بچوں سے جنسی زیادتی: محرکات اور تدارک


دنیا کی شاید ہی کوئی قوم ہوگی جس نے اپنی عزیز ترین متاع کو یوں بھیڑیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہوجیسے ہم نے۔ وجہ کیا ہے؟ اکثر و بیشتر دولت کی ہوس اورسٹیٹس کو برقرار رکھنے کی دوڑ۔ اور یہ بھیڑئے ہیں کون؟ خود اسی قوم کے افراد۔ یعنی اپنے ہی بچوں کو بھنبھوڑنے والے ہم خود ہیں۔

خاکسار کی مراد پاکستان کے طول و عرض میں پیدا ہونے والے بچے ہیں۔ کوئی اخبار لیجیے، روزانہ اس میں دو چار خبریں آپ کو بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ملیں گی۔ اب تو اس میں لڑکے یا لڑکی کی تخصیص بھی نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بھی ہم سب پر ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اعدادوشما ر کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں میں تقریباً نصف تعداد لڑکوں کی ہے۔ لاہور کے جاوید اقبال سے لے کر خیر پور کے سارنگ شر تک، اتنے نام ہیں کہ لکھنے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر ختم ہوجائیں لیکن داستاں ادھوری ہو۔

گلی محلے، بازار، لاری اڈے، ورکشاپس، دکانیں حتیٰ کہ سکول، کالج، جامعات اور مساجد تک اس فعل شنیع سے پاک نہیں ہیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ مورد الزام مساجد اور مدارس کے مولویوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ شاید اس لئے کہ اساتذہ کے طبقے میں سے ہم نے ان مولویوں کو لاشعوری طور پر زیادہ تقدس بخشا ہے۔ یہ اعتراض بھی بڑی حد تک بجا ہے کہ مسجد یا مدرسے میں کوئی باریش شخص بچوں سے زیادتی کا مرتکب ہو تو ایک طبقہ زیادہ شور کرتا ہے۔

تعلیم یافتہ طبقہ اسی لئے مدارس اور سرکاری تعلیمی اداروں سے گریز بھی کرتا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں لاہور کے ایک مہنگے تعلیمی ادارے لاہور گرامر سکول میں بھی طالب علموں کے ساتھ جنسی ہراسانی کی خبر ان والدین پر بجلی بن کر گری ہوگی جو ماہانہ بھاری فیس اور دیگر واجبا ت ادا کر کے اپنے بچوں کو ان مہنگے سکولوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایک محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔ لیکن اب یہ قیاس بھی جھوٹا ثابت ہوا۔ سماج کی حالت اس قدر بری ہو چکی ہے کہ سوشل میڈیاپر گردش کرنے والی ایک خبر کے مطابق چند دن پہلے لاہور کے کچھ نوجوانوں نے بلی کے ایک بچے کے ساتھ جنسی عمل کیا جس سے وہ بچہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ خاکسار نے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے ضروری سمجھا کہ کسی ماہر نفسیات سے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ والدین کی اولاد کے ساتھ محبت اور مودت فطری طو ر پرغیر مشروط ہے لیکن ہم نے اسے مشروط کر دیا ہے۔ بیٹا کلا س میں پوزیشن لو گے تو موٹر سائیکل یا کار ملے گی۔ بیٹی لڑکوں والے کام مت کرو تمہارے والد ناراض ہوں گے۔ ماں باپ خود تو گالیاں بکتے ہیں لیکن اولاد کو اعلیٰ اخلاق کا پیکر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سماج کا ایک اصول ہے learning by imitation یعنی بچہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ بچے اپنی تربیت و اخلاق میں پچاس فیصد والدین اور پچاس فیصد معاشرے کا اثرقبول کرتے ہیں۔ یاد رکھئے! بچے غیر شعوری طور پر جو کچھ والدین کو کرتے دیکھتے ہیں یا جو کچھ معاشرے میں ہوتا دیکھتے ہیں اسی پر عمل کرتے ہیں۔

سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ والدین کے پاس اولاد کے لئے وقت ہی نہیں۔ اول تو گھر سے غائب، موجود بھی ہیں تو کاروباری یا دفتری معاملات، رشتہ داری، دوستوں اور پھر موبائل فون میں مصروف ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر یا انسٹا گرام جیسی ویب سائٹس پر سرگرمیاں ہمیں بچوں سے زیادہ عزیز ہیں۔ اس سے بچوں میں یہ سوچ پنپتی ہے کہ والدین کے لئے میری ذات نہیں بلکہ کلاس پوزیشن، دوستوں اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اہم ہیں۔ اس دوران والدین کو کچھ ہوش نہیں ہوتی کہ بچے اپنا وقت کس صحبت میں گزار رہے ہیں۔

