فارس مغل کے افسانوی مجموعے ’آخری لفظ‘ کی یاترا


شال (کوئٹہ) کے قدیم محلے کی کنج گلی میں روایتی مکان کے روشن کمرے میں اجلی آنکھوں اور کشادہ پیشانی والے ’نکے ویر‘ فارس مغل نے مجھے اپنائیت کے ساتھ، خلوص میں ڈوبے لفظوں سے آراستہ ”آخری لفظ“ ہاتھوں میں تھامنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے لیے ’شکریہ‘ لفظ بہت معمولی ہے۔

” آخری لفظ“ فارس مغل کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ جس میں بیس افسانے اور پانچ افسانچے شامل ہیں۔ اسے صریر پبلیکیشنز لاہور نے کتابی شکل میں دلکش اور بامعانی سر ورق کے ساتھ جولائی 0202 شائع کیا۔ اس سے قبل فارس کے دو ناول بعنوان ’سو سال وفا‘ اور ’ہمجان‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ثابت ہوئے ہیں۔ ان ناولوں کونہ صرف وطن عزیز بلکہ ہندوستان کے علاوہ جہاں جہاں اردو پڑھنے والے موجود ہیں، بے حد پسند کیا گیا۔ فارس نظم کا شاعر بھی ہے، ذرا ایک بار اس کا شعری مجموعہ ’سرخ ہونٹوں کی کنج گلی میں‘ پڑھ کر دیکھ لیں۔

آئیے اب ’آخری لفظ‘ کی یاترا پر چلتے ہیں۔ میں نے اپنا پہلا پڑاؤ کتاب کے پیش لفظ پر ڈالا۔ فارس کا ادبی سفر طویل ہے مگر گھنے پیڑوں کی چھاؤں میں مسافر کے پہلے پڑاؤ کی کہانی فارس کی زبانی سنیں۔

” المختصر میری خوش بختی ہے کہ میں ادبی سفر کے پہلے پڑاؤ تک پہنچ آیا ہوں جہاں مجھے اپنے افسانے پاکستان اور ہندوستان کے معتبر، معروف و مستند افسانہ نگاروں اور ناقدین کے سامنے پیش کرنے کے مواقع عطا ہوئے اور انہی نابغۂ روزگار شخصیات کی آرا فن فسوں گری کے حوالے سے معلومات میں بے بہا اضافے کا سبب بنی۔ ہم عصر افسانہ نگاروں کے تخلیقی مواد کا مطالعہ مزید بہتر لکھنے کی تحریک کے ساتھ تیر بہدف نسخہ ثابت ہوا“

افسانہ کیا ہے؟ کیا افسانہ داستان کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ داستان جس کی بنیاد غیر عقلی واقعات اور مافوق الفطرت کرداروں کی سلیٹی اینٹوں سے اٹھائی جاتی ہے۔ پھر بیسویں صدی نے داستان کی سلیٹی اینٹوں کی جگہ ’حقیقت نگاری‘ کو چن کے افسانے کی بنیاد رکھی۔ ایسی تحریر جس میں اختصار اور ایجاز مسلم حقیقت کے ساتھ رونما ہوتے ہیں۔ وحدت تاثر اور تجسس بنیادی اوصاف ہیں۔ قاری صفحہ پلٹتے ہوئے گہری فکر کے ساتھ انجام کا تجسس لیے آگے بڑھتا ہے۔ ایسا فسوں جو لفظ بہ لفظ، سطر بہ سطر ٹھہر ٹھہر کے سوچنے پر مجبور کردے۔ ایسے ہیں ’آخری لفظ‘ کے افسانے۔

