تربیلہ کی گم گشتہ بستیاں


تربیلہ جھیل میں دفن تہذیب اور ان نسلوں کا نوحہ جو اپنی اصل سے بچھڑ گئیں۔

ہر عظیم منصوبے کے پیچھے لازوال قربانیوں کی ان کہی داستان چھپی ہوتی ہے۔ تربیلہ کے ذخیرہ آب کے نیچے سوئی ہوئی بستیاں ایسی ہی لازوال قربانی کا ایک استعارہ ہیں۔ آج تربیلہ جھیل کے میلوں پھیلی پانی کی نیلی چادر کے نیچے غرق بستیوں کو ان کے اجڑ چکے مکینوں کے سوا کون جانتا ہے۔ وقت کے جبر کے ہاتھوں ان بستیوں کے مکین اپنی منفرد تہذیب، رہن سہن اور رسم و رواج کو سینے سے لگائے یہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ کسی ادیب کا ذہن رسا ان بستیوں کی غرق ہو جانے والی زندگی تک نہیں پہنچا۔

رضا علی عابدی جو اپنے ریڈیو پروگرام شیر دریا کے سلسلے میں دریائے سندھ کے منبع سے لے کر اس کے سمندر میں گرنے کے مقام تک کا سفر کر رہے تھے، تربیلہ ڈیم کا ذکر کرتے ہوئے ان لوگوں کو بھول گئے جنھیں اس پانی کے ذخیرے نے اپنے صدیوں سے آباد گھروں سے بے گھر کر دیا۔ وہ مانسہرہ سے دریائی راستے سے ہٹ کر ہری پور کی عظیم قربانی کو یاد کیے بغیر سیدھے ڈیم کے پاور ہاؤس پر پہنچ گئے۔ پاور ہاؤس اور نیچے کے علاقوں کے مسائل کا خوب تذکرہ ہوا لیکن جو حرماں نصیب اپنے بھرے پرے گھر پاکستان کی خوشحالی اور اس کی ضروریات اور مستقبل پر قربان کر کے اجنبی زمینوں کی طرف نکل گئے ان کو یاد نہیں کیا۔

متاثرین کی ایک آبادی ہیملٹ کا ذکر ہی وہ واحد یادداشت ہے جس کو عابدی صاحب نے ایک مایوس اور اجڑے دیار کی صورت بیان کیا۔ وہ کیسے لوگ ہوں گے جو اپنے گھروں اور بزرگوں کی قبروں کو پانی کے حوالے کر کے خود ایک وعدہ فردا کے سہارے اپنی بھری پری وادیوں سے نکل کر پتھریلے علاقے جس کو اس وقت برنگڑ کہتے تھے میں لا بسائے گئے۔ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد تربیلہ کی خوبصورت بستیاں صدیوں سے پرانی تہذیبوں کا راستہ رہی ہیں۔

وہ تربیلہ جس کے سبزے کی چادر سندھ کے پانی میں جھلملاتی تھی۔ مختار مسعود نے در‍یا کے کنارے بنے ڈاک بنگلہ کے سبزے کے ساتھ شفاف پانی کی چادر کو جڑا ہوا دیکھا۔ اپنی کتاب سفر نصیب میں تربیلہ کے اوپر سے جہاز میں گزرتے ہوئے انہوں نے نیچے پانیوں کے وسیع ذخیرے کے بھرے جانے اور اس سے جڑی خوشحالی کے لامحدود امکانات کو تصور کیا لیکن ان کی چشم تصور بھی ان اجڑی بستیوں تک نہ پہنچ سکی۔ وہ بھی تربیلہ کے میلوں پھیلے پانی کی چادر کے نیچے دفن ایک عظیم ثقافت اور سید احمد شہید کے قدموں کے نشان بھول گئے۔

آج ہمیں صرف یہ یاد ہے کہ یہ ایک بہت بڑا پانی کا ذخیرہ ہے۔ اس کے نیچے کیسی دنیا بستی تھی، کیسے لوگ ہوتے تھے، کیسی ثقافت تھی یہ اب کوئی نہیں جانتا۔ وہ گم گشتہ لوگ اپنی چادریں اپنے کندھوں پر ڈالے ہری پور کے میدانوں سے لے کر کراچی کے بازاروں تک بکھر گئے اور اپنے علاقے کی یاد اپنی زبان اور ثقافت کو ان شہروں، زبانوں اور رواجوں کے درمیان زندہ رکھنے کی سعی میں محو ہو گئے۔ ہم کیا جانیں اپنی قبروں میں آسودہ لوگ کیسے اوپر اپنی اولادوں کی نادیدہ خطروں سے لرزیدہ آوازیں سنتے تھے اور جانتے تھے کہ اب ان کی قبریں بے یارومددگار چھوڑی جانے والی تھیں۔

پانی ان کے گھروں اور قبروں پر پھیلنے اور ہمیشہ کے لئے ان کو دفن کرنے والا تھا۔ گاؤں کے لوگ اپنا ساز و سامان سمیٹ چکے تھے لیکن بے بسی کے عالم میں قبروں کو دیکھتے اور کبھی زندہ اپنے بزرگوں کو یاد کرتے۔ یہ علاقے جہاں کے لوگ کبھی نہیں مرتے اور اپنی اولاد کی باتوں میں زندہ رہتے تھے لیکن اب آنے والے زمانوں کو اس تہذیب کی قربانی مطلوب تھی۔ یہ قربانی کس قیمت پر دی گئی ہم کبھی نہیں جان سکتے۔ جنہوں نے یہ قربانی دی اور اپنی ثقافت اپنی تہذیب اپنے گھر اور دیکھے بھالے راستے چھوڑ کر انجان راستوں کی طرف نکل گئے ان کی قربانیوں کو پاکستان نے یاد نہیں رکھا۔

ہم ج‍یسے لوگ جنہوں نے اپنے بڑوں سے اس کبھی آباد تربیلہ کی کہانیاں سنی ہیں آج اس کی صورت نہیں پہچان سکتے۔ ہاں جب پانی اترتا ہے تو شکستہ قبروں اور کھنڈروں سے کچھ مانوس آوازیں ضرور سنائی دیتی ہیں۔ ان کی نسلوں کے لہجے کی تلخی بزبان حال کہۂ رہی ہے کہ قربانی کے لئے منتخب کی جانے والی تہذیبوں کے وارثوں کی داد رسی نہ کی جائے تو کوئی آئندہ قوم کے لیے اپنے تمدن کی قربانی نہیں دے گا اور پھر قربانیوں کا ذکر صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments