صادقین کی نرالی دنیا


کیسے کیسے لوگ ہمارے درمیاں تھے۔ ایم ایف حسین کو ہندوستان کا پکاسو کہا جاتا تھا۔ انتہا پسند گروپ نے انھیں مارنے کی دھمکی دی۔ قطر میں جلا وطنی کی زندگی گزار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پکاسو کے تعلق سے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ پکاسو ان دنوں پریشان اور خالی ہاتھ تھے۔ ایک عورت ان کے پاس پہنچی اور کچھ بھی بنا دینے کی ضد کرنے لگی۔ پکاسو نے کچھ لکیریں کھینچ کر عورت کی طرف بڑھایا اور بولے، یہ لو۔ کروڑوں کی پینٹنگ۔

عورت کو تعجب ہوا۔ وہ اسی وقت بازار گئی۔ پینٹنگ کی قیمت دریافت کی تو معلوم ہوا، دس سیکنڈ میں بنائی گئی یہ پینٹنگ حقیقت میں کروڑوں روپے کی ہے۔ اس نے پکاسو سے پوچھا، محض دس سیکنڈ۔ پکاسو کا جواب تھا، اس کے تجربے میں صدیاں لگی ہیں۔ مونا لزا، یہ ایک ایسی عورت کی تصویر ہے جس پر ہر کوئی فدا ہے۔ اس پرفتن لڑکی کی خفیہ مسکراہٹ کی قیمت 850 ملین امریکی ڈالر ہے۔ لوگ مونا لیزا کی اس پینٹنگ کو دیکھنے کے لئے ساری دنیا سے آتے ہیں۔

آتے ہیں، لیکن اس تصویر میں کیا ہے؟ جو اسے پراسرار بنا دیتی ہے۔ یہ پینٹنگ 500 سال قبل اٹلی کے باصلاحیت مصور لیونارڈو ڈاونچی نے بنائی تھی۔ ونسنٹ وان گو، ایک ایسا فنکار جسے کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اس نے سن فلاور کی ایک پوری سیریز پینٹ کردی۔ دنیا حیران رہ گئی۔ اسے قدرت نے کتنا انوکھا تحفہ دیا تھا۔ ونسنٹ پاگل ہو گیا۔ ایک خوبصورت لڑکی کے لئے اس نے اپنے ایک کان کی قربانی دی تھی۔

میں صادقین کو ان لوگوں کے درمیان دیکھتا ہوں۔ وہ عظیم مصور تھے۔ خوبصورت تخلیقی ذہن رکھتے تھے۔ تخیل سے کھیلتے تھے۔ انگلیاں کینوس پر حرکت کرتیں تو ہر تصویر شاہکار کہلاتی۔ صادقین 30 جون 1930 ء کو امروہا میں پیدا ہوئے۔ انھیں رباعیات کے شہنشاہ، عظیم مصور، خطاط اور نقاش کی حیثیت حاصل ہے۔

اے شوخ! ہے کب نفاق، مجھ میں تجھ میں
اک وصل ہے اک فراق، مجھ میں تجھ میں
اجسام میں اختلاف، میرے تیرے
ہے وہ ہی تو اتفاق، مجھ میں تجھ میں

یہ صادقین تھے کہ غالب کے اشعار میں خطاطی سے نئے رنگ بھرے۔ اقبال کے اشعار کی معنوی دنیا کے جوہر ہم پر کھولے۔ وہی کشف ذات کی آرزو۔ مرے میہماں، مرے راہرو!

