گی۔

کیا پشاور بی آر ٹی عام آدمی کے لیے کھول دی جائے گی؟

ٹرانس پشاور کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر فیاض احمد کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے منصوبے کا افتتاح ہوتے ہی یہ سروس عام شہریوں کے استعمال کے لیے دستیاب ہو گی اور مسافر اس پر سفر کر سکیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پشاور بی آر ٹی منصوبے کے افتتاح پر پہلے مرحلے میں دو مرکزی روٹس کھولے جا رہے ہیں جن میں ایکسپریس روٹ اور سٹاپ اوور روٹ شامل ہیں۔

ان کے مطابق یہ دو روٹس بی آر ٹی منصوبے کا تقریباً 70 فیصد حصہ بنتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے تمام کوریڈور اور سٹیشن مکمل اور فعال ہیں لیکن بین الاقوامی طریقہ کار کے تحت دیگر روٹس کو آئندہ چند دنوں میں بتدریج کھولا جائے گا۔

انھوں نے تمام روٹس ایک ساتھ نہ کھولنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’اگر ایک ساتھ پورے سسٹم کا آغاز کیا گیا تو لوگوں کو سنبھالنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے اور نظام میں اگر کہیں کوئی سقم ہے تو اس کا بھی صحیح طریقے سے اندازہ نہیں ہوتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ تمام سسٹم ٹیسٹ رن کیا گیا ہے اور مکمل طور پر فعال ہے لیکن اس نئے نظام سے لوگوں کے ہم آہنگ ہونے کے بعد مرحلہ وار دیگر روٹس کو کھول دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مین روٹس میں شامل ایکسپریس روٹ جو کارخانو بازار سے چمکنی تک 27 کلومیٹر طویل ہیں اس پر سات بڑے تجارتی و تعلیمی مقامات بشمول کارخانو بازار، حیات آباد، پشاور یونیورسٹی، صدر، ڈبگری، لاہور اڈہ، خیبر بازار اور چمکنی پر سٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

اسی طرح سٹاپ اوور روٹ بھی کارخانو بازار سے چمکنی تک اسی کوریڈور سے گزرے گا لیکن اس پر چلنے والی بسیں 30 چھوٹے بڑے سٹاپس پر رکیں گی۔

پشاور بی آر ٹی

پہلے مرحلے میں کتنی بسیں چلائی جائیں گی؟

ٹرانس پشاور کے سربراہ فیاض احمد کے مطابق افتتاح کے بعد پہلے مرحلے میں دو مین روٹس پر 61 بسیں چلائی جا رہی ہیں جن میں سے 25 بسیں ایکسپریس روٹ پر جبکہ 36 بسیں سٹاپ اوور روٹ پر چلائی جا رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پشاور بی آرٹی پر سفر کرنے کے لیے کم سے کم کرایہ 10 روپے اور زیادہ سے زیادہ 50 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق کارخانو بازار سے چمکنی تک اگر کوئی مسافر بس سے کسی سٹاپ پر بنا اترے سفر کرتا ہے تو اس کو تقریباً 35 روپے ادا کرنا ہوں گے جبکہ اگر کوئی شخص مختلف بس سٹاپس پر رک کر دوبارہ سفر کرتا ہے اور اس کا سفر 40 کلومیٹر سے زیادہ ہو جاتا ہے تو اس کا 50 روپے کرایہ ادا کرنا ہو گا۔

یہ بس سروس صبح چھ بجے سے رات دس بجے تک چلائی جائے گی۔

کیا صوبائی حکومت نے منصوبہ چلانے کے لیے کوئی سبسڈی دی؟

اس سوال کے جواب میں فیاض احمد کا کہنا تھا کہ ابھی منصوبے کا آغاز ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے انتظامی اور دیگر اخراجات کے متعلق واضح صورتحال کا اندازہ ہو گا، تاہم اس ضمن میں حکومت ابتدائی مرحلے میں مالی معاونت فراہم کر رہی ہے۔

تاہم فیاض احمد نے بس سروس کے انتظامی معاملات اور آپریشنل اخراجات میں حکومتی مالی معاونت کو سبسڈی قرار نہیں دیا۔