کتاب کا پہلا افسانہ ’للی‘ ہے۔ جنگ عظیم دوم کے پس منظر میں بنی ہوئی اس طویل کہانی میں انسانی جذبات اور احساسات کا ایسا فنی اور جمالیاتی اظہار ملتا ہے کہ آفاقیت کے سارے دریچے یکے بعد دیگرے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بالخصوص للی کے کردار سے ہمیں ان خالص انسانی جذبوں سے آگاہی ملتی ہے جن کی بدولت انسان کو دیگر مخلوقات میں اعلٰی مقام عطا کیا گیا تھا مگر وہ بنیادی احساسات اور جبلتیں ایک نیا اور بھیانک رخ اختیار کر چکی ہیں۔

” یہ جنگ تم مردوں کے پاگل وحشی دماغوں کا خلل ہے اور قیمت ہمیں چکانا پڑ رہی ہے۔ میں تھوکتی ہوں ایسے انصاف پر ۔ ۔ ۔ جہاں اب میرے تین ہم وطن مجھے دوشی ٹھہراتے ہوئے اپنی مردانگی دکھا رہے ہیں“

مقامیت علاقائیت کے تعصب کی قید سے آزاد افسانہ کسی خاص گروہ، نسل یا طبقے کا نمائندہ نہیں بلکہ کل نوع انسانی اس فن پارے کا موضوع ہے۔ کہانی کا انجام ایسا چونکا دینے والا ہے کہ قاری کئی دنوں تک اس کے ٹرانس سے باہر نہیں نکل پاتا۔

کتاب کا دوسرا افسانہ ’آسیب آب‘ ہے۔ اس فکر انگیز افسانے میں پانی کی کمیابی جیسے بین الاقوامی مسئلے کو مقامی رنگ میں چونکا دینے والے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ بالخصوص بلوچستان اور سندھ کا قاری ایسی ان گنت کہانیاں اپنے اڑوس پڑوس میں دیکھتا ہے۔ کہانی کی بنت اور کردار نگاری ایسی لاجواب ہے کہ اختتام پر قاری کتاب زانو پر رکھے گہری سوچوں میں ڈوب جاتا ہے۔

تیسرا افسانہ ’ننگی خاموشی‘ ہے۔ اس میں ہمارے معاشرے کے ننگے سچ کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی نمکین پانی سے لبریز نظریں شرم کے مارے زمین میں گڑ جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حیوان اور انسان، دونوں شعور رکھتے ہیں لیکن دونوں میں فقط اتنا فرق ہے کہ حیوان محض شعور رکھتا ہے جبکہ انسان شعور کا شعور بھی رکھتا ہے۔ یعنی اچھے برے، غلط درست، پاک غلیظ، زہر امرت وغیرہ پہچاننے کی قدرت رکھتا ہے۔ مگر مذکورہ افسانہ مجھے یہ باور کروانے میں کامیاب رہا کہ حضرت انسان اپنے بلند شعوری مقام سے کب کا گر چکا ہے، جس نے اسے اشرف المخلوقات کے منصب پر بٹھایا تھا۔

چوتھا افسانہ ’پرفیوم‘ ہے۔ میں اسے امیجری ) Imagery) کی شاندار مثال کہوں گا۔ اس افسانے میں فارس نے کیا عمدہ تمثیل آفرینی کے جوہر دکھائے ہیں۔ رنگین لفظوں کے ذریعے ایسی تصویر کشی کی ہے کہ کینوس پر حسین فن پارہ دامن دل کھینچتا نظر آتا ہے۔ اشارتی آہنگ میں دو بہنوں کی کمال کہانی بنی گئی ہے۔

’ اللہ کے بندے‘ کتاب کا پہلا افسانچہ ہے اور یہ چند سطور ہمارے سماج کے چہرے پر چڑھے نام نہاد ’مقدس نقاب‘ پر ایک گہری کھروچیں ہیں۔