اکثرو بیشتر وہی لوگ جو والدین کی عدم موجودگی میں ان کے قریب آتے ہیں، وہی والدین کا متبادل بنتے ہیں اور بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے لئے مختلف جال بنتے ہیں۔ اس دوران بچوں کو یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ یہ کوئی برا کام نہیں لیکن اگر والدین کو معلوم ہو اتو وہ تمہیں روکیں گے اور برا بھلا کہیں گے۔ یوں ایک وقت میں یہ جنسی درندے بچوں کے ذہن میں ماں باپ سے بھی زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔ معلوم اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزرجاتا ہے اور پھر والدین گزرے وقت کو روتے پیٹتے ہیں۔

کمیونیکیشن گیپ بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کو بلاوجہ چھوٹی چھوٹی باتوں یا سوالات پر بلاوجہ ڈانٹا جاتا ہے۔ بعض اوقات بچوں پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا ہے جس سے بچے کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب بچے ماں باپ کے ہاتھوں سے نکل کر گھر سے باہر کے سماج میں رشتہ داروں، دوستوں، کلاس فیلو، سکول کے بچوں یا نام نہاد اساتذہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ ماں باپ توجہ نہیں کرتے توبچہ اپنے سوالات کے جوابات گھر سے باہر تلاش کرتا ہے۔

یہ جوابات اس کو گھر کے باہر سے کلاس، سکول، گلی محلے، مدرسے یا کھیل کے میدان میں باآسانی میسر ہوتے ہیں۔ یہ معلومات فراہم کرنے والا ان اطلاعات کو اپنے رنگ میں اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ بچے کا خود پر اعتماد نہیں بن پاتا۔ دوسری طرف ڈانٹ ڈپٹ اور جسمانی تشدد سے بچے لاشعوری طور پریہ سبق لیتے ہیں کہ بات منوانے کا طریقہ صرف اور صرف تشدد ہے۔ اس سے بچے کانفسیاتی توازن بگڑجاتا ہے اور وہ باغی بن جاتا ہے۔

یہ سوچ ان کو انتہا پسند اور اذیت پسند بنا دیتی ہے۔ بچوں کے ذہن میں اپنا خوف پید ا کرنے کی بجائے ان کو اتنا پیار دیں کہ وہ آپ کے پیار کی زنجیر میں جکڑے جائیں۔ آپ کی شخصیت اور شفقت ان کو اعتماد سے بھر دے۔ ان کو سوئی چبھے یا ان کے سر پر بم پھٹے، ان کے ذہن میں پہلا خیال آپ کا آئے۔ وہ آپ ہی سے مشورہ کریں کہ ان حالات میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ جب بچوں کو ضرورت ہو انہیں بہترین مشورہ دیں۔ بات اپنے پلے نہ پڑے تو کسی ماہر سے رجوع کریں۔ منطقی طو ر پر اس کا انجام یہ ہوگا کہ بچے کسی دوسرے کی بات میں نہیں آئیں گے۔

تجسس وہ جذبہ ہے جو انسانی ترقی کی بنیا دہے۔ قدرت نے بچوں کو یہ جذبہ اس لئے عطا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں اور معاملات کے بارے میں جانیں تاکہ بہتر طو ر پر سماج کا حصہ بنیں۔ حالت یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اکثر بچوں کو سوا ل کرنے پر بھی ڈانٹ پڑتی ہے۔ گھر ہویا مکتب اکثرو بیشتر حالات ایسے ہی ہیں۔ سوال کرنے والا گستاخ اورقابل نفرت قرار پاتا ہے۔ یاد رکھیں انسان میں سے جستجو مر جائے تو اس کا ذہن مرجاتا ہے ۔ سماج میں ایسے انسان کا وجود ایک لاشے سے زیادہ نہیں ہے۔ اپنے بچے کو لاش مت بنائیں، اس کی جستجو مرنے نہ دیں بلکہ اسے اور بڑھائیں تاکہ وہ زندگی کے ہرشعبے میں بہترین کا انتخاب کرے۔

پاکستانی سماج میں بعض موضوعات ایسے ہیں کہ جن پر بچوں نے کبھی بڑوں کو آپس میں بات کرتے نہیں سنا، خاص طو رپر جنسی معاملات۔ روایت ہے کہ بیٹا باپ سے بات کرے گا اور بیٹی ماں سے۔ لیکن اگر بیٹی باپ کو زیادہ شفیق پاتی ہے یا والد کے زیادہ قریب ہے تو ممنوعہ موضوعات پر اس کی باپ سے گفتگو کو شرمناک قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بیٹا ماں سے زیادہ قربت رکھتا ہے تو جنسی معاملات پر اس کی ماں سے گفتگوکو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

اس سے فرسٹریشن جنم لیتی ہے۔ بچے کا دماغ الجھ جاتا ہے کہ اگرجنسی اعضا ء یا معاملات اس قدر ہی ناپسندیدہ ہیں تو یہ انسانی جسم یا زندگی کا حصہ کیوں ہیں۔ جب بچے ایسے معاملات پر سوال یا گفتگو کریں تو انہیں ڈانٹ یا مار پیٹ کی بجائے خوش ہوں کہ بچے زندگی کی دوڑ میں آپ پر اعتماد کرتے ہیں اور آپ ہی کی رہنمائی میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے سامنے علمی اورمنطقی انداز میں حقائق بیان کریں تاکہ وہ حقیقت سے آگاہ رہیں اور کسی بھی قسم کے غیر معمولی حالات میں فوراً والدین سے رجوع کریں۔

پروپیگنڈے کا اصول ہے کہ ایک بات جتنی زیادہ کی جائے گی اتنا ہی اس کو فروغ ملے گا۔ اب اس اصول میں بات اچھی ہو یا بری اس کا ذکر جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اسے اہمیت ملے گی۔ آپ دیکھیں کہ ہمارے گھروں، عبادت گاہوں، دفاتر، کاروباری مراکز، جلسے جلوسوں میں ہر جگہ جب بھی اخلاقیات یا مذہب کی بات ہو تو وہاں گناہ اور اس کے نتیجے میں سزا کا ذکر زیادہ ہوتاہے۔ اس کے مقابلے میں بھلائی یا اجلے کردار کی بات سرے سے کی ہی نہیں جاتی۔ بات کی بھی جاتی ہے تو اس کا فیصد بہت کم ہو تا ہے۔ اس طرح مثبت کی بجائے سماج میں منفی رجحانات کی جستجو فروغ پاتی ہے۔ والدین اور بچوں میں محبت اور مودت والا تعلق ہوگا تو بچوں میں مثبت رجحانات پروان چڑھیں گے۔ جبکہ خوف کی بنیاد پر بننے والا تعلق باہمی فا صلے پیدا کرتا ہے۔

جرمن نژادماہر نفسیات ایرک رکسن Erik Erikson کے مطابق انسان کے سیکھنے کا عمل ساری عمر جاری رہتا ہے۔ نفسیاتی تجزیہ کے بانی آسٹریا کے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈSigmund Freudکی پرسنیلٹی تھیوری اور سوئس ماہر نفسیا ت Jean Piaget جین پیاجے کے مطابق چھ سے آٹھ یا دس برس کی عمر تک انسان لاشعوری طور پر جوسیکھ جائے وہ عادات یا کردار ساری عمر انسان کی شخصیت کا حصہ رہتا ہے۔ اس شخصی کردار کو بدلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔

ہر ممکن کوشش کریں کہ دس بارہ برس کی عمر تک بچے کو انتہائی توجہ، محبت اور منطقی انداز میں ان کے اردگرد اور دنیا میں ہونے والے نیک و بد کے بارے میں خود آگاہ کریں اور بچوں کے ساتھ اس کے نتائج پر بھی گفتگو کریں تاکہ نہ صرف ان کے علم میں اضافہ ہو بلکہ ان کی نظر میں خود اپنی اور والدین کی اہمیت اجاگر ہو۔

آخری بات یہ کہ خدانخواستہ بچوں سے کوئی بڑی غلطی بھی ہو بھی جائے یا وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بن ہی جائیں تو ان کے ساتھ کھڑے ہوں، انہیں نفرت کا نشانہ مت بنائیں۔ ان کو نفسیاتی سہارا دیں، ہو سکے تو نفسیاتی معالج کی خدمات حاصل کریں۔ ظاہر ہے اس عمل میں بچے کا کوئی قصور نہیں۔ بچہ یا تو ظلم کا شکار ہوا ہے یا عدم توجہ کی وجہ سے منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر اس عمل کا حصہ بننے پر مجبور ہوا ہے۔ ان خطو ط پر سوچتے ہوئے آپ بچے کو شفقت کے ساتھ مستقبل میں احتیاط کے لئے حوصلہ دیں گے توبچہ اپنا کھویا ہوا اعتماد حاصل کر لے گا اور اس کے لئے نئے سرے سے ایک باوقار زندگی کا آغاز کرنا آسان ہو گا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ بچے کی ضروریا ت پوری کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں۔ مادی وسائل آڑے آئیں تو بچوں کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ وہ دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہو کر غلط کاری کا شکا رنہ ہوں۔ کبھی بھی ایسا نہ کریں کہ بچوں کی ضروریات پوری کرتے کرتے خود ان کی تربیت سے غافل ہو جائیں۔ بچوں کے لئے سب سے اہم اور ضروری آپ کی جسمانی اور ذہنی موجودگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).