ٹرانس پشاور کے سی ای او کا کہنا تھا کہ ان کے بزنس ماڈل کا بنیادی جُزو مسافر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے لوگوں کو سروس فراہم کر کے اعتماد اور ساکھ قائم کرنی ہے۔ ’ہمارا ٹارگٹ یومیہ تین لاکھ مسافروں کا ہے جو کہ منصوبہ مکمل فعال ہونے تک پورا ہونے کی امید ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں ’گذشتہ پانچ دنوں میں بس میں سفر کے لیے تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار کارڈ جاری کیے گئے اور یہ تعداد ہمارے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔‘

اس کے علاوہ اس منصوبے میں تمام بڑے سٹیشنز سے ملحقہ کمرشل پلازوں اور پارکنگ سہولیات بھی شامل ہیں، جن میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے ذریعے پشاور بی آر ٹی اپنے اخراجات پورے کرے گی۔

فیاض احمد کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بس سٹیشنز اور روٹس کے راستوں پر اشتہاری کمپنیوں کے اشتہارات کی تشہیر سے بھی آمدن اکٹھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس مناسب اور مخصوص جگہیں ہیں جہاں وہ اشتہاری کمپنیوں کے اشتہارات لگا سکتے ہیں۔

پشاور بی آر ٹی منصوبے کی لاگت؟

ابتدا میں اس منصوبے کا تخمینہ 49 ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن اس کے ڈیزائن میں بار بار تبدیلیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ پراجیکٹ غیر ضروری طوالت کا شکار ہوا بلکہ اس کی لاگت اب بڑھ کر تقریباً 70 ارب روپے کے قریب تک پہنچ گئی ہے۔

تاہم صوبائی حکومت اور ٹرانس پشاور کے سی ای او فیاض احمد کے مطابق اس منصوبے پر 66 ارب روپے لاگت آئی ہے۔

پشاور بی آر ٹی

یہاں یہ واضح رہے کہ اس منصوبے کے ٹریک مکمل ہیں تاہم ان کوریڈورز سے ملحقہ شاپنگ پلازہ اور پارکنگ ایریاز ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور تاحال بس روٹس کے چند سٹیشنز کے ساتھ ملحقہ ان سہولیات کی تعمیر اور تکمیل کا کام چل رہا ہے۔

پشاور بی آر ٹی دیگر میٹرو منصوبوں سے مختلف کیسے؟

صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ملک کے دیگر بی آر ٹی منصوبوں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے مختلف ہے اور اسے ’تھرڈ جنریشن منصوبہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ٹرانس پشاور کے سی ای او کا کہنا تھا کہ یہ ماحول دوست منصوبہ ہے کیونکہ اس میں بسیں ہائبرڈ ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں جو ڈیزل کے ساتھ ساتھ بجلی پر بھی چلتی ہیں۔

بی آر ٹی پشاور کو سات فیڈر روٹس سے منسلک کیا گیا ہے جن میں حیات آباد کے تین، جبکہ کوہاٹ چونگی، وارسک روڈ، چارسدہ روڈ اور باڑہ روڈ کا ایک، ایک روٹ شامل ہے۔

ٹرانس پشاور کے سربراہ فیاض احمد کے مطابق مین روٹ کے لیے 60 سے زائد بسیں مختص کی گئی ہیں جبکہ 128 بسیں آف کوریڈور ہیں جو ان سات فیڈر روٹس سے مسافروں کو مین روٹ تک لائیں گی۔

ان بسوں میں معذوروں اور خواتین کے لیے خصوصی نشستیں رکھیں گئی ہیں جبکہ ان میں مفت وائی فائی کی سہولت بھی میسر ہو گی۔

اس کے علاوہ بی آر ٹی کے کوریڈور کے ساتھ ساتھ بائسیکل ٹریک بھی بنایا گیا ہے اور شہر کے مختلف اہم تجارتی، کاروباری اور تعلیمی مقامات کے ساتھ منسلک سٹیشن پر 360 سائیکلیں رکھی گئی ہیں تاکہ مسافر بس سے اتر کے سائیکل کرائے پر لے کر اپنے کام کر سکیں اور واپس آ کر ان سائیکلوں کو پارک کر کے دوبارہ بس کے ذریعے سفر کر سکیں۔