پانچواں افسانہ ’من چاہا لمس‘ ہے۔ یہ افسانہ باریک بین، حساس قارئین کے لیے ہے۔ دوران مطالعہ مجھے ”تلازمہ ¿ خیال یا ایتلاف (Association of thought) کے حقیقی معانی سمجھ میں آئے کہ کیسے انسانی ذہن اور پھر معذور جسم کسی ایک لمس، خیال یا تصور سے کسی دوسرے لمس، خیال یا تصور تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ کبھی میرا دھیان فرائڈ کی نفسیاتی اصطلاح ) Oedipus Complex (کی طرف چلا جاتا تھا۔ اس افسانے کی قرات کے بعد میں بہت دیر تک کتاب گود میں رکھے نم آنکھوں سے مرکزی کردار کے بارے میں سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ ایسا افسانہ صرف فارس مغل ہی لکھ سکتا ہے۔ فارس کو ذاتی طور پر جاننے والے میرے اخذ کردہ نتیجے کی تائید کریں گے۔ جیو فارس! ایسے حساس موضوع کیسی مہارت اور سلیقے سے نبھایا ہے۔ لامتناہی داد۔

ششم افسانہ ’قفس کے پھول‘ ہے۔ اس افسانے میں بڑی بے دردی سے ہمارے قید خانوں میں جاری مکروہ افعال کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ مضبوط پلاٹ اور جاندار کلائمکس کے ساتھ کہانی کا انجام روح کو جھنجوڑ کے رکھ دیتا ہے۔

ساتواں افسانہ ’سکیچ‘ ہے۔ مجھے اس افسانے کی فضا سگمنڈ فرائیڈ کی تھیوری (Dream Interpretation) کے دائرے میں محسوس ہوئی ہے۔ مجھے یہاں اعتراف کرنے دیں کہ مذکورہ افسانہ میری یاترا کا ایسا مقام ہے جس میں کم از کم میرے لیے دلچسپی کا عنصر نہ ہونے کے برابر رہا۔ میں تنقید نگار نہیں بلکہ ایسا سیاح ہوں جسے جو مقام اچھا لگا، تعریف کردی اور جہاں حظ کا پیمانہ کم رہا وہاں سے فوراً خیمہ اٹھا لیا۔ مجھے یہ افسانہ کچھ تجریدی سا لگا، ہو سکتا ہے آپ اسے مجھ سے کہیں زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

ہمارا اگلا پڑاؤ ہے ’زرینہ مدینہ‘ ۔ یہ افسانہ اسلامی معاشرے کے اندر طبقاتی تقسیم میں مذہبی شدت اور غربت کی رکاوٹ کو خوبصورتی سے اجاگر کرتا ہے۔

کتاب کا دوسرا افسانچہ ’جنگ‘ ہے۔ یہ چند سطور انسانوں کی معاشرت پر حیوانوں کا گہرا طنز ہے۔
” اماں! ہم اپنے خدا کی زمین پر رہتے ہیں پھر انسانوں کی جنگ سے ہمارا کیا واسطہ؟

فاختہ نے بیٹی کا کمزور نازک جسم اپنے پروں میں سموتے ہوئے سرد آہ بھری ”نہیں جان مادر! یہ ساری زمین انسانوں کی ہے۔ فقط اشرف المخلوقات کی“

اب یہاں ہم نویں پڑاؤ کی بجائے دسویں مقام ”شاہ بیگم اور غلام“ پر خیمہ نصب کریں گے۔ اس افسانے میں فارس نے شاہ، بیگم اور غلام کی تشبیہات کا چھانٹا چلاتے ہوئے تاریخ کے میدانوں میں تخیل کا تازہ دم گھوڑا دوڑایا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے تجسس کا عنصر افسانے کو دلچسپ بناتا ہے۔ اعلٰی، متوسط اور نچلے طبقے کے اذہان کی نہایت عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ بقول ساحر

دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے لوٹا رہا ہوں میں

اگلا افسانہ ’گل جان‘ ہے۔ یہ چار دہائیوں کا نوحہ ہے اور اس دور کا المیہ ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اس کہانی میں افغان وار کے آفٹر شاکس کی دل دہلا دینے والی تصویر دکھائی دیتی ہے ( ایسے مناظر کوئٹہ والوں کے لیے نئے نہیں ہیں ) ۔ افسانے کی قرات کے دوران مجھے افغانستان کا ترقی پسند شاعر، ادیب سلیمان لائق بہت یاد آیا۔ ابھی گزشتہ دنوں ان کی وفات کی المناک خبر ملی تھی۔ بس اتنا کہوں گا کہ سلیمان لائق ہم تم سے شرمندہ ہیں کہ اپنے وطن میں ہمارے ادیب کو ایسی دلخراش کہانیاں قلمبند کر کے آنے والی نسلوں کے لیے تاریخ مرتب کرنا پڑ رہی ہیں۔

اگلا افسانہ ’دہشت گرد‘ کے عنوان سے ہے۔ اس افسانے میں (نو) ستمبر کے بعد کی عالمی نفسیات کو مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ میں اس افسانے کو ’روح عصر‘ (Zietgeist) کی عمدہ مثال قرار دوں گا۔ کسی فلسفی نے کیا خوب کہا ہے ”وہیں سے آواز دو جہاں سے تمھیں پکارا گیا ہے“ ۔ اس سے مراد ہے کہ انسان کو اپنے زمانے اور محل وقوع کا درست فہم ہونا چاہیے اور فارس نے ہمیں یہی ادراک بہم پہنچانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

کتاب کا تیسرا افسانچہ ’صاب لوگ‘ ہے جس میں ہمارے کھوکھلے نظام تعلیم پر گہرا طنز کیا گیا ہے ۔ طنز (Satire) ایسا مزاح ہے جس میں مزاح کنندہ متعلقہ موضوع کی ناہمواری اس طرح سامنے لاتا ہے کہ وہ شخص یا گروہ جسے موضوع بنایا گیا ہے بظاہر ہنسے لیکن اندر ہی اندر خجالت محسوس کرے اور کہانی اس محاذ پر پوری طرح کامیاب ہے۔

آخری لفظ کا بارہواں پڑاؤ ”مار خور کا بچہ“ ہے۔ اس افسانے میں شمال کی یخ بستہ ہواؤں اور ہمارے سرد رویوں کا تقابل ہے۔ کہانی کی اٹھان اور کرداروں کی نفسیات کا بیان لاجواب ہے۔ اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں تو وہاں کہیں نہ کہیں ’فیروزہ‘ ضرور براجمان نظر آئے گی۔ افسانے کا انجام خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوئے برفباری میں گم ہوجاتا ہے۔

” انسان کو اپنی ڈوبتی کشتی دیکھ کر ہوش آتا ہے کہ وہ جس مال و اسباب کو تمام عمر کار آمد سمجھتا رہا اس میں سے ’کچھ‘ کے علاوہ باقی سارا بے معنی، اضافی بوجھ بر وقت اتارا جاسکتا تھا۔ ناعاقبت اندیش لوگ اس اٹل لمحے سے بے خبر رہتے ہیں جب تمام ناکارہ، بے کار اشیا ان کے بے وقعت جسموں اور کشتی کے ساتھ سمندر برد کر دی جائیں گی“

میری یاترا کا اگلا پڑاؤ ہے ”چاند کو خبر تھی“ ۔ کیا ہو اگر سماجی رشتوں میں بالخصوص میاں بیوی کے رشتے کی گرہیں کھولتے کھولتے اچانک ایک روز انکشاف ہو جائے کہ ہمیں تو ’روحانی طلاق‘ ہو چکی ہے۔ یہ افسانہ کچی ڈور سے بندھے بلوری رشتوں کی حساسیت کو کمال چابکدستی سے پیش کرتا ہے۔ کہانی میں انسان اور جانور کی جبلتوں کا زبردست موازنہ کیا گیا ہے۔