فن یا آرٹ کی دنیا میں رہنے والوں کی اپنی دنیا بن جاتی ہے۔ صادقین کی بھی اپنی ایک دنیا تھی۔ زندگی گزارنے کا طریقہ اور انداز مختلف تھا تھا۔ خود میں کھوے بھی رہتے تھے اور خود سے آزاد بھی رہتے تھے۔ چہرے پر مسکراہٹ اور سنجیدگی دونوں کا امتزاج ہوتا تھا۔ کبھی کبھی ایسا لگتا تھا کہ وہ خلا میں دیکھیں گے اور خلا میں محض ان کی ایک نگاہ سے شاہکار تصاویر کا آشیانہ آباد ہو جائے گا۔ اور صادقین اس قدر انوکھے فنکار تھے کہ جو بھی ان سے ملتا، ان کا پرستار اور عاشق بن جاتا۔

وہ مصور بھی تھے۔ خطاط بھی۔ مجسمہ ساز بھی۔ اور وہ جہاں بھی انگلیوں کی جنبش سے کام لیتے، جہان معانی کا دریا بہنے لگتا۔ ۔ فروری 1987، ستاون برس کی عمر میں، صادقین کا انتقال ہو گیا۔ ہندوستان، پاکستان میں سوگ کی لہر دوڑ گئی۔ ان چہروں کے علاوہ بھی صادقین کا ایک اور چہرہ تھا۔ ایک سچے اور خوبصورت شاعر کا چہرہ۔ ایک ایسا چہرہ جسے فیض احمد فیض جیسے شاعر نے بھی پسند کیا تھا۔ صادقین امروہہ میں پیدا ہوئے۔ لیکن پاکستان جانے کے بعد بھی، ایک ہندوستانی دل ہمیشہ ان کے اندر دھڑکتا رہا۔

یہ امروہہ والوں کی خاصیت بھی ہے کہ کہیں بھی چلے جائیں لیکن امروہہ کی زمین اپنے طلسم کدے سے باہر نہیں نکلنے دیتی مشہور مصور ایم ایف حسین، صادقین سے اپنی محبت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ۔ ۔ ۔ میں گزشتہ دو دہائی سے صادقین کے فن اور کرشموں سے واقف ہوں۔ پیرس میں اور دیگر بین الاقوامی نمائش میں، میں نے اکثر ان کی جھلک دیکھی ہے۔ ان سے میری پہلی ملاقات 20 نومبر 1981 کو دہلی کے ایک ہوٹل میں ایک کمرے میں ہوئی تھی۔

دیوار کے کھمبے سے سیاہ شیروانی جھول رہی تھی۔ یہ شیروانی بھی امروہہ کی یاد دلاتی تھی۔ آدھا کھلا سوٹ کیس تھا، فرش پر بکھرے ہوئے بے ترتیب اخبارات تھے۔ اچانک جھکے اور سادہ اخبارات کو الٹ پلٹ کر دیا۔ یہ سوچا تھا کہ اب وہ کوئی بری خبر سنانے جا رہے ہیں۔ لیکن اس کے بجائے انہوں نے نے ایک موٹی ناک والا قلم نکالا اور عربی رسم الخط کے دو ’نون‘ کھینچ دیے۔ میں انھیں دیکھتا رہا۔ صادقین ہنسے اور طنزیہ انداز میں کہا۔ ”جب بھی میرے ملک کے نام نہاد مولوی یہ دیکھتے ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں عورت کے عریاں سینے کی نمائش کرتا ہوں اور یہ اخلاق اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے۔“

صادقین کے تعلق سے ہزاروں کہانیاں مشہور ہیں۔ ۔ صادقین کی زندگی میں سب سے انوکھا موڑ اس وقت آیا جب جولائی 1968 میں ان کی تصاویر کی نمائش ہوئی۔ ان تصاویر میں، صادقین نے غالب کے اشعار کو ایک نئے رنگ میں متعارف کرایا تھا۔ غالب کے اشعار پر مشتمل ان تصویروں کو ساری دنیا میں جو عزت ملی، اس سے کون واقف نہیں۔ غالب کی معنویات کی پرتیں کچھ کھلیں کچھ نہیں کھل سکیں۔ غالب، غالب تھے لیکن صادقین بھی صادقین تھے۔ کرشماتی لکیریں کھینچ کر غالب کے اشعار میں نئے رنگ بھر دیے۔