ان سائیکلوں کو بس مسافر ٹرانس پشاور کے پاس رجسٹریشن اور ممبرشپ کروا کے استعمال کر سکیں گے۔ ان سائیکلوں کے استعمال کے پہلے 30 منٹ مفت ہیں جبکہ اس کے بعد ہر 30 منٹ کا پانچ روپے کرایہ وصول کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ ابتدائی منصوبے کے مطابق بس سروس شروع ہونے کے بعد اس روٹ پر چلنے والی دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کو مرحلہ وار یہاں سے ختم کرنے کا کہا گیا تھا اور اس ضمن میں حکومت کو ایک برس تک اس ٹرانسپورٹ کے مالکان کو معاوضہ ادا کرنا تھا تاکہ لوگ اس سروس سے نہ صرف زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم پڑے۔

پشاور بی آر ٹی

حکام کے مطابق اس سلسلے میں متعدد ٹرانسپورٹ تنظیموں کے ساتھ مشاورت کا عمل جاری ہے جبکہ چند کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں، اور مرحلہ وار کوشش کی جائے گی کہ پرانے ٹرانسپورٹ کو اس روٹ سے ختم کیا جائے، تاکہ نہ صرف ماحول میں آلودگی کم ہو بلکہ شہر میں ٹریفک کے دباؤ میں بھی کمی آئے۔

منصوبہ التوا کا شکار کیوں ہوا؟

تقریباً 66 ارب روپے کی خطیر رقم سے تعمیر ہونے والے پشاور بس رپیڈ ٹرانزٹ منصوبے کو اکتوبر 2017 میں شروع کیا گیا جب صوبے میں پی ٹی آئی حکومت کا دور ختم ہونے میں صرف چھ ماہ رہ گئے تھے۔

تعمیراتی کام کے افتتاح کے روز ہی وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ منصوبہ چند ماہ میں مکمل کر لیا جائے گا۔

ابتدا میں اس منصوبے پر نہایت تیز رفتاری سے کام کیا گیا، تاہم ڈیزائن میں بار بار تبدیلیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور اس کا اعتراف سابق وزیر اعلی پرویز خٹک خود بھی کر چکے ہیں۔

اس وقت کے صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ڈیزائن کی تبدیلی بھی ایشیائی ترقیاتی بینک کے کہنے پر کی گئی ہے، لہٰذا ان کے مطابق اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ یہ تبدیلیاں صوبائی حکومت کی خواہش پر کی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس صوبائی حکومت کی اپنی معائنہ ٹیم کی 27 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس منصوبے کو جلد بازی میں شروع کیا گیا، اس کی منصوبہ بندی ناقص تھی اور اس کا ڈیزائن بناتے وقت سنگین نوعیت کی کوتاہیاں برتی گئیں۔

معائنہ ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ اس سے قومی خزانے کو بہت نقصان پہنچا۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ اس منصوبے میں مسلسل تاخیر اور اس میں سامنے آنے والے نقائص کے باعث مرکز اور صوبوں میں موجود تحریک انصاف کی حکومتوں کو میڈیا اور اپوزیشن جماعتوں کے ہاتھوں شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا رہا ہے۔

اربوں روپے کے اس منصوبے میں تعمیراتی کمپنی کے انتخاب اور معیار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

سنہ 2018 میں پشاور ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو سے کہا تھا کہ بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کی جائیں لیکن صوبائی حکومت نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کر لیا تھا۔

پشاور بی آر ٹی

بعد ازاں گذشتہ برس کے آخر میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پشاور میں بی آر ٹی کی تحقیقات شروع کر دی تھیں جس پر صوبائی حکومت کے اس وقت کے ترجمان اجمل وزیر نے کہا تھا کہ قانونی ماہرین کی ٹیم اس کا جائزہ لے رہی ہے اور عین ممکن ہے کہ صوبائی حکومت اس فیصلے کے بارے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔

رواں برس فروری میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو زیرِ تعمیر بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے کی تحقیقات سے روک دیا تھا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی و تجزیہ کار اسماعیل خان کے مطابق پشاور جیسے پرانے اور تاریخی شہر میں جدید ٹرانسپورٹ کے نظام کی ضرورت تو تھی لیکن اس کے ڈیزائن میں متعدد بار تبدیلیوں کے باعث جو التوا ہوا، اس نے پی ٹی آئی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب پی ٹی آئی کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ 66 ارب کی لاگت سے تعمیر ہونے والا یہ منصوبہ عوام میں پذیرائی حاصل کر سکے گا یہ نہیں، اور یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32556 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp