آزادی ہے بھی اور نہیں بھی


ہمارے پیارے وطن کی تشکیل کو 73 برس ہو گئے ہیں۔ 14 اگست 1947 کو برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کو ان کے لئے الگ وطن کا قیام جو ان کا خواب تھا وہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی قیادت میں شرمندۂ تعبیر ہوا۔ مگر جیسا آپ عنوان پڑھ کر تھوڑے حیران ہوں گے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ آزاد ملک میں آزادی تو ہوگی مگر آزادی نہیں ہے یہ کیا بات ہوئی؟ مگر اگر ہم اس ملک کے 73 سالہ سفر کا بغور جائزہ لیں تو حقیقت یہ ہے کہ کچھ معاملات میں آزادی ہے اور کچھ میں قطعاً بھی نہیں۔

پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور آبادی کا 95 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں ہمیں دینی معاملات میں بھرپور آزادی حاصل ہے۔ ہم آرام سے اللہ رب العزت کے حضور مسجد میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اذان دینے پر کوئی پابندی نہیں جس طرح بھارت میں اس طرح کی آزادی نہیں ہے۔ یہاں ہم عام دنوں میں بھی گائے کا گوشت کھا سکتے ہیں اور عید الاضحٰی پر بھی ہم سنت ابراہیمی کی ادائیگی میں ہم گائے اللہ کی راہ میں قربان کر سکتے ہیں۔ بھارت میں تو شبہ ہو کہ اگر کوئی مسلمان گوشت لے کر جا رہا ہے تو پورا ایک جتھا اسے گائے کا گوشت قرار دے کر اس مسلمان کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں۔ اور بھی کئی معاملات ہیں دین کے لحاظ سے جو ہم آزادی سے ادا کر سکتے ہیں جو متحدہ ہندوستان میں کبھی بھی ممکن نا تھا۔

مگر دیگر امور پر غور کر لیں۔ یہاں آزادیٔ اظہار نہیں حالانکہ آئین ہر شہری کو آزادی اظہار کا حق دیتا ہے مگر یہاں تو خود آئین آزاد نہیں رہتا۔ چار دفعہ تو آئین قید ہو چکا ہے اور جب چاہیں آپ آئین کو آزاد رکھتے ہیں اور کبھی قید کرتے ہیں۔ اگر آپ غیر مقتدر قوتوں سے سوال کریں اور انہیں کہیں کہ آپ آئین کے تحت اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو آپ کو غدار قرار دیا جائے گا۔ آپ کو گالیاں سننی پڑیں گی۔ سوال اٹھانے والا خود سوال بن جاتا ہے۔ وہ کئی کئی سال یا لاپتہ رہتا ہے یا اس کی لاش برآمد ہوتی ہے۔

رہی بات جمہوریت کی تو وہ خود قید ہے۔ جب دل کرتا ہے جمہوریت کو پنپنے دیا جاتا ہے یا اسے قید کر لیا جاتا ہے۔ آپ کی پارلیمان کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ قانون سازی اور عدم اعتماد کی تحاریک مینیج کی جاتی ہیں۔ انتخاب کے نام پر جو گیٹ نمبر 4 کے آگے سجدہ ریز ہو جائے وہ پارٹی کا سربراہ وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ اسی لئے تو سب کو پتا ہے کہ جب تک ایک قوت آپ کے ساتھ ہے تو آپ ہی اقتدار میں آئیں گے۔ اور جو شخص آئین کی بالادستی اور سویلین سپرمیسی کی بات کرے تو جو اس کا حشر کیا جاتا ہے وہ سب کے سامنے اور اس کی بہترین مثال مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ جو ہوا وہ ہے۔

یہاں پر آپ کو کسی مذہبی معاملات میں سوال کرنے کا حق حاصل نہیں۔ کسی سے آپ اختلاف کریں آپ کو کافر اور مرتد قرار دے دیا جائے گا۔ آپ کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ اقلیتوں کے حق میں ہلکی سی بات کریں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال خواجہ آصف کی مندر والے معاملے پر بولنے کو دیکھ لیں۔ اندراج مقدمہ کی درخواست ہوگئی تھی گستاخی پر۔

یہاں پر صحافت بھی آزاد نہیں ہے۔ سنسرشپ ہے۔ اس وقت مین سٹریم میڈیا وہی نشر کرتا ہے جو اسے کہیں اور سے ہدایات ملتی ہیں۔ اخباروں میں حکومت کے قیام کے پیچھے کرداروں والا حصہ حذف کر دیے جاتے ہیں۔ ٹاک شوز میں ایسی بات کو میوٹ کر دیا جاتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نکلوایا گیا۔ تب بھی تسکین نہیں ہوئی تو ان کا مبینہ اغوا کروایا جاتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال مطیع اللہ جان کا اغواء ہے۔ میر شکیل الرحمن کو 5 مہینے سے ایک کمزور کیس میں پابند سلاسل کیا ہوا ہے۔

یہاں آپ عدلیہ کے فیصلوں پر تبصرہ نہیں کر سکتے ورنہ آپ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہو جائے گا حالانکہ اس وقت عدالت کی توہین نہیں ہوتی جب وہ غیر آئینی اقدام کو جواز فراہم کرتے ہیں اور ایک وزیر اعظم کو متنازع فیصلہ میں پھانسی دے چکے ہیں۔ یہاں پر اگر کوئی منصف کسی اور کے خلاف فیصلہ دے دے تو اس کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ اس کی تازہ مثال جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس وقار سیٹھ ہیں۔

تو یوم آزادی منانے کا کوئی فائدہ نہیں جب منچلوں نے صرف سڑکوں پر ہلڑ بازی کرنا ہو تو۔ ہم اس ملک کے حصول کے لئے جو ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دی ان کو کب کا فراموش کر چکے ہیں۔ یوم آزادی کا منانے کا اصل مزہ تب آئے گا جس دن یہاں پر بولنے کی آزادی ہو، صحافت پر قدغن نا ہو، صاف شفاف انتخابات ہوں۔ ووٹ کی عزت ہو اور عوام کی منشاء سے حکومت کا قیام ہو۔ کسی کو کفر کے فتوے نا جاری کیے جائیں۔ عام افراد کو لاپتہ نا کیا جائے اور واقعی ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے تو یوم آزادی منانے کا فائدہ ہے۔ اس ملک کو ترقی یافتہ بنانا ہے اور آزادی بھی تب ہوگی نا جب ہماری خارجہ پالیسی نا کسی مغربی ممالک کے زیر اثر ہو اور نا معاشی پالیسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے۔ جس دن ہم نے یہ کام کر لیا تو قائد اعظم کی روح بھی خوش ہو جائے گی اور آزادی کا جشن بھی دوبالا ہو جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).