صادقین نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یہ تصویریں بھی غالب کے شعروں کی طرح یادگار بن جائیں گی۔ ۔ صادقین غالب اور عمر خیام کے عقیدت مند تھے۔ صادقین جون 1930 میں امروہہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امروہہ میں ہوئی۔ ڈرائنگ اور آرٹ میں دلچسپی بچپن سے ہی تھی۔ 1948 میں، صادقین پاکستان چلے گئے۔ کچھ دن بہت مشکل سے گزرے۔ پاکستان میں ریڈیو سے بھی وابستہ ہے۔ لیکن شاعری، خطاطی اور مصوری کے شوق نے آہستہ آہستہ اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ وہ اپنے استاذ بھی خود تھے اور شاگرد بھی۔

خطاطی میں، شاعری میں، نقاشی میں
آپ اپنا ہوں شاگرد، خود اپنا استاد
کہتے ہیں صادقین کی شخصیت اور لکیروں پر ق کا رنگ غالب تھا۔ ان کی یہ رباعی دیکھئے
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت کے ساتھ کینوس پر اتارا اور رنگوں میں روح سرایت کر گئی۔ لفظ بولنے لگے۔ جو رنگ تھے، وہ حسین کہکشاں میں تبدیل ہو گئے۔

معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرۂ خون جگر سل کو بناتا ہے دل

اب وہ نہیں ہیں تو ہر جگہ فراق کا عالم۔ دن بھی دراز رات بھی کیوں ہیں فراق یار میں۔ اہ، کیسی کیسی ہستیوں کو وقت نے ہم سے چھین لیا۔

گرمیٔ آرزو فراق! شورش ہائے و ہو فراق!
موج کی جستجو فراق! قطرہ کی آبرو فراق!

مگر حقیقت بھی یہی۔ قطرہ گرا اور فنا ہو گیا۔ لہریں اٹھیں، فراق کو پہنچ گئیں۔ صادقین وہ تھا کہ فراق کے رنگوں کو ، اپنے رنگوں سے نیا تصور دیتا تھا۔

صادقین کی سب سے پہلی نمائش فرانس کی مشہور بندرگاہ، لہہارے کے عجائب گھر میں ہوئی۔ اس کے بعد، صادقین نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ شہرت ان کے تلوے چاٹتی تھی۔ لیکن ان میں غرور نہیں تھا۔ زندگی گزارنے کا طریقہ آسان تھا۔ صادقین کو فن کا سودا منظور نہیں تھا۔ جب ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی تھیں، اندرا گاندھی بھی صادقین کو پسند کرتی تھیں۔ صادقین ایک دفعہ دہلی آئے تھے۔ اندرا جی کو ان کی مصوری بھی پسند تھی اور سادہ مزاج طبیعت بھی۔

1981 کی بات ہے۔ منیر احمد شیخ دہلی میں تھے، پاکستانی سفارتخانے میں پریس کونسلر کے عہدے پر تھے۔ باقی گفتگو ان کی سنئے۔

’ایک دن مجھے ہندوستانی وزیر اعظم کے سکریٹریٹ سے فون آیا کہ مسز اندرا گاندھی رومانیہ جانے والی ہیں لیکن جانے سے قبل وہ دن کے بارہ بجے صادقین سے ملنا چاہتی ہیں۔ پوچھا، صادقین کب آ رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ اس وقت وہ جہاز میں ہیں۔ فلائٹ 2 بجے دہلی پہنچ رہی ہے۔ کہا گیا، ان کا استقبال کیجئے۔ میں نے وقت دیکھا۔ اسی وقت، بھاگا بھاگا پالم کے ہوائی اڈے پر پہنچا تاکہ صادقین صاحب کو وہیں گھیرا جا سکے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ پاسپورٹ ہاتھ میں لے کر کھڑے تھے۔

میں جلدی سے آگے بڑھا۔ اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ کل دوپہر 12 بجے، مسز اندرا گاندھی آپ سے ملنے کی منتظر ہیں۔ صادقین نے سر ہلایا اور کہا کہ وہ ضرور ملیں گے۔ لیکن مجھے اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ میں نے بتایا کہ وقت کم تھا۔ سب کچھ اچانک ہوا فون اس وقت آیا جب آپ کا طیارہ اڑنے ہی والا تھا۔ صادقین نے کہا، ”میں ہندوستان کی وزیر اعظم کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے وقت کی کمی کے باوجود مجھ سے ملنا ضروری سمجھا۔ یہ یقینی طور پر میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔

دوسرے دن میں ان کو اپنے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم کے دفتر لے گیا۔ ہمارے سامنے لکڑی کے صوفے پر ، تین فوجی جرنیل وزیر اعظم سے ملاقات کا انتظار کر رہے تھے۔ شاید ان افسران کو بھی ملاقات کے لئے بلایا گیا تھا۔ وزیر اعظم کے انتظامی سکریٹری آئے اور جرنیلوں سے کہا کہ آپ کو کچھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔ مسز گاندھی پہلے شہرہ آفاق مصور صادقین سے ملنا چاہتی ہیں۔

جب ہم مسز گاندھی کے کمرے میں داخل ہوئے تو مسز گاندھی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سلام کے بعد بیٹھنے کو کہا۔ صادقین ابھی بیٹھے ہی تھے کہ مسز گاندھی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”آپ کے اخبارات ان دنوں مجھ پر بہت کیچڑ اچھال رہے ہیں۔“

صادقین نے حیرت کا مظاہرہ کیا۔ ”میڈم! میں اخبار بالکل نہیں پڑھتا۔“ اس جواب پر ، مسز گاندھی چونک گئیں اور اخبار کو اپنے ہاتھ سے الگ کر دیا۔ انھیں ایسا لگا جیسے انہوں نے نے یہ سوال کسی غلط آدمی سے کر لیا ہو۔ اس کے بعد، ملاقات کے دوران، انہوں نے کسی بھی طرح کی سیاست یا پاک بھارت تعلقات کے بارے میں بات نہیں کی۔ ہاں، مسز گاندھی نے ہندوستان پہنچنے پر صادقین کو فون کیا اور ان سے پوچھا کہ کب تک قیام رہے گا اور وہ کہاں کہاں جانا چاہتے ہیں؟ صادقین نے کہا کہ انہیں کہیں اور نہیں جانا ہے لیکن امروہہ یقینی طور پر جانا چاہیں گے۔ گفتگو کے دوران، صادقین نے کہا کہ میڈم آپ اپنی فائلیں چیک کریں اور میں اپنا کام کروں گا۔

اس کے بعد صادقین نے اپنی جیب سے مارکر نکالا، سامنے رکھے ہوئے کاغذات میں سے ایک سفید کاغذ پر اللہ لکھا اور مسز اندرا گاندھی سے کہا کہ پڑھئے، میں نے کیا لکھا ہے مسز گاندھی نے کہا کہ یہ ’اوم‘ لکھا ہوا ہے۔ صادقین نے کاغذ کو الٹا کر دیا اور کہا، اب پڑھئے، ۔ مسز گاندھی نے کہا ’اللہ‘ ۔ مسز گاندھی نے پوچھا یہ کیسے ہوا؟ ”

صادقین نے کہا۔ ۔ ۔ کچھ نہیں، یہ صرف استادی ہے۔

یہ ملاقات تقریباً آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔ گفتگو کے دوران اردو زبان اور مصوری، پر بہت سی گفتگو ہوئی۔ جب میں باہر نکلا تو میں نے شریف آدمی سے کہا کہ اگر پاکستانی اخبارات محترمہ گاندھی سے ناراض ہیں تو آپ نے اخبارات سے علیحدگی کا اعلان کیوں کیا؟ صادقین نے کہا، بھائی کیا کریں گے۔ پہلی میٹنگ میں، میں نے جواز پیش کیا کہ مجھے اس سیاست کو آگے بڑھنے سے پہلے ہی روک دینا ہے۔ اور میں نے وہیں بات ختم کر دی۔

ہم باہر جانے کے لئے سیڑھیوں سے نیچے جا رہے تھے کہ مسز گاندھی کے پرسنل سکریٹری بھاگتے ہوئے واپس آئے اور تیز آواز میں کہا، صادقین صاحب! ذرا ٹھہریں وزیر اعظم پوچھ رہی ہیں آپ کس دن امروہہ جا رہے ہیں؟ صادقین نے کچھ سوچ کر وقت بتایا۔ پرسنل سیکریٹری نے کہا، ”نہیں، آپ گیارہ تاریخ کو جائیں گے۔ صادقین نے کہا، میں نے سب کو بتا دیا ہے۔ اب کیسے ممکن ہے۔ ، اب رکنا مناسب نہیں ہے۔“ پرسنل سیکرٹری نے کہا کہ ہمیں ایک موقع دیجئے، آپ گیارہ کو ہی جائیں۔

صادقین نے وزیر اعظم کی خواہش کا احترام کیا۔ ٹھیک ہے، جیسا کہ وہ چاہتی ہیں، ہم گیارہ کو روانہ ہوں گے۔

گیارہ تاریخ کو ، دہلی کے ریلوے پلیٹ فارم پر ، امروہہ جانے والی ٹرین کے لئے ایک علیحدہ ڈبہ لگایا گیا تھا، ڈبہ پر روشن حروف میں صادقین کا نام لکھا ہوا تھا۔ اور پھر دنیا نے وہ تماشا دیکھا، جس کو دیکھنے کے لئے آنکھیں ترستی ہیں۔ ایک ہجوم تھا جو صادقین کے نعرے لگا رہا تھا۔ جیسے کسی شہنشاہ کی آمد ہو۔ سارا شہر ٹوٹ پڑا تھا۔ جب ٹرین امروہہ پہنچی تو صادقین کا پر جوش استقبال کرنے کے لئے سارے شہر کو سجایا گیا تھا۔ سٹیشن پر چاروں طرف پھول ہی پھول۔ کمشنر، پولیس کے اعلی عہدیدار، دیگر افسران حیرت زدہ تھے۔ پلیٹ فارم پر ایک ہاتھی کو سجا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ جب پھولوں سے لدے ہاتھی پر صادقین سوار ہوئے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے کسی عزیز سے کہا۔ یہ عزت تو جواہر لال نہرو کو بھی نہیں ملی۔ وہ بھی امروہہ آئے تھے۔

ہاتھی کی سواری تھی اور سارا امروہہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ صادقین کا نام لے کر نعرے لگ رہے تھے۔ ایک صوفی منش بے نیاز ہاتھ پر سوار تھا۔ ۔ کیلے کے درختوں سے دروازے جگہ جگہ بنائے گئے تھے اور بازاروں میں مکانات کی چھتوں سے پھولوں کی پتیاں برس رہی تھیں۔ وقت اس تاریخی منظر کا گواہ بن گیا تھا۔

صادقین چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ہزاروں یادیں چھوڑ گئے۔ ، ایسا لگتا ہے جیسے ابھی کل کی بات ہے۔ آپ ان کے قریب جائیں گے۔ وہ مسکرا کر آپ کی طرف دیکھیں گے گے۔ اور جب آپ واپس ہوں گے تو آپ کے ہاتھوں میں خطاطی کا ایک نمونہ، قیمتی کاغذ کی شکل میں ہوگا، جس پر اللہ لکھا ہوگا۔ آپ کاغذ کو الٹا کریں گے تو اوم نظر اے گا۔ اوم اللہ ترشول۔

اور میرے رب۔ میں نور کی بارشوں میں ہوں۔ اور گم ہوں۔ اور دھند میں گول گول گھومتے ہوئے حروف کبھی اوم بن جاتے ہیں کبھی اللہ۔

اقبال نے کہا تھا۔ گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا۔

صادقین آسمانی سفر پر نکل گئے۔ مگر یقین کہ وہاں بھی ان کے ہاتھوں میں ایک کاغذ ہوگا۔ فرشتے ان کے اس پاس ہوں گے۔ وہ چشمے کو آنکھوں پر برابر کرتے ہوئے پوچھ رہے ہوں گے۔ پڑھو، کیا لکھا ہے۔ ترشول کی ڈنڈی کو پاس میں لے آؤ تو اللہ ہو جاتا ہے۔

اللہ۔ اللہ ہو۔ چاروں طرف اللہ کا نور۔
ایسے تھے صادقین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).