چاند کی بھول



دن بھر کا تھکا ہارا اپنی آستین سے چہرہ صاف کرتے گھر کے پورچ میں گاڑی سے نکلا تو پہلا جھونکا ٹھنڈی ہوا کا لگا جو اپریل کے اوائل کی خوبصورت بہار بھری خوشبو دار رات کے نغمے گنگناتا مجھے چھوتا ہوا گزر گیا۔ اور دوسرا جلوہ مشرق سے ابھرتے ہوئے اس پورے چاند کا تھا جس کی چاندی جیسی چمکتی چاندنی ٹارچ کی لہروں کی طرح زمین کی ہر سمت میں رواں دواں تھیں اور وہ پورا چاند۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”کہاں ہو گی وہ جو مجھے چاند کہتی تھی؟“ میرے دل کو اک درد کی لہر مسلتی ہوئی گزر گئی۔ ”وہ جو کہتی تھی

___To the moon
And never back! ”

میرے قدم کچھ دیر وہیں تھم سے گئے۔ وہ خوبصورت چمکتا روشنی بکھیرتا چاندزرا سی دیر میں مجھ میں روشنی کی جگہ اداسی اتار گیا تھا۔ یہ چاند تو روز نکلتا ہے، یونہی آسماں پر مٹر گشت کرتا رہے گا اور ہر ماہ اپنی کاملیت کا مظاہرہ کرتے چاندی کے تھال میں سے چھلکتی اس کی یادیں بھر کر میرے گھر میں اتر آیا کرے گا۔ دن بھر خود کو کاموں میں الجھائے رکھتا ہوں، سوشل میڈیا بند کر کے موبائل الماری میں رکھ کر بھول جاتا ہوں مگر ہر شام پھیلتے ہی اس کی یاد میرے گھر کے بنیڑے سے اندر کود آتی ہے۔ ہر رات سونے سے کچھ دیر پہلے مجھے اس کے نام کی تسبیح کرنی پڑتی ہے۔

گاڑی کا دروازہ بند کر کے میں گھاس پر بچھائی لوہے کی کرسی پر ڈھے سا گیا اور چاند کو تکتے اسی کو یاد کرنے لگا جو مجھے چاند کہتے کہتے خود اندھیروں میں گم ہو گئی تھی۔

میرا اور اس کا تعلق ہی کیا تھا۔ تھوڑا سا گھڑی بھر کا سوشل میڈیا کا تعلق، کبھی کبھار کے واٹس اپ، کچھ ایمیلز کی داستانیں، ماضی کے کچھ اچھے سالوں کی یادیں اور بس! کچھ تصویریں اس کی جو کبھی کبھار سوشل میڈیا کے صفحات پر نظر آ جاتیں، اس کی وہ گنگناتی آواز جو مہینے بعد بھی میرا ہیلو سنتے ہی مدھر ہو جاتی، وہ جھومتے گاتے الفاظ جب وہ لکھتی تو اک دلربا افسانہ بن جاتی، بولتی تو محبت بھرا اک گیت، دکھتی تو جیسے۔ ۔ ۔ کوئی اپسرا! جانے یہ حسن اس کا تھا یا اس کی محبت کا!

میں جیکٹ اٹھاتا کرسی سے اٹھا اور اندر کی سمت چلا۔
”کیا سچ مچ چھوڑ دو گے مجھے؟“ اس کی آواز کا ردھم میرے قدموں کی دھمک کے ساتھ چلا!
”تمھیں نہ چھوڑوں تو کیا کروں؟ اس کے سوا تو کوئی بھی حل نہیں!“ میرے چلتے بھاری قدموں میں التجا تھی۔

”کچھ مت کرو! میں کب تم سے کچھ مانگتی ہوں! بس تم میرے سامنے رہا کرو! کسی حوالے کسی بہانے سے دکھائی دیتے رہو!“

میرے قدم چلنے سے معذور ہوئے اور میں مڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ ۔ ۔ میرے مڑتے ہی ہوا کا ایک جھونکا مجھے چھیڑتا ہوا گزرا اور میرے سامنے آسماں پر چمکتا چاند قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔

”بس! اتنا ہی غرور تھا تم میں! تم تو کہتے تھے تم صبر کر لو گی تو میں بھی کر لوں گا! ۔ ۔ ۔ ۔ اب کرو نہ صبر!“

”صبر؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں صبر! کیا خبر تھی صبر اس قدر کٹھن اذیت ہے! اتنی لمبی مسافت ہے، ایسی آگ کی بازی ہے!“

میں جھکے کندھوں سے واپس مڑا۔ میں ارادوں کا پکا، میں جراتوں کی باذی، میں قوم کا محافظ، میں دیس کا سپاہی ایسے چلا جیسے ساری بازیاں ہار کر چلا تھا۔