” رعد سے جاگا ہوا شخص“ کتاب کا پندرہواں افسانہ ہے۔ یہ افسانہ ہر ایسے خطے کا ترجمان ہے جہاں اقلیتوں پر اکثریت کا خوف مسلط رہتا ہے۔ جہاں تقسیم در تقسیم کا کلیہ شد و مد سے کار فرما ہوتا ہے۔ جہاں (Conspiracy Theory) کا اطلاق مسلمہ حقیقت کے طور دکھائی دیتا ہے۔ تخلیقی حسیت، مشابہتی رشتوں کو تلاش کرتی تشبیہات اور واقعاتی تلمیحات نے اس افسانے کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ یہاں افسانہ نگار نہ صرف ادبا کی لاعلمی اور معنی خیز خاموشی پر طنز کرتا ہے بلکہ معاشرے کی دکھتی رگ پر بھی ہاتھ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی افسانہ نگار اس مسئلے کا حل اجتماعیت اور اشتراکیت کے حسن میں تلاش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

” میرا بھی یہی خیال ہے کہ تبدیلی کا نکتۂ آغاز اس احتجاج کا مرہون منت ہے جب ہر شخص گھر سے باہر نکل کر سرکاری اداروں سے یوں استفسار کرے گا کہ میری دستار میرے سر پر موجود ہے لیکن فلاں فلاں کی دستار بے سر کیوں ہے؟ میرے گلشن کے پھول سلامت ہیں لیکن میرے ہمسائے کے چمن میں جنگلی سور کیسے تباہی مچا کر نکل گئے؟ میرا لہو میری رگوں میں دوڑتا ہے لیکن میرے دوستوں آشناؤں کا خون کیوں گلیوں شاہراہوں پر بے توقیر ہوا؟ بس اب یہی ایک سماجی معاہدہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے بصورت دیگر سیلاب اپنا راستہ خود متعین کرتا ہے“

کتاب کا چوتھا افسانچہ ”علموں بس کریں او یار“ ہے جو کوہ محبت کے وشال سائے میں بے لوث مامتا اور سچی دانش کے موتے بکھیرتا ہے۔

میرا سولہواں پڑاؤ ”والعصر“ ہے۔ ایک ایسا بے مہر اور بے مہار معاشرے میں اگی ہوئی کہانی، جس میں بیٹیوں کے بابل کو ’باپ‘ ہونے کی نفسیاتی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس تلخ سچ کو نئے رنگ اور ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے۔ گو کہ موضوع پرانا ہے مگر ٹریٹمنٹ بے حد اچھوتا ہے۔

اس سفر کے اگلے پڑاؤ پر ”پاداش“ افسانہ ہے۔ جس میں برطانیہ میں مقیم شخص کے خود ساختہ نظریے کے ساتھ محبت کی نفسیاتی الجھنوں اور معاشی سماجی مجبوریوں کا عمدہ بیان ہے۔ یہ کہانی بڑی مہارت اور دلسوزی کے ساتھ بنی گئی ہے۔ دل کے تار چھو لینے والا افسانہ ہے۔

آئیں اب سرخ چناروں کی سلگتی چھاؤں میں کچھ دیر ٹھہر کر ان کی باتیں سنتے ہیں۔ یہ ڈل جھیل کا چار چناری جزیرہ ہے۔ جن میں اب ایک ہی بار آور ہے جبکہ باقی تین بانجھ پن کی زردی میں ڈوب چکے ہیں۔ انہی چناروں کی استعاراتی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر افسانہ نگار نے کمال مہارت سے پریم کہانی کی بنیاد رکھی ہے۔ افسانہ ”چار چناری کا چوتھا چنار“ کا واضح پیغام، کشمیر صرف کشمیروں کا ہے۔

اب ہم اپنے آخری پڑاؤ سے ذرا پہلے بدیسی نام کے دیسی افسانے ”پیراٹروپر کی رائفل“ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس افسانے میں ہمارے قبائلی اور نیم قبائلی سماج میں پائی جانے والی ظالمانہ رسموں میں سے ایک رسم ”کالی یا کالا“ کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے مگر کہانی کا کلائمیکس حیرت انگیز طور پر متوقع انجام سے یکسر مختلف ہے۔ جسے میں آپ کا تجسس برقرار رکھنے کے لئے یہاں بیان کرنے سے گریز کروں گا۔

اب یوں تو ہمارے سفر کا آخری پڑاؤ افسانہ ”لاسٹ پف“ ہے مگر ابھی ایک وسطی پڑاؤ کا ذکر رہتا ہے۔ پہلے بات ہو جائے ”لاسٹ پف“ کی۔ یہ کہانی ہمارے نوجوانوں کی حالت زار کا عمومی نوحہ ہے تعلیمی اداروں میں منشیات کا بے دریغ استعمال اور موجودہ نسل کا دگرگوں حالات بارے خیالات کا بیان ہے جسے تشبیہات اور تلمیحات کے طنزیہ تیروں سے چھلنی کیا گیا ہے۔ ہماری اجتماعی بے حسی اور بیگانگی کا بھر پور اظہار، مجموعی قومی شعور کے منہ پر طمانچہ ہے۔

اب بات ہو جائے اس افسانے کی، جس کا عنوان افسانوی مجموعے کے سر پر کوہ نور جڑے تاج کی مانند جگمگاتا ہے یعنی ”آخری لفظ“ کا ۔ یہ افسانہ ہماری یاترا کے وسطی استھان پر تھا مگر میں نے اس دلنشین پڑاؤ کا ذکر مضمون کے اختتام پر کرنا کیوں پسند کیا؟ اس کے لیے آپ کو آخری سطر تک ساتھ رہنا ہوگا۔ افسانہ ”آخری لفظ“ کتاب کا دلفریب چہرہ ہے۔ میں افسانہ ”للی“ کے علاوہ ”آخری لفظ“ کو کتاب کے نایاب جوہر تصور کرتا ہوں۔

ایک ایسا جاندار افسانہ جسے اردو ادب کے تاج میں بیش قیمت نگینے کی حیثیت حاصل ہے۔ افسانہ نگا نے کہانی میں قاری کے ساتھ ایسا کمال کھیل کھیلا ہے کہ قاری سطر بہ سطر دلچسپ راستوں پر حیرت اور تجسس کا دامن تھامے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسلوب ایسا سحر انگیز کہ مجال ہے پہلے لفظ نے آخری لفظ تک ایک لمحے کے لیے بھی قاری کو سانس لینے کی اجازت دی ہو اور پھر انجام سراسر چونکا دینے والا۔ افسانہ ”آخری لفظ“ شعور کی رو (Stream of Conciousness) کی شاندار مثال ہے۔ کہانی میں امیجری کا غیر معمولی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ تخیل کی چار اقسام گنوائی جاتی ہیں۔ آزاد، منضبط، فعال اور منفعل اور یہ تمام مذکورہ افسانے میں ادراکی واہمے کی صورت پائی جاتی ہیں۔

” وہ اس حسین اتفاق کے بارے میں سوچنا چاہتا تھا کہ زندگی اتفاقات کا نام ہے یا سب کچھ پہلے سے طے شدہ پلان کے مطابق ہوتا ہے اگرچہ دنیا ایک سٹیج ہے ہم سب کردار ہیں لیکن اسکرپٹ کسی نے نہیں دیکھا۔ یہ کیسا کھیل ہے؟ بہرحال کھیل دلچسپ ہے!“

عزیزم فارس مغل کے اولین افسانوی مجموعے ”آخری لفظ“ کے پیچھے برس ہا برس کی ”پباں بھار“ تپسیا ہے۔ ہم اہالیان بلوچستان ”آخری لفظ“ کو دنیائے ادب کے کسی بھی عالمی اکٹھ میں فخریہ طور پر پیش کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).