”سپاہی ہو کر ڈرتے ہو؟ میں عورت ہو کر نہیں ڈرتی!“

وہ ہنستی مجھ پر۔ کاش کہ وہ ہنستی ہی رہتی! میرا مذاق اڑاتے مجھے چیلنج کرتی رہتی! مگر وہ۔ ۔ ۔ مجھ سے محبت مانگتی تھی! جو میرے پاس ذرا بھی نہ تھی! جالی والا دروازے کھول کر لاوئنج میں قدم رکھا تو میرے بچے بھاگتے آئے اور میری ٹانگوں سے لپٹ گئے۔ میں نے ان دونوں کو گود میں اٹھایا اور ان کے گالوں پر ایک ایک بوسہ دیا۔ ٹی وی کے سامنے پڑے صوفے پر میں نے ان دونوں کو اتارا اور کاٹ میں سے بڑھ کرآٹھ ماہ کی بیٹی کو اٹھایا جو مجھے دیکھ کر قلقاریاں مار رہی تھی۔

”میں اپنی محبت کتنے ٹکڑے کر کے کہاں کہاں بانٹ چکا ہوں!“
میں نے بیٹی کے گال پر چوما، اسے پچکارا اور ہوا میں اچھالا۔ ”میں ان سے نکلوں تو تم تک دیکھوں!“

کچن میں سے جھانکتی بیوی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ وہ مسکراہٹ جسے دیکھ کر میری تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔ ۔ ۔ یا اتر جاتی تھی! اب بھی کوشش کرتا ہوں اسے دیکھ کر تھکن اتاردینے کی۔ ۔ ۔ کبھی کوشش جیت جاتی ہے کبھی محبت! ”میری جھولی خالی ہے۔ تمھیں کیا دے سکوں گا میں؟“

میری تہہ دامنی تھی کہ بھر نہ پاتی تھی۔ میں مفلس اور قلاش تھا۔ اسے دینے کو اب میرے پاس کچھ نہ تھا۔ اک جھوٹا آسرا بھی نہیں! ”

بیٹی کے گالوں پر بوسہ دیتے مجھے اس کے تمتمایے گال شدت سے یاد آئے، وہ جن کی جگہ کبھی میری بیوی سے بھری نہ جا سکی۔ اس کی نظریں جو ہمشہ پکارتی ملیں، بلاتی، صدائیں لگاتیں۔ اس کی محبت ہمیشہ گھیرتی، رستہ روکتی مجھے پتھر کر دینے والی۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے والوں کے پتھر ہونے کا سنا تھا، ہوتے ہوئے اب دیکھا تھا۔

”ایک دن تم مجھے ڈھونڈتے پھرو گے!“
”تمھاری بھول ہے!“

میں چھیڑتا۔ جب اس کی کال کاٹتا، اس کی بات روکتا، مصروف مصروف کا راگ الاپتا وہ چڑ جاتی۔ جھگڑتی۔ اور آخر تھک کر کہتی۔ مجھے پتا تھا وہ دن کبھی نہ آئے گا۔ وہ مجھے چھوڑ کر جانے والی کہاں تھی۔ وہ تو میرے بغیر ایک پل بھی سہہ نہ پاتی تھی۔ جانے میری بیٹی نے توتلی سی میٹھی زبان میں مجھے کون کون سی کہانیاں سنائی تھی اور میں ان میں سے کوئی نہ سن سکا تھا صرف مسکراتا سر مارتا، سننے کا بہانہ کرتا رہا تھا۔ اسے واپس جھولے میں چھوڑ کر میں کمرے کی سمت بڑھا۔

بیوی نے بڑھ کر میرا بیگ اور کوٹ تھاما اور انہیں الماری میں رکھتی مجھے دن بھر کی داستان سنانے لگی۔ اسے خبر ہی کہاں تھی کہ کتنا عرصہ ہوا میری آنکھوں سے اس کی جھلک کہیں گم چکی تھی۔ اب مجھے اس کے بولنے، ہنسنے، پیار اور حدتوں میں کسی اور کی تلاش رہتی تھی۔ ایک ایسی تلاش جو کبھی ختم ہوئی نہ کبھی پار اتری۔ اک نارسائی میری ہر خواہش کے ساتھ لپٹی تھی۔ بیوی کی زلف سے کھیلتے مجھے کسی اور زلف کی خوشبو نے چھیڑا تھا۔

”بڑھاتی کیوں نہیں انکو!“ میں اس سے بارہا کہتا
” بڑھتے ہی نہیں ہیں“ وہ ہنس پڑتی تھی ہمیشہ۔

مجھے پتا تھا مجھے ٹال کر وہ اپنے لہرییے بالوں کا شوق پورا کرتی تھی۔ وہی اس کے لہرییے بال اب میری بیوی کے گھنے بالوں پر سایہ کیے رکھتے، انہیں دکھنے ہی نہیں دیتے۔

”میری بقیہ زندگی لے لو ناں“ بارہا کہتی! ”
میں اپنے بیوی بچے نہیں چھوڑ سکتا ”میں بے بس ہو جاتا۔

پھر میں نے بیوی بچوں کو رکھ لیا اس نے جدائی کو! ۔ ۔ وہ ساتھ تھی تو ہر پل اسے دینے کو نئی دلیل سوچنی پڑتی تھی۔ اب وہ کہیں نہیں تھی، دلیل کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مگر اس کی دلیل میرے ساتھ ساتھ پھرتی تھی۔ محبت قبول نہ کرتے مجھ سے بھول ہوئی تھی اور اسے خبر نہ تھی کہ یہ بھول اب میرے قدموں سے لپٹ چکی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).